Bhai Sharam Se Mar Gaya
بھائی شرم سے مر گیا
پکی سڑک سے گاؤں کی طرف جو سڑک جاتی ہے وہ بلکل کچی ہے۔ اس کے سارے جوڑ ہلے ہوئے ہیں۔ جگہ جگہ اس کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اتنی سنسان کہ جیسے کوئی اجڑا کھنڈر ہو، اتنا سناٹا کہ مُردوں کے کلیجے ٹھنڈ پڑ جائے۔ شام کے بعد کوئی بھی ادھر سے آنے جانے کی جرات نہیں کرتا۔
اسی بدشکل، خستہ حال سڑک پر، ایک بھائی اپنی بہن کے ساتھ گھر جارہا تھا۔ سورج نے ابھی ابھی کمبل اوڑھا تھا۔ اندھیرے نے روشنی کی زنجیر توڑی اور سڑک پر ٹہلنے لگا۔ اسی سڑک کے ایک موڑ پہ، جہاں سینکڑوں دوشیزاؤں کا غرورِ حسن، تہِ خاک ہوا، چار لوگ اپنا منہ چھپائے، ہاتھوں میں پسٹل، بغلوں میں ڈنڈے دبائے، اپنے شکار کا راہ دیکھتے تھے۔ ان میں سے ایک جو تھوڑا آگے کھڑا تھا۔ اس کے کانوں میں موٹر سائیکل کی آواز ٹکراتی ہے اور وہ کھنگورا مار کر، دوسروں کو حملہ آور ہونے کی اطلاع دیتا ہے۔ جیسے ہی موٹر سائیکل سوار موڑ مڑنے ہی والا تھا۔ تو اس کے دونوں بازؤوں پہ ڈنڈے پڑتے ہیں۔
احساسِ درد اور اچانک حملے سے ہاتھوں کی گرفت ہینڈل پہ کمزور پڑتی ہے اور وہ دونوں بہن بھائی نیچے گر جاتے ہیں۔ وہ چاروں آگے بڑھتے ہیں۔ ان کے سر پہ پستول تان دیتے ہیں۔ ایک کہتا ہے خبردار اگر ہلکی سی بھی آواز نکلی تو تم دونوں کے جسم گولیوں سے بھون دیں گے۔ پھر وہ ان دونوں کو آگے چلنے کے بولتے ہیں۔ اس کا بھائی انکی منتیں کرنے لگتا ہے۔ ان کے پاؤں پڑتا ہے کہ پلیز ہمیں چھوڑ دو، میرے ساتھ میری بہن ہے لیکن انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک آدمی اس کی بہن کا بازو پکڑتا ہے تو وہ اس پہ حملہ کر دیتا ہے۔ اس کے بازو پہ اتنے زور سے کاٹتا ہے کہ سب اسے چھڑوانے لگ جاتے ہیں مگر اس کے دانت تو جیسے بازو کے ساتھ فکس ہوگئے تھے۔ بازو سے خون بہنے لگتا ہے، اس آدمی کی چیخیں نکل رہی تھیں مگر اس کے ایک ساتھی نے اس کے منہ پہ کپڑا رکھ کے چیخوں کو حلق سے باہر نہیں آنے دیا۔ جب وہ اس کا بازو نہیں چھوڑتا، تبھی ان کا ایک ساتھی اس کے بازو پہ گولی چلا دیتا ہے۔ ایک زور دار چیخ اس کا گلا پھاڑ کر فضا میں گم ہو جاتی ہے۔
اس سڑک سے پانچ سو فٹ کے فاصلے پر ایک کھنڈر ہے۔ وہ ان دونوں کو وہاں لے آتے ہیں، ان کے منہ اور ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ یہ کھنڈر وہ جگہ ہے جہاں ان گنت لڑکیاں ان کی ہوس کا نشانہ بن چکی تھی۔ یہ کھیل ہر دوسرے تیسرے دن جاری رہتا۔ جب بھی موٹر سائیکل سوار جس کے ساتھ کوئی عورت ہوتی یہ اسے پکڑ لیتے اس کھنڈر میں لا کر، ان کی عزت و آبرو تار تار کرتے۔ گاؤں کے کئی مرد، کئی عورتیں، کئی کم سن لڑکیاں، ان کی ہوس کا نشانہ بن چکی تھی مگر مجال ہے کہ گاؤں میں سے کسی نے ان کے خلاف کچھ آواز اٹھائی ہو۔ بدنامی کے ڈر سے کسی نے کبھی منہ نہیں کھولا۔ سب گاؤں والوں کو پتہ تھا کہ اس موڑ پہ کیا ہوتا ہے مگر سب یہ راز کسی کونہیں بتانا چاہتے تھے۔ سب کی زبانوں پہ ڈر کا تالا تھا۔ رسوائی اور بدنامی کے ڈر سے پورا گاؤں چپ چاپ بے آبرو ہو رہا تھا۔ گاؤں کی آبادی بھی کچھ زیادہ نہیں تھی اور شاید ہی کوئی گھر بچہ ہو جس پہ یہ قیامت نہ ٹوٹی ہو۔
وہ اس کھنڈر میں بھائی کے سامنے اس کی بہن کو برہنہ کر دیتے ہیں۔ اس کے بھائی کو دو لوگوں نے پکڑ رکھا تھا۔ وہ ان سے خود کو چھڑوا کر اپنی بہن کی طرف بڑھتا ہے۔ تو اس کے پاس کھڑا آدمی اس کے پاوں پہ گولی چلا دیتا ہے۔ وہ وہیں گر جاتا ہے۔ پھر وہ دونوں اس کے بھائی کو پکڑتے ہیں۔ اس کو بھی برہنہ کر دیتے ہیں۔ ان کے چہروں پہ شیطانی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ بہن کی چیخوں کے ساتھ بھائی کی چیخوں کی آواز بھی گاؤں تک پہنچ رہی تھی۔ مگر پورا گاؤں تو جیسے بہرہ ہوگیا تھا۔ ان دونوں کے چیخنے چلانے کی آواز سب کے کانوں میں گر رہی تھی۔ مگر سب کی زبانوں پہ تالے پڑے تھے۔ سب کو سب پتہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ مگر سب گنگ تھے اور ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔
لڑکی کی عمر 15 سال تھی۔ وہ ان چاروں کی وحشت برداشت نہ کر سکی اور وہیں مٹی کی ڈھیری بن گئی۔ لڑکے کی عمر 20 سال ہوتی ہے۔ دو نے اس کے ساتھ بھی قومِ لوط والی حرکت کی۔ اس کی حالت بھی بہت خراب ہو جاتی ہے۔ لڑکی کو مرتا دیکھ کر وہ چاروں بھی بہت ڈر گئے۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا واقعہ تھا جس میں انھیں گولی بھی چلانی پڑی اور ایک لڑکی کی جان بھی چلی گئی۔ وہ وہاں سے جانے ہی والے تھے کہ وہ لڑکا ان میں سے ایک کے پاؤں پڑ جاتا ہے۔ اس کی منتیں کرنے لگ گیا۔ کہ مجھے گولی مار دو۔ جس کی بہن اس کی آنکھوں کے سامنے لٹ جائے۔ لعنت ہے اس بھائی کی زندگی پر۔ پلیز مجھ پر گولیا ں چلا دو۔ میری روح، میرے جسم دونوں کو چھلنی کر دو۔ آپ سب کا احسانِ عظیم ہوگا۔ پلیز مجھ پر رحم کرو، مجھ پہ گولی چلا دو، مجھ پہ گولی چلا دو۔ اس کی آواز آنسوؤں سے بھر گئی۔
اس کے اس قدر گڑگڑانے پہ ایک کو اس پہ رحم آجاتا ہے۔ وہ گولی چلانے کے آگے بڑھتا ہے تبھی وہ لڑکا اتنی پھرتیلی سے اس کا پستول چھین لیتا ہے کہ گولی چلنے تک کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ہوا کیا ہے؟ وہ گولی سیدھا اس کے سینے میں لگتی ہے اور وہ بھی وہیں تڑپتے تڑپتے مٹی ہو جاتا ہے۔ دوسرا اس لڑکے کا ہاتھ زور سے پکڑ لیتا ہے اور پستول چھیننے ہی والا ہوتا ہے کہ اچانک سے گولی چل جاتی ہے اور وہ سیدھی اس کے ماتھے پہ لگتی ہے۔ وہ بھی وہیں گر کا لہو لہو ہو جاتا ہے۔ وہ مزید گولی چلانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کا جسم اس کا ساتھ نہیں دیتا اور باقی دونوں وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔
اپنے آپ کو گھسٹیتے ہوئے وہ لڑکا اپنی بہن کے پاس آتا ہے۔ اسے اس کے کپڑوں سے ڈھانپ دیتا ہے۔ وہ اپنی بہن کو دیکھتا ہے تو اسے اپنے سینے میں درد کی ایک خوف ناک لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس درد کی شدت کی اتنی تیز تھی کہ اس کا دل و جاں مچھلی کی طرح پھڑکنے لگتا ہے۔ پھر گولی کی ایک آواز آتی ہے اور فضا پھر سے بلکل خاموشی اور سناٹے سے بھر جاتی ہے۔ اگلے دن پورا گاؤں دل ہی دل میں بہت خوش تھا اور اس کھنڈر کی آنکھ میں نمی تھی۔ ان دونوں کے والدین کو اب ذلت و رسوائی کا یہ تمغہ لیے بڑھاپے کے دن کاٹنے تھے۔
کون ہے جو ایسے مظلوموں کو انصاف دلائے گا؟ جن کا کوئی گواہ نہیں، کوئی مدعی نہیں، کوئی وکیل نہیں، کسی عدالت میں کوئی رپورٹ نہیں۔ جو چپ چاپ ظلم اور ذلت سہتے ہوئے عدم میں چلے جاتے ہیں۔ یہ گناہ کس کے کھاتے میں لکھے جائیں گے۔ کیا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں؟ کیا اس کے ذمے دار آپ نہیں ہو؟ کیا اس کا ذمہ دار سارا معاشرہ نہیں ہے؟ کیا کل کو خدا ہمارا گریبان نہیں پکڑے گا؟ کیا ہماری خاموشی ظالم کو طاقتور نہیں بناتی؟