تاریخ میں پہلی بار
تاریخ میں پہلی بار۔ یہ فقرہ عمران خان نے اپنا تکیہ کلام بنالیا تھا۔ وہ کوئی بھی کام کرتے تو کہتے کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے حالانکہ وہ کام اس سے پہلے بھی ہورہے ہوتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی ان کے ترجمانوں اور خادمین نے بھی یہ فقرہ دہرانا شروع کیا۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ وہ کوئی منفرد سیاسی کردار ادا کررہے ہیں حالانکہ یہ کردار ان سے قبل ماضی قریب میں جونیجو بھی ادا کرچکے تھے، میاں نوازشریف بھی اور پھر چوہدری شجاعت حسین بھی۔ اب ان کے رویے سے لگ رہا ہے کہ جیسے وہ تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم بنائے گئے ہیں حالانکہ ان کی طرح ظفراللہ جمالی بھی وزیراعظم بنائے گئے تھے اور شوکت عزیز بھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے اپنی صحافتی زندگی میں پہلی مرتبہ حکومت کے نام پر ایک عجیب و غریب شے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مثلاً یہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ کسی ملک کے لیڈر یوٹرن کو اپنی صفت اور کارنامہ بتارہے ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ کسی ملک کے وزیراعظم کہتے ہیں کہ انہیں روپے کی قیمت میں کمی کے فیصلے کا پتہ ٹی وی خبروں سے چلا لیکن ان کی حکومت کےا سٹیٹ بینک کے گورنر کہتے ہیں کہ فیصلے کا وزیر خزانہ کو علم تھا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ اہم عہدوں پر تعیناتیاں ایک خاتون کے
خوابوں کی بنیاد پر یا پھر کچھ لوگوں کی سفارش پر کی جارہی ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ سینئر ترین اور تجربہ کار لوگوں کی بجائے دو صوبوں میں ایسے وزرائے اعلیٰ لگائے گئے جو کوئی بھی کام کرسکتے ہیں لیکن صوبہ نہیں چلاسکتے۔ اسی طرح یہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وزرائے اعلیٰ سے زیادہ ان کے بعض وزرا بااختیار ہیں۔ وزیراعظم اعلان کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں کہ وہ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کریں گے۔ لوگ ان سے التجائیں کرتے ہیں کہ وزیراعظم ہائو س کی لوکیشن اور عمارت یونیورسٹی کے لئے موزوں نہیں۔ لیکن سستی شہرت کے لئے وہ مصر رہتے ہیں۔ باقاعدہ طور پر وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے پھر ہائرایجوکیشن کمیشن سے ایک افسر کو لاکر مجوزہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کے طور پر وزیراعظم ہائوس میں بٹھایا جاتا ہے، اس عمل میں کئی لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں لیکن اچانک متحدہ عرب امارات کے ولی عہد پاکستان کے دورے پر آتے ہیں۔ ان کا شایان شان استقبال کرنے کا پروگرام بنتا ہے اور وزیراعظم ہائوس کو دوبارہ وزیراعظم ہائوس بنانے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کو وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کا سارا سامان بھی باہر پھینک دیا جاتا ہے اور اسے پھر ماضی کی طرح وزیراعظم ہائوس بنانے پر کئی لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ تماشے ہمیں تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک وزیر کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائیں گے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ گورنر راج لگائیں گے۔ تیسرے کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایک ہی حکومت کے مختلف وزیروں کے متضاد بیانات کا یہ تماشہ بھی ہمیں تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسی طرح پرویز خٹک اور دیگر وفاقی وزرا پر مشتمل حکومتی کمیٹی وزیراعظم کے دئیے گئے مینڈیٹ کے تحت اپوزیشن سے مذاکرات کرتی ہے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین طے پانے والی ڈیل کے تحت میاں شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بنتے ہیں۔ کمیٹی میں شامل حکومتی ممبران اور سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز بھی ان کو ووٹ دیتے ہیں لیکن اسی حکومت کی کابینہ کے ایک رکن شیخ رشید احمد اس فیصلے کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ صرف بولتے ہی نہیں بلکہ اب اپنی حکومت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جارہے ہیں۔ یہ تماشہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے ایک رکن اپنی حکومت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جارہے ہیں لیکن خود حکومت سے نکل رہے ہیں اور نہ انہیں نکالا جارہا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر فرخ سلیم کو توانائی اور معیشت کے لئے حکومت کا ترجمان مقرر کیا جاتا ہے۔ وہ تقریباََ دو ماہ تک ٹی وی مباحثوں میں اس تعارف کے ساتھ حکومت کی طرف سے صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک روز وزیراطلاعات اعلان کرتے ہیں کہ فرخ سلیم کو تو ترجمان مقرر ہی نہیں کیا گیا۔ اب اگر واقعی فواد چوہدری کا دعویٰ درست ہے تو پھر فرخ سلیم کے خلاف نوسربازی کا مقدمہ کیوں نہ بنا؟ کچھ عرصہ قبل وفاقی وزیراعظم سواتی کی طرف سے ایک غریب خاندان کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا تو وزیراعظم سے لے کر وزیرداخلہ تک پوری حکومت اعظم سواتی کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ اس چکر میں اسلام آباد کے آئی جی پولیس کو بھی رخصت کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اعظم سواتی کوظلم اور فراڈ کا مرتکب قرار دیا گیا تو مجبوراً یہ اعلان کیا گیا کہ اعظم سواتی کو وزارت سے فارغ کر دیا گیا۔ گزشتہ دو ہفتے کے دوران حکومتی ترجمان بار بار کریڈٹ لیتے رہے کہ کس طرح اعظم سواتی کو جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزارت سے فارغ کردیا گیا ہے لیکن اب پتہ چلا کہ سرکاری ویب سائٹ پر ان کا نام بدستور وزرا کی فہرست میں موجود ہے۔ میں نے ٹی وی پروگرام میں وفاقی وزیراطلاعات سے پوچھا کہ کیا اعظم سواتی کا استعفیٰ منظور ہوچکا ہے اور کیا ان کانوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے تو وہ تصدیق یا تردید کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ گویا یہ واضح نہیں کہ ایک شخص بدستور وفاقی وزیر ہےیا نہیں۔ سربراہ حکومت خاتم النبین ﷺ کے لفظ کا تلفظ نہیں جانتے۔ ترجمان فواد چوہدری ہیں۔ دست ہائے راست زلفی بخاری اور افتخار درانی جیسے "فرشتے" ہیں۔ صوبوں کے گورنر شاہ فرمان اور عمرا ن اسماعیل جیسے "درویش" ہیں لیکن دعوے ریاست مدینہ بنانے کے ہیں۔ ریاست مدینہ کے مقدس لفظ کے ساتھ یہ مذاق بھی ہمیں تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اللہ پاکستان کا محافظ ہو۔