مظلوم و محصور کشمیری بچوں کو بچا لیجیے !
وزیر اعظم عمران خان نے ہی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس المیے کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ خود بھارتی اور عالمی میڈیا بھی شہادت دے رہا ہے کہ پچھلے آٹھ ہفتوں کے دوران مقبوضہ کشمیر کے تقریباً 12ہزار سے زائد بچوں کو اُٹھا لیا گیا ہے۔ یہ گھناؤنا جرم قابض بھارتی سیکیورٹی فورسز، نام نہاد قیامِ امن کے نام پر، 5 اگست سے مسلسل کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان نے 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اپنے تاریخ ساز خطاب میں بڑے دکھ سے یہ بھی کہا تھا کہ نہیں معلوم مقبوضہ کشمیر سے اٹھائے جانے والے بچوں کو کن مقامات پر رکھا جا رہا ہے۔ یہ اقدام صریحاً اغوا کاری کے زمرے میں آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے ان غیر انسانی اقدامات سے مقبوضہ کشمیر کے بچوں کا مستقبل شدید خطرات کی زَد میں ہے۔
ایسے میں "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ برطانیہ" اور لندن کی ایک مشہور جامعہ مسجد (ہنسلو) نے مل کر Save Our Children in Kashmirکے زیر عنوان قدم اُٹھایا ہے۔ مقصد فقط یہ کشمیری بچوں کو فوراً خوراک پہنچائی جائے۔ اس مستحسن نیت کے تحت19اکتوبر 2019 کو خوراک، ادویات اور ضروری کپڑوں سے بھرے 100 ٹرک مظفر آباد ( آزاد کشمیر) سے چکوٹھی تک پہنچیں گے اور کوشش کی جائے گی کہ وہاں سے مقبوضہ کشمیر تک یہ سامان بھجوانے کا بندوبست کیا جائے۔
پاکستان میں "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" کے ترجمان، محمد نواز کھرل، خاصے سرگرمِ عمل ہیں۔ اخبار "نیویارک ٹائمز" نے یکم اکتوبر2019 کو اپنی فرنٹ پیج اسٹوری میں کشمیری بچوں کا جو دلگداز احوال لکھا ہے، اس پس منظر میں تو اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ سامان سرینگر پہنچایا جائے۔
دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت مسلسل یہ جھوٹ بول رہا ہے کہ سارے (مقبوضہ) کشمیر میں کرفیو نافذ ہے نہ پابندیاں عائد ہیں۔ مثال کے طور پر 2 اکتوبر 2019 کو بھارتی وزیر داخلہ، امیت شاہ، نے اپنے ٹویٹ میں یہ گمراہ کن پیغام دیا: "جموں و کشمیر میں کُل 196تھانے ہیں۔
ان میں سے صرف 8 تھانوں کے علاقوں میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ کشمیر کے کسی حصے میں کرفیو نافذ نہیں ہے۔ پابندیاں اگر ہیں تو یہ صرف آپ کے دماغوں میں ہیں۔ " کذب گوئی میں بھارتی وزیر داخلہ تو اپنے وزیر اعظم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ کسی بھی عالمی امدادی ادارے اور چیریٹی آرگنائزیشن کو مقبوضہ کشمیر میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔
مظلوم اور محصور کشمیریوں تک امداد لے کر پہنچنے والے کئی ادارے اور تنظیمیں مگر مسلسل کوششوں میں ہیں۔ برطانیہ میں بروئے کار فلاحی و رفاہی ادارہ "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ " بھی ان میں شامل ہے۔ عبدالرزاق ساجد اس ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں۔ وہ چند دن پہلے چند قریبی ساتھیوں کے ہمراہ غزہ (فلسطین) بھی گئے ہُوئے تھے، تا کہ اسرائیلی محاصرے میں مجبور و مقہور اور ضرورتمند فلسطینیوں کی دستگیری کی جائے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ آج کشمیری اور فلسطینی ایک ہی قسم کے جبر، استبداد اور محاصرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ شائد اس لیے بھی کہ بھارت اور اسرائیل اس سلسلے میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔
المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ جناب عبدالرزاق ساجد نے مختلف اور لاتعداد کیمپوں میں پڑے فلسطینیوں کے بارے میں جو آنکھوں دیکھا حال مجھے سنایا اور بتایا ہے، دل ملول اور مغموم ہے۔ کاش فلسطینیوں کی حالتِ زار کے پیشِ نظر سارا عالمِ اسلام اُن کی دستگیری کے لیے اُمنڈ پڑتا۔ ایسا مگر ہو نہیں سکا ہے۔ اُمتِ اسلامیہ جسدِ واحد کی شکل اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ایسے میں ان فلاحی تنظیموں کا وجود غنیمت ہے جو اپنی محدود استطاعت کے مطابق فلسطینیوں کی اعانت کر رہی ہیں۔ "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ " نے حال ہی میں فلسطینی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگیاں گزارنے والوں کو متنوع خوردنی اشیا، کپڑے، صاف پانی اور ادویات فراہم کی ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینی زمینیں تو بزورِ بندوق ہتھیا ہی لی ہیں، اُن سے زندگی کی ہر سہولت بھی چھین لی ہے۔
خوش قسمت ہیں عبد الرزاق ساجد صاحب کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ توفیق بخشی ہے کہ وہ خود امدادی سامان لے کر فلسطینی مردوں، عفت مآب خواتین اور خوراک کے لیے ترستے بچوں تک پہنچے ہیں۔ ساجد صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ اب وہ اپنے ادارے کے پرچم تلے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشمیریوں تک بنیادی ضرورتوں کا سامان پہنچانے کا تہیہ کیے ہُوئے ہیں۔
اس غرض کے لیے وہ مطلوبہ فنڈز کا بندوبست بھی کر چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے مقام "چکوٹھی" سے مقبوضہ کشمیریوں تک یہ سامان پہنچایا جائے۔ ساجد صاحب اپنے ساتھ برطانیہ سے کچھ صحافی بھی لا رہے ہیں تا کہ وہ اس امر کے گواہ رہیں کہ اُن کی تنظیم کوئی سیاسی پوائنٹ اسکور کرنے کے بجائے محض کشمیریوں اور کشمیری بچوں تک خور و نوش کا سامان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اور اگر بھارت رکاوٹ بنتا ہے تو وہ اس بھارتی ظلم کے بھی عینی شاہد بنیں اور یہ پیغام دُنیا تک پہنچائیں۔
مجھے معلوم ہے کہ عبدالرزاق ساجد نیک نیتی سے کشمیریوں تک امداد پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ اس سے قبل وہ متعدد بار میانمار کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی امداد کو بھی پہنچے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان برمی حکومت کے مظالم سے تنگ آ کر بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور کر دیے گئے تو "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" وہاں بھی اُن کی دستگیری کو پہنچا تھا۔ اس سفر میں برطانیہ کے معروف کشمیری سیاستدان، لارڈ نذیر احمد، بھی اُن کے ہمراہ تھے۔
عبدالرزاق ساجد اب مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں تک امدادی سامان کے ساتھ پہنچنے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو اس مستحسن عمل میں بھی لارڈ نذیر احمد صاحب کی سعی اور ساتھ انھیں میسر ہے۔ حالیہ ایام میں برطانیہ کے مختلف شہروں میں لارڈ نذیر احمد نے برطانوی کشمیریوں کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف جو زبردست مظاہرے کیے ہیں، وہ بھی یادگار کردار ہے۔
آزاد کشمیر کے راستے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں تک پہنچنا یقیناً ایک دشوار عمل ہوگا؛ چنانچہ عبدالرزاق ساجد کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ہلالِ احمر پاکستان کے ساتھ مل کر اپنی کوششوں کو کامیاب کریں۔ انھیں ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین، ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب، اور سیکریٹری جنرل، خالد بن مجید، سے فوری رابطہ کرنا چاہیے۔ یقینا یہ رابطہ مفید ہوگا کہ ہلالِ احمر پاکستان ایک بین الاقوامی ادارہ ہے اور ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب کے عالمی فلاحی اداروں سے قریبی روابط بھی ہوں گے۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے بھارت ایل او سی پر مسلسل بلا اشتعال اور مجرمانہ فائرنگ کرکے جس طرح متعدد آزاد کشمیریوں کو شہید اور شدید زخمی کر چکا ہے، ہلالِ احمر پاکستان مسلسل متاثرین کی ہر ممکنہ امداد میں جُٹا ہے۔ 24 ستمبر کو آزاد کشمیر میں زلزلے کی زَد میں آنے والے ہزاروں افراد کی بھی ہلالِ احمر کے وابستگان امداد کر رہے ہیں۔
اُن کی طرف سے کمبل، خیمے، ادویات اور سامانِ خورونوش فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں چین نے بھی ہلالِ احمر پاکستان کو ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔ 2اکتوبر کو اسلام آباد میں بروئے کار ہلالِ احمر کے سیکریٹری جنرل، خالد بن مجید، نے یہ امدادی چیک چائنہ ریڈ کراس کے سینئر افسران سے وصول کیا ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں ہمارا مشورہ ہے کہ "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ " والوں کو ہلال احمر پاکستان سے مل کر مقبوضہ کشمیر والوں کی مدد کرنی چاہیے۔
اور اگر مالی حالات اجازت دیں تو عبدالرزاق ساجد صاحب کو آزاد کشمیر کے تازہ زلزلہ زدگان کی بھی دامے درمے دستگیری کرنی چاہیے۔ ساجد صاحب کے ادارے نے پچھلے سال انڈونیشیا میں آنے والے مہلک زلزلے کے متاثرین کی بھی تو امداد کی تھی۔