اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسہ
پانچ سو سالہ مسلم تاریخ کے سب سے بڑے مفکّر اور شاعر اقبالؒ نے جب کہا تھا کہ
؎
اللہ کو ہے پامردیٔ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یو رپ کی مشینوں کا سہارا
تو اللہ کو ربّ العالمین نہ ماننے والوں نے مذاق اڑایاکہ یہ غیر حقیقی بات ہے، مشینوں کی طاقت سے مرعوب ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کو بھی شعر کا مطلب سمجھنے میں مشکل پیش آتی تھی مگر اب کُل جہان نے دیکھ لیا کہ افغانستان کے پہاڑوں، میدانوں اور صحراؤں میں پامردیٔ مومن نے جدید ترین مشینوں کی طاقت کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
دنیا کے طاقت ور ترین ملکوں کی مشترکہ فوج کو شکست دیکر اور ان کا غرور، قندہار، ہرات، اور مزارِ شریف کی مٹّی میں ملا کرطالبان نے پوری دنیا کو اقبالؒ کے اس شعر کا مطلب سمجھا دیا ہے۔ مگر ایسا معجزہ وہی مومن انجام دے سکتے تھے جن کاذکر شاعرِ اعظمؒ نے اس طرح کیا ہے کہ
؎
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
کائناتوں کے مالک نے ایسے ہی مومنوں کے ساتھ وعدے کررکھّے ہیں کہ
؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
کالی پگڑیوں والے بے وسیلہ جانثاروں نے بدر و حنین کے جذبے پیدا کرلیے تو اللہ نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا۔ آج سے بیس سال پہلے جب افغان سرزمین کی ایک ایک انچ پر آگ اور بارود کی بارش کی گئی اور لاکھوں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچّوں کو ہلاک کرکے امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ کابل پر قابض ہو گیا تو کسی مغربی صحافی نے ملّا عمر سے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ "آپ تو بہت جلد شکست کھاگئے" جس پر افغانستان کے بوریا نشین حکمران نے پورے اعتماد اور یقین سے کہا تھا، "جنگ تو اب شروع ہوئی ہے، جب اس کا انجام ہوگا تو پھر مجھ سے آکر سوال پوچھنا"۔ امریکی اور یورپی صحافیوں نے جنگ کا انجام دیکھ لیا ہے اور انھیں اپنے سب سوالوں کے جواب مل گئے ہیں۔
کل رات امریکی چینل سی این این کا معتبر صحافی فرید زکریا بار بار ذکر کرتا رہا کہ ایک طرف دنیا کے جدید ترین اسلحے سے لیس امریکا اور نیٹو کی ڈیڑھ لاکھ فوج تھی جس کے ساتھ امریکیوں کی تربیّت یافتہ تین لاکھ افغان فوج بھی تھی اور دوسری جانب پھٹے جوتوں اور بوسیدہ کپڑوں والے فرسودہ بندوقوں سے مسلّح پچاس ساٹھ ہزار طالبان۔ وہ مختلف لوگوں سے پوچھتا رہا کہ اس بے جوڑ مقابلے میں اتنی طاقتور فوج کیوں شکست کھاگئی؟ پھر اس نے خود ہی طالبان کے کسی لیڈر کا دیا ہوا جواب دُھرایا کہ "ہم اللہ کی خوشنودی کے لیے جب کہ ہمارے مخالف پیسے کے لیے لڑتے ہیں "۔
ذہن صدیوں پیچھے چلا گیا جب انھی مومنوں کے آباء نے روم اور ایران کی سلطنتوں کو روند ڈالا تھا۔ اُس وقت کے رومی جرنیل نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل خالدؓ بن ولیدسے پوچھا، "آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے صرف تیس ہزار کی فوج سے تین لاکھ کی فوج کو شکست دے دی ہے اور آپ جہاں جاتے ہیں فتح یاب ہوتے ہیں، یہ راز کیا ہے"؟ عظیم جرنیل نے جواب دیا، "ہم موت سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتناتم زندگی سے کرتے ہو"پھر وضاحت کی کہ ہمارے ہر سپاہی کی سب سے بڑی آرزوشہادت ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور شہادت کے لیے لڑنا ہی جہاد ہے، اور یہی وہ جذبہ ہے جو اسلامی فوج کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
یہ جذبۂ جہاد اسلامی فوج کے لیے ایٹمی قوّت ہے، تبھی تمام بڑی طاقتیں اس سے خائف ہیں اور اسی لیے وہ صدیوں سے اس قوّت کے خاتمے کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ یہ کوششیں ہمیشہ ناکام رہیں مگر 9/11کے بعد جنرل مشرّف امریکا کے سامنے لیٹ گیا اور اس نے پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج کو اس ناقابلِ تسخیر قوّت یعنی جذبۂ جہاد سے محروم کرنے کی مذموم کوششیں کیں۔ اس پاک سرزمین میں جہاد کا لفظ ممنوع ہو گیا۔ بلاشبہ اسلامی سپاہ کے ہاتھوں سُپر پاورز کی یہ عبرتناک شکست اﷲ کا معجزہ ہے۔ رومن ایمپائرکے عظیم مرکز قسطنطنیہ (استنبول) کی فتح کے بعد یہ مسلم فوج کی سب سے بڑی فتح ہے۔
پامردیٔ مومن کی اس فتحِ عظیم کو شایانِ شان طریقے سے منانے کے لیے اسلامی ملکوں کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کا موقّف آج بھی کنفیوژن کا شاہکار ہے۔ وزیرِاعظم اور وزیرِخارجہ آج بھی اپنا ملک آزاد کرانے والے غازیوں کو مبارکباد دینے سے گریزاں ہیں۔ آج بھی انھوں نے مذاکرات کے ذریعے وسیع البنیاد حکومت بنانے کی رَٹ لگا رکھّی ہے۔ پوری دنیا کو نظر آرہا ہے، مگر آپ کو کیوں نظر نہیں آرہا کہ افغانستان کے یہ غازی جن کے بارے میں شاعرِمشرق کہہ گئے کہ
؎
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنھیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
جن کے سامنے سپرپاور ڈھیر ہوگئی، ان کے سامنے نام نہاد"مارشل" دوستم یا دوسرے کٹھ پتلیوں کی کیا حیثیّت ہے؟ وہ ان سے مذاکرات کیوں کریں گے؟ انھوں نے جذبۂ ایمانی سے اور قوّتِ بازو سے اپنے ملک کو آزاد کرایا ہے۔ کٹھ پُتلی حکمران جانتے تھے کہ وہ مزاحمت کریں گے تو کچل دیے جائیں گے۔
اس لیے وہ مزاحمت کرنے کی ہمّت نہیں کرسکے اور پھریہ اشرف غنی، رشید دوستم، عبداللہ عبداللہ وغیرہ ہیں کون؟ سب پاکستان کے دشمن، سب ہندوستان کی محبّت میں گرفتار اور پاکستان کے خلاف ھرزہ سرائی کرنے والے۔ تو پھر ہمارے حکمران پاکستان کے دشمنوں کو نئی حکومت میں شامل کروانے کے لیے اتنے بیتاب کیوں ہیں؟ طالبان کے دشمنوں کی پاکستان میں میزبانی کیوں؟ یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے؟ پاکستان کو ایک خودمختار ملک کے طور پر اپنے مفاد میں جرأتمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان فوری طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کرے اور ان کے ساتھ اُسی طرح مضبوط تعلّقات استوار کرنے کی کوشش کرے جس طرح ملّا عمر کے دور میں تھے، اُس وقت افغانستان میں امن و امان مثالی تھا اور دونوں ملکوں میں تجارت عروج پر تھی۔
مشرّف حکومت نے بے وفائی کی اور بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے افغان سفیر کو امریکی فوجیوں کے حوالے کردیا، جنھوں نے ملّا ضعیف کو تشدّد کا نشانہ بنایا۔ بیوفائیوں اور زیادتیوں کے یہ داغ دھونے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہمارا سب سے بڑا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں دھشت گردی نہ پنپ سکے اور ٹی ٹی پی کو وطنِ عزیز کے خلاف استعمال نہ کیا جاسکے۔ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی سے اگرکوئی باز رکھ سکتا ہے تو وہ طالبان کی قیادت ہے، اس لیے ہمیں نہ صرف اُن سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہئیں بلکہ افغانستان کی تعمیر و ترقّی میں بھی بھرپور حصّہ ڈالنا چاہیے۔ انفرادی طور پر بھی صاحبِ ثروت پاکستانیوں کو برادر اسلامی ملک کی تعمیرِ نو کے لیے contribute کرنا چاہیے۔
طالبان لیڈر شپ سے گزارش ہے کہ ماضی میں افغانستان میں امن بحال کرنا اور منشیات کا خاتمہ کرنا اور اِس بارفتح کے بعد عام معافی کا اعلان کرنا قابلِ تحسین ہے۔ آپ نے لاالٰہ کا پرچم اُٹھایا ہے تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ آج کی جدید دنیا کے سامنے اسلام کا مثبت اور خوشنما امیج پیش کریں۔ آپ نبی کریمؐ اور صحابہؓ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
اپنے حسنِ سلوک سے عوام کے دل جیتیں، شیعہ اور ھزارہ کمیونیٹی کو تحفّظ دیں۔ جب تک آپ میں خودی، فقر اور عدل رہا آپ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکے گی لیکن اگر آپ نے مال کی محبّت پال لی یا مغل اور عثمانیہ سلطنت کے آخری بادشاہوں کی طرح عیش وعشرت میں پڑ گئے تو گردِ راہ کی طرح مٹ جاؤگے۔ دنیائے اسلام کے شاعرِاعظم ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کو افغانستان اور افغانوں سے بہت محبّت تھی۔ وہ افغانستان کو قلبِ ایشیاء کہتے تھے، اقبالؒ کو پڑھیں اور اس کی فکر کو حرزِ جاں بنائیں۔ برّ صغیر کے جَیّدعلماء کا لٹریچر پڑھ کرنظامِ حیات اور نظامِ حکومت کا نقشہ ترتیب دیں۔ شاعرِ اعظم ڈاکٹر اقبالؒ کے چند اشعار آپ کی نذر کرتا ہوں:
؎
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں، اپنی خودی پہچان
ایک اور جگہ کہاکہ حاجت اور ضرورت کا غلام نہ بننا، یہ شیروں کو لومڑی بنادیتی ہے۔
؎
حاجت سے مجبور مردانِ آزاد
کرتی ہے حاجت، شیروں کو روباہ
؎
محرم خودی سے جس دم ہوا فقر
تو بھی شہنشاہ، میں بھی شہنشاہ
؎
قوموں کی تقدیر، وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی، سلطاں کی درگاہ
؎
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم لِللہ، الملک لِللہ
اور آخری بات یہ کہ افغانستان کے مجاہدوں نے کشمیری مسلمانوں کو بھی آزادی اور فتح کا راستہ دکھادیا ہے، کچھ وقت تو لگ سکتا ہے۔ مگر بھارتی افواج کا انجام بھی افغان فورسزسے مختلف نہیں ہوگا۔ انشااﷲ