مَنصب ِ قضاء کا معیار
نئے سال کی دہلیز پر قد م رکھتے ہوئے بھی طلوعِ سحر کے آثار کہیں نظر نہیں آ رہے، قو م ایک بار پھر مایوسی اور بے یقینی کے وسوسوں میں گِھرگئی ہے۔
باشعور طبقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ قومی اداروں کی سمت کیسے درست کی جائے اور ان کے درمیان باہمی آویزش دور کر کے ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے، ملک کے روشن مستقبل کا خواب دیکھنے والے باشعور خواتین و حضرات سیاسی، عدالتی، عسکری قیادت کے درمیان ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
چند روز قبل وفاقی دارالحکومت میں راقم کی کتاب، Straight Talk کی تقریب ِ رونمائی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سابق سربراہان، اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز (ر) چیف جسٹس اور سابق سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری دفاع نے بھی ڈائیلاگ کی اہمیت سے اتفاق کیا، اُسی محفل میں کتاب کے ایک اہم باب New Charter of Pakistan، میں درج اعلیٰ عدالتوں میں تقرری کے طریقہء کار کے بارے میں راقم کے تحفّظات اور تجاویز پر اظہارِ خیال کرتے ہو ئے یہ تسلیم کیا گیا کہ ججوں کی تقرری کے طریقہء کار میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
خواب و خیال کی دنیا میں بسنے والے بہت سے لوگ اوپر سے اترنے والے کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں، جو مسیحائی کے ساتھ ساتھ خمینائی اوصاف بھی رکھتا ہو اور ہر دو اَوصاف کو بروئے عمل لا کر قوم کی تقدیر بدل دے۔ راقم کے خیال میں یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں، اگر سیاسی عمل جاری رہے اور سیاسی نظام کو خرافات سے پاک کر لیا جائے تو بتدریج بہتر قیادت میسر آ سکتی ہے۔
مگر کیا موجودہ سیاسی قیادت کے کمتر معیار اور کردار کے ہوتے ہوئے اداروں کی سمت درست کی جا سکتی ہے؟ ملک کی صورتِ احوال بہتر ہو سکتی ہے؟ ا ور قوم کو مایوسی سے نکالا جا سکتا ہے؟ میرا جواب ہے، ہاں! یہ سب ممکن ہے اگر ملک کی عدلیہ اس کی روح کے مطابق آئین کی پاسبانی کرے تو باقی تمام ادارے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کا معیار بلند کرنا ہو گا اور اس کے لیے تقرری کا طریقہء کار تبدیل کر نا ہو گا۔ کتاب کی تقریب میں بھی اور بعد میں بھی کچھ ریٹائرڈ جج صاحبان اور کئی سینئر وکلاء نے راقم سے اِس موضوع پر مزید لکھنے کو کہا۔ کیونکہ عوام کو اور خاص طور پر قانون شناس طبقے کو sensitise کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا کچھ بنیادی اور اہم باتیں قارئین کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہیں۔
منصبِ قضاء کی عظمت کا ادراک کرنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ یہ فریضہ خود نبی کریم ﷺ نے انجام دیا اور آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین ؓ بھی یہ ذمیّ داری انجام دیتے رہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ عظیم منصب کئی موقعوں پر بے توقیر ہوا ہے۔
ایک اہم عدالت کے ایک سینیئر جج (جس نے ملک کے سابق وزیراعظم جیسی اہم ترین شخصیت سمیت کئی لوگوں کو قید کی سزا ئیں دیں ) کی فحش اور قابلِ اعتراض ویڈیو کے ذریعے اس کے جرائم سامنے آئے تو خود چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ کہنا پڑا کہ اس جج کے کرتوتوں سے پوری عدلیہ کا سر شرم سے جُھک گیا ہے۔ اس کے بعد قانونی اور سماجی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ پاکستان میں ایسے پست کردار کے لوگ کسطرح عدلیہ کے اہم عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ کہ اسلامی جمہوریہء پاکستان میں منصبِ قضاء پر فائز ہونے والے شخص کا کیا معیار ہونا چاہیے؟
ملک میں ہونے والے ہر عمل کو ملکی قوانین کی نظر سے ہی دیکھا جانا چاہیے۔ تو آئیں دیکھتے ہیں کہ قاضی یا جج کے معیار کے متعّلق ملک کا آئین یعنی سپریم لاء کیا رہنمائی فراہم کر تا ہے۔ ہمارے ملک کے دین بیزار طبقے نے، جو ماضی میں لیفٹسٹ کہلاتا تھا اور اب اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ آئین کے ساتھ قرادادِ مقاصد Objective Resolution)) کا پیوند مولویوں نے زبردستی لگا دیا ہے۔ یہ تاثّر سرا سر غلط ہے۔
یہ دراصل مسلم لیگ کی طرف سے تحریکِ پاکستان کے دوران کیے گئے وعدوں کی تکمیل کا اعلان تھا۔ یہ دستاویز بانیانِ پاکستان کی جانب سے ایفائے عہد کا عزم تھا۔ تحریکِ پاکستان کے پورے عرصے میں مسلم لیگی قیادت کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ ہم ایک نیا ملک اس لیے چاہتے ہیں تاکہ وہاں مسلمانوں کے معاشی، سیاسی، مذہبی اور سماجی حقوق کا تحفّظ ہو سکے اور مسلمان وہاں آزادی کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اقدار کا نفاذ کر سکیں اور ان کے مطابق زندگیاں گزار سکیں۔
پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا تو نئے ملک کے باسیوں نے حکومت کی جانب دیکھنا شروع کیا کہ وعدے کے مطابق نئی ریاست میں اسلام کا سوشل جسٹس سسٹم کب نافذ کیا جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ کی زندگی نے وفا نہ کی، مگر ان کے بعد مسلم لیگ کے قائد اور ملک کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے (جوکہ مولوی نہیں تھے بلکہ ایک بڑے نواب اورآکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہو ئے اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے مگر ہمارے لبرلز کیطرح کسی احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں تھے) جنھیں اپنے وعدوں اور اپنی ذمے داری کا مکمّل ادراک تھا خود پیشرفت کی اور انھی کی تحریک پر ملک کے جیّد علماء نے متحد ہو کر ایک متفقہ دستاویز تیا ر کر کے حکومت کو دی جسکا خلاصہ یہ تھا کہ نئے پاکستان میں کوئی قانون قرآن اور سُنّت کے منافی نہیں بنایا جائیگا۔
جب ملک کا آئین بنا تو قرارداد مقاصد کو آئین کاPreamble بنا دیا گیا یعنی 1956 سے اس کی حیثیّت آئین کے دیباچے یا تعارف کی ہے۔ بعد میں اسے آرٹیکل A) 2( کے تحت 1973کے آئین کا حصّہ بنا دیا گیا۔ 1949میں جس قانون ساز اسمبلی نے یہ قراردادِ مقاصد پاس کی اسمیں مولانا شبیّر احمد عثمانی ؒکے سوا کوئی مذہبی شخصیت اسمبلی کی ممبر نہ تھی جب کہ اس قرارداد کے پر جوش حامیوں میں قائد اعظم ؒ کے معتمد ترین ساتھی لیاقت علی خان، سردار عبدالرّب نشتر، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی) ڈاکٹر عمر حیات ملک (سابق پرنسپل اسلامیہ کا لج پشاور) اور بیگم شائستہ اکرام اللہ (سابق سفیر پاکستان ) جیسے لوگ شامل تھے۔
اس دستاویز میں اللہ کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ کا ئنات کی حکمرانی صرف اللہ کی ہے۔ ریاستِ پاکستان کا نظم و نسق چلانے کی ذمے داری یہاں کے بَاشندوں کو دی گئی ہے جو ایک امانت کے طور پر اللہ کی قائم کردہ حدود کے مطابق یہ ذمے داری نبھائیں گے۔ قرادادِمقاصد پا س ہونے کے موقع پر لیاقت علی خان نے اسے "قیامِ پاکستان کے بعد سب سے اہم واقعہ" قرار دیا۔
لہٰذا اِسوقت صورتِ حال یہ ہے پاکستان کے آئین کے مطابق نہ ہی پارلیمنٹ میں کوئی ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جو قرآن اور سنّت کے منافی ہو اورنہ ہی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا کوئی جج ایسا فیصلہ دے سکتا ہے جواسلا می احکاما ت کے منافی ہو۔ اگر کوئی ایسا قانون بنائیگا یا کوئی ایسا فیصلہ دیگا تو اس کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیّت نہیں ہو گی، وہ null and void قرار پائیگا۔
ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین سے بالا ادارے نہیں ہیں بلکہ اُنکی اپنی تخلیق اور تشکیل آئین میں دی گئی ہدایا ت کے مطابق ہوتی ہے۔ لہٰذا ملک کے حکمران اور چیف جسٹس آف پاکستان اس بات کے پابند ہیں کہ وہ جج صاحبان کی تقرری اسلام کے وضع کردہ معیار اور ایک منصف کے لیے اسلام کی بنیادی شرائط کے مطابق کریں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ آئین میں تو صر ف یہ درج ہے کہ متعلقہ شخص کا دس سالہ وکالت کا تجربہ ہو اور اس کی عمر چالیس سال سے کم نہ ہو تو وہ اعلیٰ عدلیہ کا جج مقرر ہو سکتا ہے تو یہ دلیل درست نہ ہو گی کیونکہ جب آئین میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنایا جائیگا تو قدرتی طورپر اس کا مطلب یہی ہو گا کہ پورا شعبہ قَضاء اِسلام کے احکامات اور گائیڈ لا ئینز کے مطابق تشکیل پائے گا، اور اسمیں کوئی ابہام نہیں ہے کہ ملکی قوانین کو نافذ کرنے والے اور آئین کی تشریح کرنے والے جج صاحبان کا تقرّر اسلام کے راہنما اصولوں کے مطابق ہی کیا جائیگا۔
اسلام کے معیار اور شرائط پر بات کرنے سے پہلے قارئین کے ساتھ ایک واقعہ شیئر کرنا چاہونگا۔ ایک بار لنکنز اِن (برطانیہ ) میں بارایٹ لاء کرنے والوں کے سالانہ عشائیے میں برطانیہ کے لَیجنڈری چیف جسٹس Lord Denning مہمانِ خصوصی تھے۔ معزز اور قابل جج کا پورے یورپ میں ڈنکا بجتا تھا اور ان کے فیصلوں کو پوری دنیا میں بطور نظیر پیش کیا جاتا تھا اور اب بھی کیا جاتا ہے۔
باکمال جج کی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک نوجوان بیرسٹر نے کھڑ ے ہو کر پوچھا "سر! ایک اچھے جج میں کیا اوصاف ہونے چاہئیں؟ " عظیم جیورسٹ نے بلا تو قّف جواب دیا "ایک اچھے جج کو ایماندار، باکردار، اور خدا خوف ہونا چاہیے، اور اگر وہ کچھ قانون بھی جانتا ہو تو یہ اس کی اضافی خوبی ہو گی" انگریز جج نے ایک فقرے میں مَنصبِ قضاء کے لیے کردار کی پاکیزگی اور ایمانداری کی اہمیت بیان کر دی۔
انصاف کا تصور انسانوں کے لیے ان کے خالق کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے۔ کائنات کے خالق اور مالک نے اپنی آخر ی کتاب میں بار بار انصاف کی تلقین کی ہے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ہر صورت اور ہر حال میں انصاف کر و اگر تمہیں (انصاف کو یقینی بنانے کے لیے) اپنے عزیز و اقارب، یا اپنے والدین یا اپنی ذات کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے یا فیصلہ کرنا پڑے تو بھی کر جاؤ اور انصاف پر کبھی Compromise نہ کرو، کبھی لغزش نہ کھاؤ اور انصاف کے لیے اللہ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ۔
(جاری ہے)