افغانستان کا ہنگامۂ دارو گیر
افغانستان سے اب مسلسل گولیاں چلنے اور بم دھماکوں کی آوازیں نہیں آرہی ہیں، اس کے باوجود عام شہری لرزاں و ترساں ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کے کس ناکردہ گناہ کی سزا کب دے دی جائے گی۔ پنج شیر جو مزاحمت کا آخری قلعہ تھا، اس کے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ وہ اب طالبان کے قبضے میں ہے۔
چند مغربی صحافیوں نے اس میں قدم رکھا اور ان کا یہی کہنا ہے کہ کچھ دنوں پہلے جو سڑکیں گاڑیوں اور انسانوں سے بھری ہوئی تھیں وہ اب ویران ہیں، اِکا دُکا گاڑیاں گزرتی نظر آتی ہیں اور وہ پوسٹر جن پر افغان فوج کے رہنمائوں کی تصویریں تھیں، انھیں سنگینیوں سے پھاڑ دیا گیا ہے۔ دشمن کا بدن نہ سہی، اس کی تصویر ہی سہی۔
افغان طالبان سے ہمدردی رکھنے والے ان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایک ایسی حکومت کا اعلان کریں جس میں افغانستان کی تمام قومیتیں شامل ہوں۔ ان میں ازبک، ہزارہ اور دوسرے بھی شریک حکومت ہوں۔ کہیں کہیں سے ایک کمزور آواز میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں افغان عورتوں کو بھی شامل کیا جائے لیکن افغان عورتیں جو ملکی آبادی کا نصف بلکہ بعض حالات میں نصف سے بھی زیادہ ہیں، ان کا ابھی تک نام و نشان نہیں ملتا۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اب سے بیس برس پہلے جب طالبان حکومت پر قابض ہوئے تھے تو افغان عورتوں کی چند جھلکیاں ٹوپی والے نیلے برقعوں میں نظر آئی تھیں لیکن اس مرتبہ کابل میں درجنوں عورتوں کا ایک جتھہ نظر آیا جن کے سروں پر دوپٹے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی حجاب میں نہیں تھی۔ ان کے چہروں سے ان کا غیض و غضب چھلک رہا تھا اور وہ طیش میں ان سے اپنی بات کہہ رہی تھیں۔
گزشتہ بیس برس کے دوران نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کے ایک بڑی تعداد پڑھ لکھ کر اور جدید ہنر سے مرصع ہوکر نکلی ہے اور اس نے افغانستان اور بہ طور خاص کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں دفتروں، کالجوں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں کام سنبھالا ہے۔ طالبان نے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد انھیں بہ یک بینی و دوگوش ان کے عہدوں سے برخاست کردیا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ جہاں وزارت خارجہ میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے عورتوں کو گھر بٹھا دیا گیا ہے وہیں شہر میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے عورتیں بھی فارغ کردی گئی ہیں، ان سے کہا جا رہا ہے کہ اب شہر کو ان کی ضرورت نہیں، ان کی جگہ اب مرد کام کرنے والے سنبھالیں گے۔ تعلیم کا محکمہ بڑے بحران کا شکار ہے۔
ایجنسی فرانس پریس کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سربراہ پیر کو کابل ایئر پورٹ پہنچے اور انھوں نے طالبان سے صحت کے گمبھیر مسائل پر بات کی۔ یہ گفت و شنید اس بات پر مرتکز تھی کہ اس ملک کی امداد پہلے ہی بند کی جاچکی ہے، اب اگر ایسے میں انھوں نے افغان عورتوں پر کام کرنے کی پابندیاں عائد کردیں توکیا ہوگا۔
افغان عورتوں کو حاشیے پر دھکیلنے کی کوششوں کے باوجود گزشتہ بیس برسوں میں انھوں نے اپنی محنت و مشقت سے اپنے اپنے کاموں میں مہارت حاصل کی۔ ان میں سے بعض قانون داں ہوئیں، کچھ جج اور کچھ پائلٹ ہوئیں، بعض نے پولیس افسروں کے عہدے سنبھالے۔ افغانستان میں جس وسیع پیمانے پر خانہ جنگی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سی عورتیں بیوہ ہوئیں اور ان کے شانوں پر اپنے بچوں، ساس، سسر اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کی کفالت کی ذمے داری بھی آن پڑی۔
اس طویل خانہ جنگی نے متعدد مردوں کو معذور کردیا۔ اب وہ بستر یا وہیل چیئر پر زندگی گزارتے ہیں۔ اپنے کھانے پینے اور دوائوں کے لیے اپنے گھر کی عورتوں اور نو عمر بچوں کے محتاج ہیں جو بازار میں نکلیں اور کوڑے کے ڈھیر سے اپنے گھر کے معذوروں کا رزق تلاش کریں۔
36 سالہ ندیم سحر جو کابل میں افغان وزارت خارجہ میں ایک اچھے عہدے پر کام کرتی تھی اب ارلنگٹن، ورجینیا میں ہے۔ وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہے کہ صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے سے صرف 3 دن پہلے اس کی 9 سالہ دختر، 7سالہ بیٹے کو اس کی بہن صدف سلطانی زبردستی امریکا لے گئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد ابھی اس نے اطمینان کی سانس ہی لی تھی کی اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگئی۔ وہ ان لوگوں میں تھی جن کا خیال تھا کہ ہمیں اپنے ملک کے ساتھ اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ وفاداری نباہنی چاہیے لیکن چند دنوں کے اندر ہی وفاداری اور حب وطن جیسے لفظ اسے بے معنی لگنے لگے۔ اس کے سامنے جو کچھ ہورہا تھا، وہ کوئی خوفناک خواب تھا اور وہ بھاگتی چلی گئی۔
ایئرپورٹ پر ایک طیارے سے دوسرے طیارے تک۔ آخر کار وہ ایک ایسے طیارے میں سوارکرا دی گئی جو کہیں جا رہا تھا۔ کہاں؟ اس کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہ تھا اور نہ اس کے برابر بیٹھے ہوئے فرد کو۔ کچھ دیر بعد انھیں معلوم ہوا کہ وہ یوکرین جارہے ہیں۔ اس کے پاسپورٹ پر امریکی ویزا تھا۔ وہ امریکا پہنچی، کسی دوست کے ساتھ ورجینیا میں ٹھہری ہوئی ہے۔ لیکن ورجینیا اس کا شہر، اس کا وطن تو نہیں ہے، وہ افغانستان جانا چاہتی ہے۔ اپنے وطن، اپنی زمین پر رہنا چاہتی ہے۔
کابل سے اس کی بات چیت ہوئی تھی اپنے آفس میں، دفتر والے کہتے ہیں کہ طالبان اسے اور دوسروں کو عام معافی دیتے ہیں لیکن اسے ان کی باتوں پر اعتبار نہیں ہے۔ اس نے ان کا حشر دیکھا ہے جنھوں نے ان عام معافیوں پر اعتبار کیا تھا۔ ندیم سحر کہتی ہے کہ وہ ان کی معافیوں پر کیسے اعتبار کرلے۔ یہی بے اعتباری لاکھوں افغانوں کے دلوں میں ہے۔ ان کے دلوں میں بھی جو افغانستان سے باہر ہیں اور وہ بھی ان باتوں پر اعتبار نہیں کرتے جو افغانستان میں موجود ہیں اور جن کے دل ہر آن کھٹکتے اور دھڑکتے ہیں۔ ایک ملک ہے، ایک قوم ہے جو آج سے نہیں دہائیوں سے بے امان ہے اور وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ نہیں سکتے۔
اسی ہنگامۂ داروگیر میں طالبان کا نیا حکم نامہ آیا ہے۔ طالبان کے ایک اعلیٰ رہنما نے کہا ہے کہ سنگین جرائم پر سزائے موت اور اعضا کاٹنے سمیت سخت سزائوں کو دوبارہ نافذ کیا جائے گا، تاہم یہ سزائیں سرِعام نہیں دی جائیں گی۔
روزنامہ ایکسپریس کی مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق سابق طالبان دور کے وزیر برائے قانون و عدل اور موجودہ حکومت میں نائب وزیر جیل خانہ جات نور الدین ترابی نے کابل میں امریکی خبر رساں ادارے کی خاتون نمایندہ سے انٹرویو میں طالبان کی جانب سے ماضی میں دی جانے والی پھانسیوں جو بعض اوقات پر ہجوم اسٹیڈیم میں دی جاتی تھیں پر غم و غصے کو مسترد کردیا۔ انھوں نے عالمی برادری سے افغانستان کے اندرونی امور میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ان سزاؤں پر سرعام عملدرآمد کیا جائے۔
ترابی نے کہا کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے کسی مجرم کا ہاتھ کاٹنا نہایت ضروری ہے۔ ادھر ایف سی حکام اور افغان بارڈر پولیس کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے، طورخم سرحد کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ واضح رہے کہ سرحدی گزرگاہ کو گزشتہ صبح افغان طالبان نے بندکر دیا تھا، ٹرانزٹ گاڑیوں کی آمدورفت بھی بحال ہوگئی اور صرف افغان شہری پاکستان سے افغانستان جاسکتے ہیں۔
دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ افغانستان عالمی برادری کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، انھوں نے ایک ویڈیو کانفرنس میں افغانستان میں نئی طالبان حکومت کو چار اہم مطالبات پیش کیے ہیں۔ طالبان سے تعلقات اپنی شرائط پر ہوں گے، طالبان حکومت کو عالمی برادری سے تعلقات قائم کرنے ہیں تو اس کے لیے انھیں پہلے بعض شرائط کو پورا کرنا ہو گا۔ علاوہ ازیں سلامتی کونسل کا طالبان پر مشترکہ اور سب کی نمایندہ حکومت بنانے پر زور دیا ہے۔
سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5مستقل رکن ممالک پرامن اور مستحکم افغانستان کے خواہاں ہیں امریکا، برطانیہ، فرانس اور روس کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کی جب کہ اس ملاقات میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے ورچوئل شرکت کی، کسی رہنما نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو نہیں کی۔ ملاقات سے قبل اقوام متحدہ میں چین کے سفیر زہان جن نے کہا کہ 5رکن ممالک نے افغانستان میں جامع حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہے، پانچوں طاقتیں افغانستان میں ایک جامع حکومت پر متفق ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ لز ٹروز نے اس امید کا اظہار کیا کہ طالبان کے ساتھ روابط کے لیے مشترکہ موقف اپنایا جائے گا۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ افغانستان پر عائد یکطرفہ اقتصادی پابندیاں جلد از جلد ختم ہونی چاہئیں۔ غرض افغان شہری اور دنیا بھرکی حکومتیں گومگوں کے عالم میں ہیں کہ وہ اس ہنگامۂ دار وگیر میں کیا فیصلے کریں، کس بات کو درست سمجھیں اور کس بات کو غلط۔