Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang
روس، نیوکلیر ڈاکٹرائن اور تیسری عالمی جنگ
طاقت کا توازن امن و شانتی کی ضمانت تو نہیں ہوتا مگر کافی حد تک امن برقرار رکھنے میں سہولت کار ہوتا اور ہو سکتا ہے۔ طاقت کے بگڑتے توازن انسانوں کی بستی "دنیا" کو غیر یقینی و ہیجان زدہ صورت حال میں لا کھڑا کرتے ہیں اور ہیجان زدہ صورت حال میں جذبات غالب ہو کر دنیا کے امن اور آٹھ ارب انسانوں کے گھر"دنیا" کے لئے سنجیدہ پریشانی اور جنگوں کے امکانات کو طاقتور ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ گویا عصر حاضر میں طاقت کا ہونا اور توازن میں ہونا امن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے وگرنہ بدلتے و بگڑتے طاقت کے توازن "دنیا" کو جنگوں میں جھونک سکتے ہیں اور جنگوں کی لپیٹ میں گھرا مشرق وسطی اور یوکرائن و روس غیر متوقع طور پر تیسری عالمی جنگ کے لئے "ہاٹ سپاٹ" بن سکتے ہیں اور مشرق و مغرب سے شمال و جنوب تک موجود دنیا لپیٹ میں آ سکتی ہے۔
کچھ دن قبل یوکرائن نے روس کے اندر جنگ زدہ علاقوں سے آگے پہلی دفعہ شہری و دفاعی تنصیبات کو بین البراعظمی میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے اور گویا بجھتی آگ کو نئی چنگاری دکھا دی ہے اور انہی حملوں کی بنیاد پر روس نے سیکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی نیوکلیئر ڈاکٹرائن دنیا کے سامنے پیش کر دی ہے جو کہ امن کی خواہاں "دنیا" کے لئے پریشان کن ہے۔ عالمی میڈیا میں روس کی نیوکلیئر ڈاکٹرائن نے تیسری عالمی و ایٹمی جنگوں کی بحث شروع کر دی ہے جو کہ ختم ہی نہیں ہو پا رہی اور حالات جنگوں کی حمایت میں سازگار ترین ہوتے معلوم ہوتے ہیں کیا یہ سب معاملہ ایسے ہی ہے؟ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے امریکن الیکشن جیتنے اور بائیڈن کے الیکشن ہارنے جیسا اہم ترین واقعہ دنیا کے منظر نامے پر شدید طور اثر انداز ہوا۔ امریکہ اور نیٹو یوکرائن کو فراہم کرنے والے ہتھیاروں کے ساتھ یوکرائن کو معاہدوں میں رکھتے تھے کہ یوکرائن ان ہتھیاروں و میزائلوں کو صرف دفاعی مقاصد کیلئے استعمال کرے گا اور روس کے ساتھ سرحدی علاقوں تک میزائلوں کو استعمال کیا جائے گا، مگر الیکشن ہارنے کے بعد بائیڈن نے جنوری میں وائٹ ہاؤس کو خالی کرنے سے قبل ہی یوکرائن کو میزائلوں کو دفاعی مقاصد کی بجائے دور روس میں گہری آبادیوں میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی اور معاہدوں کو تبدیل کر دیا۔
نیٹو کے اہم ترین اتحادی فرانس پہلے ہی یوکرائن کو دئیے جانے والے میزائلوں اور ہتھیاروں کو دفاعی باڈر لائن سے دور روس کی گہری آبادیوں میں استعمال کرنے کا حامی تھا مگر نیٹو کا اہم رکن جرمنی جنگ کی حدت کو محسوس کرتے اور دوسری عالمی جنگ کے زخموں کو دیکھتے ہوئے یوکرائن کو معاہدوں میں اٹیکنگ پالیسی دینے کے خلاف تھا۔ مگر الیکشن ہارتے ہی بائیڈن انتظامیہ نے یوکرائن کو معاہدوں میں اٹیکنگ پالیسی کے تحت بین البراعظمی میزائلوں کی روس کی گہری آبادیوں میں استعمال کی اجازت دے دی اور تھکی ہوئی یوکرائن فوج نے بین البراعظمی میزائلوں کو استعمال کر ڈالا۔
یوں امریکہ کے پالیسی بدلتے ہی روس گویا انتظار میں تھا اور روس نے نیوکلیئر ڈاکٹرائن ہی تبدیل کر ڈالی اور گویا نہیں یقینی طور پر دنیا نے تیسری عالمی جنگ کی طرف ایک اور قدم بڑھا دیا۔ روس کی نئی نیوکلیئر ڈاکٹرائن پالیسی کے مطابق کوئی بھی ملک روس پر حملا آور ہوتا ہے اگر وہ ملک نیوکلیئر اثاثے نہیں رکھتا مگر کوئی اور ایٹمی اثاثوں کا حامل ملک روس کے اوپر حملا آور ملک کو ہتھیاروں کی فراہمی اور مدد فراہم کرتا ہے تو روس اپنے دفاع کے حق میں ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے جبکہ پرانی پالیسی کے مطابق روس صرف ایٹمی اثاثے رکھنے والے حملا آور ملک کے خلاف ہی ایٹمی صلاحیت کو استعمال کرے گا۔ روس کی نئی نیوکلیئر ڈاکٹرائن نیٹو اور امریکہ کے لئے بڑی واضح اور سنجیدہ ہے کہ اگر امریکہ اور نیٹو یوکرائن کو ہتھیاروں کے فراہمی اور ہتھیاروں کے استعمال پر کنٹرول نہیں کرے گا تو دنیا کا امن اندیشوں میں رہے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری سے منصب صدر سنبھالنے کے بعد ان پر دباؤ رہے گا کہ یوکرائن جنگ کے خاتمے کیلئے ووٹ حاصل کرنے والے ٹرمپ یوکرائن تنازعہ کو کیسے حل کرواتے ہیں۔ بد ترین مہنگائی کی لپیٹ میں گھرا یورپ، امریکہ، کینیڈا اگر یوکرائن تنازعہ میں سیکڑوں اربوں ڈالر مزید جھونکیں گے تو مہنگائی اور اقتصادی امور کو داخلی سطح پر کیسے حل کریں گے۔ یورپ خاص طور پر یوکرائن تنازعہ کی وجہ سے مالی بد حالی اور مہنگائی کی زد میں ہے اور جرمنی جیسے اہم اتحادی کی طرف سے نیٹو پر دباؤ ہے کہ تنازعہ اور جنگ کو حل اور مذاکرات کی طرف لے کر آیا جائے تاکہ اقتصادیات کو بہتر کیا جا سکے، اسی ضمن میں جرمنی کے چانسلر نے برف کو پگھلاتے ہوئے پیوٹن کو فون پر رابطہ بھی کیا اور مذاکرات کا راستہ اپنانے کی دعوت بھی دی، یہ رابطہ نیٹو کے لئے بھی جرمنی کی جانب سے جنگ کی حدت کو ختم کرنے میں کلیدی و خاموش پیغام ہے۔
مگر کیا روس بھی جنگ بندی اور مذاکرات و یوکرائن کو قبضہ شدہ علاقہ واپس کرنے پر تیار ہو پائے گا؟ سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد پہلی دفعہ ہے کہ روس حالیہ جنگ میں اچھی پوزیشن اور فاتحانہ طرز پر ہے مگر اس کے باوجود بھی روس و پیوٹن یوکرائن کو اچھی آفر اور مذاکرات میں کچھ نہ کچھ فیس سیونگ دے سکتے ہیں کیونکہ دو سال کی طویل جنگ میں روس نے بھی کافی جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے اور روس فاتحانہ انداز میں جنگ کے اختتام کو پسند کرے گا۔
تصویر کے دوسرے رخ میں امریکن تھنک ٹینک ٹرمپ کو چاہے جنگ و مالی و فوجی امداد بڑھانے کا مشورہ دیں گے مگر ٹرمپ الیکشن کے نتائج میں ملنے والے ووٹوں اور حکومت کو اہمیت دیتے ہوئے یقینی طور پر جنگ بندی کو زیر غور لائیں گے ویسے بھی تمام وعدوں اور دعوٰی کے باوجود امریکہ و نیٹو افغانستان سے بھی خاموشی سے نکل گیا تھا۔ مگر امریکہ و موجودہ عالمی حالات میں امریکہ کے اتحادیوں پر امریکہ کی یہ پالیسی یقینی طور پر اثر انداز ہوگی۔ دوسری طرف چین بھی روس کا حامی ہونے کے باوجود روس کو جنگ بندی کا مشورہ ہی دے گا کیونکہ چین یورپ کی مارکیٹوں میں سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہے اور چین اپنے اقتصادی امور کو ترجیح میں ہی رکھے گا تاکہ پر امن ماحول میں اکانومی کی سطح پر عالمی طاقت کا تسلط قائم کر سکے۔
قارئین گرامی جنگیں غلط اور صیح کا فیصلہ تو نہیں کرتیں مگر جنگیں یہ ضرور طے کرتی ہیں کہ باقی کیا بچے گا؟ آٹھ ارب سے زائد انسانوں کے گھر"دنیا"کے امن کو برقرار رکھنے کے لئے انسانوں کو ہی اہم ترین کرار ادا کرنا ہے کہ جنگوں سے محفوظ"دنیا" کا امن ہی آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لئے اہم ہے اور بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں دفاع پاکستان کو مزید مضبوط بنانا بہت اہم ہے۔