Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali
وہ شخص جس نے میری زندگی بدل ڈالی
دُنیا میں بہت سے انسان ایسے ملتے ہیں جن سے مل کر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کتنا سچا، اچھا اور عزت کے لائق ہے۔ میری زندگی میں بہت سے لوگ آئے ہیں جنھوں نے مجھے بہت کچھ دیا ہے لیکن جس شخص کے مجھ پر کبھی نہ ختم ہونے والے احسانات ہیں وہ شخص کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس شخص کو اُردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے اور حلقہ ادب کے لوگ ان کی تحریروں سے واقف ہیں اور ان کےنکتہ نظر کے بارے میں جانتے ہیں۔
محسن خالد محسن ایک شاعر، ناقد، محقق، اُستاد، کالم نگار اور سماجی کارکن ہیں، ان کے تین شعری مجموعے "کچھ کہنا ہے"، دھندمیں لپٹی شام، "آبِ رواں" شائع ہو چکے ہیں۔ کلاسیکی غزل میں تلمیحات کے حوالے سے ان کا پی ایچ ڈی کا کام ہے اور تیس کے قریب ان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ریسرچ جنرل میں مقالات شائع ہو چکے ہیں۔ ڈیلی اردو کالمز، ہم سب، سُخن کدہ، مکالمہ، ترجیحات، رنگِ سخن وغیرہ پر ان کے باقاعدہ کالم شائع ہوتے ہیں، سیاست، سماج، تعلیم، معاشرت اور روزمرہ مسائل پر کھل کر لکھتے ہیں۔
محسن خالد محسن سے میری ملاقات 2016 میں شروع ہوئی۔ ان دنوں میں سخت قسم کا نظریاتی مولوی بننے کی کوشش میں تھا۔ گھر کے حالات خراب ہونے سے درسِ نظامی ادھورا چھوڑ کر مزدوری میں لگ گیا تھا۔ گھر والے کہتے تھے کہ کچھ کماؤ۔ مولوی بن کر کیا کروگے۔ میں خود بھی چاہتا تھا کہ کچھ دال دلیا کروں ورنہ تو بھوکوں مرنا پڑے گا۔
بی اے رٹے مار کر فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا تھا۔ ہم مدرسے پڑھنے والوں کا رٹا بہت پکا ہوتا ہے۔ ڈنڈے کھا کھا کر رٹوں طوطے بنے ہوتے ہیں۔ بی اے کے بعد ایک دو جگہ ہوم ٹیویشن کی کوشش کی۔ شکل تو اچھی تھی اور نیت بھی صاف تھی تاہم داڑھی دیکھ کر لوگ دھتکار دیتے تھےکہ مولوی ہے اس سے کیا بچے کو پڑھنا۔
میں اپنے مولوی پنے کو لے کر بڑا پریشان تھا۔ اکثر سوچتا تھاکہ یار، میں کیا کروں کہ لوگوں کو میرے علم سے غرض ہونی چاہیے نہ کہ چہرے سے۔ خیر، کئی دوستوں سے مشورے کیے کہ آگے کیا کروں۔ کسی نے کچھ کہا اور کسی نےکوئی مشورہ دیا۔ ایک دوست شہزاد صاحب ہیں انھوں نے بتایا کہ محسن خالد محسن کے پاس چلے جاؤ۔ وہ تمہیں ایم اے اُردو کی تیاری کروا دے گا اور چند دن میں تم امتحان میں یقینی نمبر لے لو گے۔
میں نے کہا کہ وہ بندہ تو پیسے لے گا اور مفت میں مجھے وقت کیسے دے گا کہ میں تو اُسے جانتا ہی نہیں۔ شہزاد صاحب نے نمبر دیا اور کہا کہ میرے حوالے سے رابطہ کر لو۔ وہ جہاں بھی ہوگا، تمہیں پاس بلوا کر راہنمائی کر دے گا۔ میں نے اگلے دن ڈرتے ڈرتے انھیں کال کی۔ مجھے خوف تھا کہ بندہ پڑھا لکھا ہے کہیں مفتا سمجھ کر جھاڑ ہی نہ دے۔
پہلی رنگ پر کال پک کرلی اور نہایت سادہ اور لطیف انداز میں سلام کا جواب دیا جو سیدھا دل میں اُتر گیا۔ مختصر تعارف کے بعد انھوں نے مجھے واپڈ ا ٹاون لاہور کے ایک کالج میں بلوا لیا جہاں وہ پیپر چیک کر رہے تھے۔ میں نے گیٹ پر آکر انھیں کال کی، وہ باہر آگئے اور آتے ہی گلے لگا لیا اور کہا کہ یار، اندر تو جانے کی اجازت نہیں ہے، کہاں بیٹھیں۔ میں خاموش کہ یہ بندہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ مجھ سے کہنے لگے: کتابیں لائے ہو، میں نے کہا، جی، ایک لایا ہوں۔ باقی۔۔ انھوں نے کہا، آؤ، ادھر بیٹھ جاتے ہیں۔
کالج کی دیوار کے ساتھ خشک گھاس پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئے اور میں حیران کھڑا رہا کہ کیسا بندہ ہے جو بغیر سوچے یہاں سڑک کنارے بیٹھ گیا ہے اور میں تھا کہ کپڑے خراب ہونے کی وجہ سے جھجھک رہا تھا۔ انھوں نےکہا: میاں، بیٹھ جاؤ، مٹی ہی تو ہے جس سے ہمارا وجود بنایا گیا ہے اور اسی میں آخر کو جانا ہے، تو ڈرنا کس بات کا۔
میری حیرانی اور بڑھ گئی کہ یہ بندہ واقعی اس قابل ہے کہ اس کی شہرت جیسی سُنی ہے۔ محسن خالد محسن یعنی محسن کا بھی محسن۔ انھوں نے مجھے کوئی ایک گھنٹہ بغیر وقفے کے پورے ایم اے اُردو کا سیلیبس مع نمبروں کی تقسیم اور طریقہ کار کے سمجھایا۔ ایک گھنٹہ بعد میری ساری فکر دور ہوگئی اور مجھے حوصلہ ہوگیا کہ اب میں خود سے تیاری کرکے امتحان میں اچھے نمبر لے سکتا ہوں۔
اس دن کے بعد ان سے جیسے دوستی سے ہوگئی۔ شہزاد صاحب کہیں پیچھے رہ گئے اور یہ بندہ میرے دل و ذہن میں اُتر گیا۔ ہر تین دن بعد وہ مجھے اپنے پاس بلوا لیتے اور جو یاد کرنے کو دیا ہوتا وہ سُن لیتے اور آگے کام دے دیتے۔ کہیں کوئی دکھاوا اور غرور نہ تھا۔ سر سے پاؤں تک سادگی اور درویشی سی اس بندے کی شخصیت میں نظر آئی۔
ان دنوں یہ ناردرن یونی ورسٹی سے ایم فل کر رہے تھے اور ڈی پی ایس ماڈل ٹاون میں پڑھا رہے تھے۔ ان کے پاس بیٹھ کر یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کسی پڑھے لکھے بندے کے پاس بیٹھا ہوں۔ ایسے لگتا تھا جیسے اپنی ذات میں مٹے ہوئے شخص کے پاس بیٹھا ہوں۔ ایک محبت سی ان سے ہونے لگی تھی اور نہ چاہتے ہوئے ا ن کی عزت کرنے کو دل کرتا تھا۔
وقت گزرتا رہا اور وہ میری راہنمائی کرتے رہے۔ ایم اے پارٹ ون کے بعد پارٹ ٹو کے امتحان کی تیاری بھی ایسے ہوگئی۔ کبھی ڈی پی ایس کی دیوار کے ساتھ تو کبھی نان چنے کے ٹیبل پر بیٹھ کر تو کبھی چائے والے کے کھوکھے پر بیٹھ کر۔ یہ بندہ جہاں ہوتا وہی بلوا لیتا اور مجھ سے کہتا: حافظ صاحب! بس آجا یا کرو اور جو ذہن میں ہے پوچھ لیا کرو، جگہیں اہم نہیں ہوتی، وقت اہم ہوتا ہے جو لمحہ گزر گیا وہ لوٹ کر نہیں آنے والا۔ ان دنوں ان کی طبیعت میں عجیب سی اُداسی اور بے چینی رہتی تھی۔ پڑھاتے ہوئے کہیں کھو سے جاتے تھے اور پھر کہتے او، یار، یہ بس کیفیات ہوتی ہیں بندہ اپنے بندر کئی غم پالے ہوتا ہے، بس ظاہر نہیں کرتا۔ انسان بھی ایک معمہ ہے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔
اس بندے کی کچھ باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر جاتیں اور کچھ سمجھ آنے کے باجود بالکل سمجھ نہ آتی اور میں ہاں ہاں جی جی کرکے انھیں تسلی کرواتا کہ مجھے سمجھ آرہی ہیں اور وہ میری پریشانی بھانپ کر کہتے، حافظ صاحب! تم بھی نا، یہ کہہ کر ہنس دیتے اور میں بھی ہنس پڑتا۔ ایم اے اُردو کا رزلٹ آیا تو میں اچھے خاصے نمبر لے کر پاس ہوگیا۔ مٹھائی کا ڈبہ لے کر اُن کے پاس گیا، انھوں نے چائے کےکھوکھے پر بیٹھ کر میری کامیابی کی خوشی منائی اور کہا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
ان دنوں میں واقعی ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار تھا اور انھیں بتایا نہیں تھا، پتہ نہیں انھیں کیسے علم ہوگیا۔ میں اماں کو کئی بار اس لڑکی کے گھر والوں کی طرف لے کر گیا تھا لیکن اُس لڑکی کے گھر والے مانتے نہیں تھے اور کہتے تھے کہ لڑکا کچھ کماتا نہیں ہے اور نہ گھر ہے اور نہ کوئی روزگار تو ہم رشتہ کیسے دیں گے۔
یہ بندہ کہتا تھا کہ حافظ صاحب! وہ لڑکی تمہیں چھو ڑ دے گی اور تم بہت روؤ گے۔ ہم بھی بہت روتے تھے، رونا چاہیے اس سے دل کی صفائی ہوتی ہے اور جسم کو غسل مل جاتا ہے اور روح کی کثافتیں دھل جاتی ہیں۔ میں بس ہاں میں ہاں ملاتا رہ جاتا اور بولتے چلے جاتے۔ میں نے ایک پرائیوٹ سکول میں نوکری کر لی تو وہ بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ بندے کو جب تک خود پر اعتماد اور یقین نہ ہو تب تک پڑھانے کا آغاز نہیں کرنا چاہیے۔ ابھی تم کچے اور خام ہو، تمہیں پڑھانا نہیں چاہیے۔
جھوٹ بولنے اور منع نہ ہونے پر ایک دن انھوں نے مجھے اسی بات پر ڈانٹا کہ تمہیں ابھی پڑھنا ہے ابھی نوکری کے لیے مت بھاگو۔ میں نے اُن کی بات نہیں مانی تو انھوں نے سختی سے ڈانٹ کر مجھے بھگا دیا۔ اگلے دن میری سکول سے کسی بات پر چھٹی ہوگئی اور میں روتا ہوا اماں کو لے کر اس بندے کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ جو سفر میں اس سے پہلے کر چکا ہوں وہ یہ بائی پاس کیسے کر سکتا ہے۔ خیر، جو ہوا، ٹھیک ہوا۔ اب تم میرے پاس آیا کرو اکیڈمی میں۔
ان دنوں یہ صاحب کتابوں کو پھاڑ پھاڑ کر سلیبس کی کتابوں میں رکھتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ یہ اکیڈمی والے بڑے ظالم ہیں، فارغ وقت میں کچھ اور پڑھنے نہیں دیتے اس لیے کتاب کو پھاڑ کر سلیبس کی کتاب میں رکھ لیتا ہوں تاکہ لیکچر شپ کی تیاری کر سکوں۔ میں نے پوچھا کہ یہ لیکچر شپ کیا ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کالج میں سرکاری نوکری کے لیے تیاری کرنا پڑتی ہے۔ میں یہی چلہ کاٹ رہا ہوں۔
میں نےکہا آپ تو اچھے خاصے سکول میں پڑھاتے ہیں پھر کالج میں جانےکی کیا ضرورت ہے۔ فرمانے لگے، حافظ صاحب! بندے کا سفر کہیں رُکنا نہیں چاہیے۔ آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ چھے ماہ بعد ان کی لیکچر شپ ہوگئی اور یہ ڈسکہ چلے گئے اور میں اکیلا رہ گیا۔ اس دوران میں نے بی ایڈ کر لیا۔ پنجاب حکومت نے ٹیچنگ کی جابز نکالی تو بتائے بغیر خاموشی سے اپلائی کر دیا اور خوش قسمتی سے میری ملازمت لاہور ہی میں ہوگئی۔
انھیں خوشخبری کی خبر دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے یہی وہ موقع تھا جس کے لیے تمہیں تیار کیا گیا تھا۔ اس سفر کو یہاں روکنا نہیں ہے پڑھتے رہو اور آگے بڑھتے رہو۔ اس کامیابی کے بعد یہ بندہ میرا آئیڈل، پیر و مرشد اور راہنما بن چکا تھا۔ خدا سے کچھ اور مانگنےکی خواہش ہی نہ رہی تھی۔
ہاں، یاد آیا، وہ لڑکی واقعی مجھے ایک دن پاس بلا کر کہنے لگی کہ تم بے روزگار ہو، ابا نہیں مانے گے، اس لیے آج کے دن تم اور میں ہمیشہ کے لیے اجنبی ہو جائیں گے۔ ایک ہفتہ دن رات رونے میں گزرا اور اُس بے وفا کو بھلانے میں۔ ملازمت کا آفر لیٹر ملا تو سب اداسی وغیرہ غائب ہوگئی۔ اس کے بعد میں سارا دن سکول اور شام اکیڈمی میں گزارتا اور کبھی کبھار ملاقات کی غرض سے پیرو مرشد کے پاس چلا جاتا اور ان سے شاعری وغیرہ سنتا اور تصوف وغیرہ پر کھل کر گفتگو ہوتی۔
ان کی شادی 2018 میں ہوئی اور پھر چل نہ سکی۔ انھوں نے تعلیم جاری رکھی او ر نادردن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کر لی۔ دس بارہ کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور دو، چار چھپوا بھی لیں۔ گزشتہ تین، برس سے میں ایم فل میں داخلہ لینے کی کوشش میں رہا اور ان سے کہتا رہا کہ مجھے تیاری کروا دیں لیکن وہ کہتے کہ شادی کرو اور دو، بچے پیدا کرنے کے بعد ایم فل میں داخلہ لینا ہے۔ میں ضد کرتا کہ آپ کی شادی تو چل نہیں سکی اور مجھے دو، دو، بچے پیدا کرنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔
کہنے لگے، حافظ صاحب! کچھ فیصلے انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے، خدا مجھ سے کوئی اور کام لینا چاہتا ہے اس لیے آزمائش در آزمائش میں ڈالے رکھتا ہے۔ یہ انسان کے ظرف پر ہےکہ وہ کون سی چیز لے لیتا ہے اور کیا ترک کرتا ہے۔ تین ماہ قبل جی سی یونیو رسٹی میں میرا یم فل میں داخلہ ہوگیا تو مجھے اس بندے کی کہی ہوئی باتیں یاد آئیں۔
دو، دو، بچوں کے ساتھ گھر کی ذمہ داری ہونے کے باوجود بیگم کے ساتھ نے واقعی مجھے اب یہ سہولت اور وقت دیا ہے کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ گزشتہ ہفتے مہینوں بعد ان سے ملاقات ہوئی، خوب باتیں ہوئیں اور فرمانے لگے کہ اب تم پک گئے ہو اور خود سے کچھ کہنے اور لکھنے کے لائق ہو گئے ہو، اس لیےکچھ نہ لکھنے کی مشق کیا کرو۔
آج میں کافی دیر تک بیٹھ کر آج سوچتا رہا کہ میں ان پر کیا لکھوں اور کہاں سے لکھنا شروع کروں۔ قلم اُٹھائی اور جو ذہن میں آیا رقم کر دیا۔ محسن خالد محسن کی شخصیت، شاعری، کام اور ادبی خدمات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ کالم کی طولات کے خوف کی وجہ سے جاتے جاتے ان کے کچھ اشعار سنتے جائیے۔
بظاہر خوش دکھائی دے رہا ہوں
مگر اندر کی حالت مختلف ہے
یاد کے کے حسین لمحوں کو
رات دن آہیں بھرتے رہنا تم
کتنا غم میں تڑپا ہوگا
رونے سے دل ہلکا ہوگا
اک رستے پر چلتے رہنا
پھر ہی کوئی در، وا ہوگا
دل ہےنادان کیا کیا جائے
دُکھ جو دیتا ہے اُسی پرمرتا ہے
میں انھیں دور سے دیکھ سکتا ہوں بس
لوگ جو صورتِ آسماں ہو گئے