Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Israeli Parliman Aur Amit Halevi Se Mulaqat

Israeli Parliman Aur Amit Halevi Se Mulaqat

اسرائیلی پارلیمان اور امیت ہالیوی سے ملاقات

میری بیوی میرے لیے کئی کوٹ خرید چکی ہے لیکن مجھے کوٹ پہننا پسند نہیں ہے۔ اسرئیل آتے ہوئے بادل نخواستہ ایک کوٹ سوٹ کیس میں رکھ لیا تھا۔ پیر کی صبح اسرائیلی پارلیمان جانا تھا چانچہ وہ پہنا۔ وہاں پہنچ کر ایک سیلفی بنائی اور بعد میں فیس بک پر پوسٹ کی۔

سیکورٹی سے گزر کے ہم عمارت کے اندر گئے اور بار بار خیال آیا کہ بہت کم، گنتی کے چند پاکستانیوں کو یہاں آنے کا موقع ملا ہوگا۔ مہمان خانے میں پہنچے تو ایک گائیڈ ہماری مدد کو آئے۔ ان کا نام موشے تھا۔ لمبا قد، یہ لمبی سفید داڑھی، خوش آواز، خوش اخلاق، میں نے بعد میں عمر پوچھی تو انھوں نے بتایا، 78 سال کا ہوں۔ لیکن چلت پھرت جوانوں والی تھی۔

موشے کوئی گھنٹا بھر ہمارے ساتھ رہے اور پارلیمانی تاریخ سے آگاہ کیا۔ اسرائیل میں پاکستان اور امریکا کی طرح پارلیمان کے دو ایوان نہیں۔ صرف ایک ایوان ہے جسے کنیسٹ کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہودیوں کے انبیا اور بزرگوں کی اسی نام سے ایک جماعت تھی جس کے 120 ارکان تھے۔ اسی مناسبت سے موجودہ کنیسٹ کے بھی اتنے ہی ارکان ہوتے ہیں۔

موشے نے دو عجیب باتیں بتائیں جو میرے علم میں نہیں تھیں۔ ایک یہ کہ اسرائیل کے قیام کو پون صدی گزرنے کے باوجود اب تک آئین نہیں بن سکا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں، جن میں سے ایک اسرائیل کو لاحق بقا کے مسائل ہیں۔ میں نے موشے کو بتایا کہ ہمارا ملک بھی پہلے دس سال سرزمین بے آئین تھا۔ لیکن اس کے بعد تین آئین بنا ڈالے۔ بلکہ ضیا الحق اور مشرف کے ڈھکوسلے ملالیں تو پانچ ہوجاتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ چاہیے ہو تو پاکستانوں سے رابطہ کریں۔

دوسری عجیب بات یہ معلوم ہوئی کہ 75 سال میں 25 انتخابات ہوچکے ہیں لیکن آج تک کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ حکومت ہمیشہ سیاسی اتحاد مل کر بناتے ہیں۔ اسرائیل میں امیدوار الیکشن نہیں لڑتے بلکہ جماعتیں انتخاب لڑتی ہیں۔ جس جماعت کو جتنے ووٹ ملیں، اس کے حساب سے اسے نشستیں دی جاتی ہیں۔ گزشتہ روز میں نے بتایا کہ تھا کنیسٹ کے دس ارکان مسلمان ہیں جن کا تعلق چار مختلف جماعتوں سے ہے۔

موشے نے ہمیں پارلیمان کا دورہ کرایا۔ ایک دیوار پر ماضی اور حال کے ان ارکان پارلیمان کی تصویریں اور مختصر حالات درج تھے جنھیں اسرائیل پرائز مل چکا ہے۔ یہاں پتا چلا کہ دوسرے ملکوں کی طرح اسرائیلی رہنما فقط سیاست کے ہوکر نہیں رہ جاتے۔ بیشتر ارکان مختلف شعبوں کے کامیاب افراد ہوتے ہیں۔ کوئی ماہر تعلیم ہے، کوئی سائنس دان ہے، کوئی ادیب ہے، کوئی بزنس مین ہے۔

موشے ہمیں ایوان کے اندر تک لے گئے جہاں کچھ گھنٹے بعد اجلاس ہونا تھا لیکن اس وقت وہاں چند افراد کے سوا کوئی نہیں تھا۔ مہمانوں کی گیلری میں کرسیوں پر ان یرغمالیوں کی تصویریں لگی تھیں جو حماس کی قید میں ہیں۔ یہ گویا احتجاج تھا کہ حکومت اور پارلیمان ان کی واپسی کے لیے کامیاب کوششیں نہیں کررہی۔

اب ہمارے میزبانوں نے کہا کہ حکمراں لیکوڈ پارٹی کے رکن امیت ہالیوی سے ہماری ملاقات طے ہے اس لیے ان کی طرف چلنا چاہیے۔ موشے نے ان کے کمرے تک ہماری رہنمائی کی۔ امیت ہالیوی دائیں بازو کے رہنما ہیں اور ماضی میں ان کے سخت بیانات تنقید کی زد میں آتے رہے ہیں۔ لیکن ہم سے انھوں نے دھیمے لہجے میں گفتگو کی۔

انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو دشمن نہیں سمجھتے۔ ہم ایرانی عوام کو بھی دشمن نہیں سمجھتے۔ ایرانی رجیم ہمارا اصل دشمن ہے۔ ہم اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ہرممکن قدم اٹھائیں گے۔ فوجی، سیاسی، سفارتی، مالیاتی، جو اقدام کرنا پڑا، کریں گے۔ پھر انھوں نے ابراہام اکارڈ کا ذکر کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابراہام اکارڈ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا بہترین روڈمیپ فراہم کرسکتا ہے اور بیشتر عرب رہنما اس پر متفق ہیں۔

ابراہام اکارڈ کیا ہے؟ یہ معاہدہ یا سمجھوتا چار سال پہلے اسرائیل اور بعض ان عرب ملکوں کے درمیان ہوا جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس سمجھوتے کی رو سے فریقین اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کو رعایتیں دینے پر راضی تھے۔ انھیں دنوں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ لیکن عین اس وقت، جب سعودی عرب اور اسرائیل معاہدے کا اعلان کرنے والے تھے، حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں پر سب سے بڑا حملہ تھا جس میں 1180 افراد ہلاک اور 3400 زخمی ہوئے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائی سے غزہ میں جو نقصان ہوچکا ہے، وہ سب جانتے ہیں۔

میں نے اور حسن بھائی نے امیت ہالیوی سے کچھ مشکل سوالات کیے۔ میں نے انھیں یہ بتاکر کچھ پریشان بھی کیا کہ میں ایران جاچکا ہوں اور وہاں کے نظام اور سیاست کو سمجھتا ہوں۔ یشایا نے اس پر لقمہ دیا کہ مبشر کا تعلق شیعہ خاندان سے ہے جو ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ میں نے کہا، ایران اس قدر منظم طاقت ہے، ان کا مضبوط ڈھانچا ہے، پروکسیز متحرک ہیں، آپ کیسے اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا تصور کرسکتے ہیں؟

امیت ہالیوی نے اس کے جواب میں ایرانی رجیم کو ختم کرنے کا پورا پروگرام پیش کیا۔ انھوں نے باقاعدہ ایک کتابچہ چھاپ رکھا ہے جو ہمیں بھی دیا۔ اس کے مطابق پانچ طریقوں سے ایران کو نشانہ بناکر مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں سفارتی، معاشی اور فوجی دباو کے علاوہ ایرانی رجیم کی اپوزیشن کو تعاون فراہم کرنا اور پروکیسز کا خاتمہ شامل ہے۔ اس ملاقات کے چند دن بعد شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہوا تو مجھے ان کی بات یاد آئی۔

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin