فوج، ڈسپلن اور آئی ایس آئی چیفس
پاک فوج نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں سب سے کڑا احتساب وطن عزیز کی محافظ فورس میں ہی ہے۔ یاد آتا ہے کہ ایک دوست فوج میں اعلیٰ سطح کے آفیسر ہیں، ایک وقت ایسا گزرا کہ ہم تقریباً ہر روز دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے تھے۔ اس دوران مختلف موضوعات پر گفتگو رہتی۔ یہ وہ عرصہ تھا جب فوج کے حوالے سے میرے بہت سے ابہام دور ہوئے اور کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ وطن عزیز میں پاک فوج کے خلاف ہونے والا پراپیگنڈا اس لیے بھی چل جاتا ہے کہ پاک فوج آفیشل طور پر اپنے اندرونی معاملات کو پبلک نہیں کرتی۔
میرے اس دوست ایک روز بتایا کہ پاک فوج کے ہر بیج کی پاسنگ آؤٹ کے وقت انہیں باقاعدہ اس سال سزا پانے والے افسران و سپاہیوں کی پوری لسٹ سنائی جاتی ہے اور ان کے "جرائم" بتا کر انہیں دی جانے والی سزاؤں سے متعلق بتایا جاتا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ معمولی کوتاہی پر کس طرح فوج سے نکال دیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھرتی ہونے والے آفیسرز کے لیے یہ انتہائی خوفناک مرحلہ ہوتا ہے اور اس وقت ایسے لگ رہا ہوتا ہے کہ کیریئر کے دوران انتہائی معمولی غلطی بھی ثابت ہوگئی تو پورا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس کے باوجود فوجی اہلکاروں یا آفیسرز سے شکایات کیوں ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج اپنے اندرونی سسٹم کی خود بھی نگرانی کرتی ہے۔
ملٹری انٹیلی جنس اور ملٹری پولیس باقاعدہ نگرانی کرتی ہیں اور مس کنڈکٹ کا پتا لگنے پر ہائی کمانڈ کو رپورٹ بھیجتی ہیں۔ عوام کو شکایت اس لیے ہوتی ہے کہ فوج وردی کے احترام کو برقرار رکھتے ہوئے ادارے سے باہر ان سزاؤں کی تشہیر نہیں کرتی۔ دوسری جانب عام شہریوں کو چونکہ شکایات کا طریقہ کار نہیں معلوم ہوتا اس لیے ممکن ہے کوئی آفیسر یا سپاہی مس کنڈکٹ کے بعد نظروں میں آنے سے بچ جائے لیکن یہ امکان بہت کم ہوتا ہے۔ عموماً ایسے آفیسر کو انکوائری اور سزا کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
پاک فوج نے ایک شہری کی پراپرٹی کے کیس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کورٹ مارشل کے لیے جس طرح حراست میں لیا اس نے واضح کر دیا ہے کہ فوج کی ہائی کمانڈ اختیارات کے غلط استعمال کے معاملے میں اپنے جنرل رینک کو بھی رعایت نہیں دیتی۔ آئی ایس آئی پاک فوج کا خفیہ ادارہ ہے جس کی دھاک دنیا بھر پر طاری ہے لیکن یہ طاقتور ترین ادارہ بھی احتساب سے بالاتر نہیں رکھا گیا۔ اس ادارے کے آفیسرز کا بھی چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے۔
ماضی میں بھی آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل(ر) اسد درانی، لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اقبال، بریگیڈئیر علی خان اور لیفٹیننٹ جنرل(ر)ضیا الدین بٹ کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ جنرل ضیا الدین بٹ کو تو تقریباً دو سال قید تنہائی میں بھی رکھا گیا۔ میری ایک زمانے میں ان کے ساتھ کافی ملاقاتیں رہیں اور ان کے گھر نشست ہوتی تھی۔ جنرل ضیا الدین بٹ بتاتے تھے کہ کس طرح ان کی ملازمت، رینک اور مراعات ختم کر دی گئی تھیں ان کی پنشن بند ہو چکی تھی اور وہ اپنے گھر کے اخراجات چلانے کے لیے ایک تعلیمی ادارے میں لیکچر دے کر گزر بسر کرتے رہے۔
میں حیرت سے سنتا تھا کہ کیسے دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی کا سابق سربراہ جب اپنے ہی ادارے کے زیر عتاب آیا تو اس کی زندگی ایک عام شہری کی طرح مشکلات کا شکار ہوگئی۔ آئی ایس آئی کے ہی سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو تو دو بار فوج نے سزا دی۔ تقریباً 25 سال قبل اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انہیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر سیاسی امور میں مداخلت پر انہیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ چند سال قبل انہوں نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک پروگرام کیا جس پر کتاب لکھی گئی۔
پاکستانی حکام کے بقول اس میں ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔ اس کتاب "سپائی کرانیکلز" کی اشاعت کے بعد پاکستانی فوج نے انھیں جی ایچ کیو طلب کیا اور ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کے بعد انہیں فوجی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے نہ صرف ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا بلکہ ان کی ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات بھی واپس لے لی گئیں۔ یہی سلوک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کے ساتھ کیا تھا جو پاکستان آرمی کے ایک سینئر افسر تھے۔ 2012 میں جاسوسی کے الزام میں ان کا کورٹ مارشل کیا گیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی جو بعد میں اپیلوں کے جواب میں کم ہوگئی تھی۔ 2011 میں بریگیڈیئر علی خان کو بھی حزب التحریر کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا۔
فوج میں اعلیٰ سطح پر سزاؤں کا یہ سلسلہ بھی آج سے نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں بریگیڈیئر نیاز کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر امتیاز عرف بلا کے خلاف بھی سیاسی مداخلت پر کارروائی ہوئی۔
یہ چند واقعات ہیں لیکن ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پاک فوج کڑے احتساب میں اپنے ٹاپ رینک آفیسرز یہاں تک کہ خفیہ ایجنسیز آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی کے سربراہان کو بھی معاف نہیں کرتی۔ اس وقت شاید پاک فوج ہی ایسا ادارہ ہے جو اپنے اعلیٰ سطح کے آفیسرز کے جرم کو چھپانے کے بجائے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی روایات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ شاید ڈسپلن فورس کی کامیابی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔