اک قافلہ ہے کہ چلا جاتا ہے
ایک قافلہ ہے کہ چلا جاتا ہے۔ برادرم عطاء الرحمن کی تعزیتی دعا کے موقع پر کھڑا میں لوگوں سے تعزیت وصول کر رہا تھا کہ لوگوں کی نگاہوں میں میرا ان کا تعلق ایسا ہی تھا۔ تاہم بہت سے ایسے ہی ہیں جن سے مرے تعلق کا کسی کو علم بھی نہیں ہے، بعض کو تو حیرانی ہوتی ہے۔ جیسے گزشتہ دنوں جب رحمن ملک پر کالم لکھا تو احباب کو اچھنبا ہوا۔ ایک دوست نے تو کہا کہ حیرانی ہوتی ہے کہ آپ اور رحمن ملک۔ یہ دنیا ایسی ہی ہے۔
اب یہ دیکھئے کہ گزشتہ دنوں بلوچستان کے قوم پرست رہنما عبدالحئی بلوچ کا ایک حادثے میں انتقال ہوا تو میں ایک لمحے کے لئے سکتے میں آ گیا۔ اب مرا ان کا کیا واسطہ، نظر یاتی نہ جغرافیائی نہ لسانی۔ بہت بُعد تھا۔ مگر قدرت نے ہمیں کراچی جیل میں اکھٹے کر دیا تھا۔ یہ کوئی ستر کے عشرے کے نصف اول کی بات تھی۔ وہ دن اور آج کا دن ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کہ شاید ہم ایک دوسرے کو سمجھ گئے تھے۔ اس درد کو بھی جو اپنے اپنے دلوں میں جوت جگائے ہوئے تھا۔ اب یہ دوسرے کے لئے اجنبی نہ رہا تھا۔
ہاں تو میں عطاء الرحمن کا ذکر کر رہا تھا۔ ان کے ساتھ مجھے اپنے چند اور ساتھیوں کا بھی ذکر کرنا ہے جو ہم سے بچھڑ گئے مگر وہ قلم پر قرض چھوڑ گئے۔ میں ان کے لئے دعائے مغفرت تو کر سکا۔ مگر قلم سے حق ادا نہ کر سکا۔ ملک کے حالات یا ہمارے اپنے حالات ہی کچھ ایسے جا رہے ہیں۔ جیسے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں قدرت اللہ چودھری پر نہ لکھتا مگر یہ ہوا۔ رفیق ڈوگر تو میرے رفیق کار رہے ہیں، ان کو خراج تحسین بھی ادا نہ کر سکا۔ اصل میں یہ وہ ہیرے تھے کہ ذاتی تعلق کے علاوہ بھی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہیں قدرت نے کسی خاص مقصد سے بڑی محبت کے ساتھ تراشا تھا۔
عطاء الرحمن کو میں نے پہلی بار لاہور کے مال روڈ پر واقع اس زمانے کے مشہور چائنز لنچ ہوم میں محفلیں جمائے دیکھا تھا۔ جب بھی ہمارے دوست مختار حسن لاہور آتے تو یہ اور ذوالقرنین ان کے دائیں بائیں ہوتے۔ مختار حسن بھی ایک الگ انجمن تھے۔ اس زمانے میں افغانستان، خیبر پختونخوا اور بلوچستان وغیرہ پر وہ ہمارے مکتب فکر میں حرف آخر تھے۔ بڑے صحافی ہی نہ تھے، سیاست دانوں سے بھی قرب رکھتے تھے۔ تاریخ اور جغرافیے کا ایک ایسا امتزاج کرتے کہ آدمی پڑھتا ہی جاتا۔
عطاء الرحمن گویا ان کے جونیئر دوست تھے۔ میں نے انہیں گاہے حلقہ ارباب ذوق میں بھی دیکھا۔ اس دن سے میرے ذہن میں ان کی دانشوری کا تاثر قائم ہوا اور آخر تک رہا۔ وہ جب عملی صحافت کے میدان میں آئے تو انہی راہوں سے گزرے جن سے ہم گزر چکے تھے۔ زندگی سے ہوتے ہوئے نوائے وقت پہنچے۔ پھر چودھری عبدالرحمن نے انہیں نئی بات کی ادارت کے لئے منتخب کر لیا جہاں وہ آخری لمحوں تک منسلک رہے۔ ایران کے ایک سفر میں چند روز ہم نے اکٹھے گزارے۔ اندازہ ہوا کہ انہیں کرید کا کتنا شوق تھا۔ انہوں نے ایرانیوں کے گھروں میں جانے کا بندوبست کیا تاکہ دیکھ سکیں مسلم ایران کے خاندانوں کی زندگی کیسی ہے اور اس پر جنگوں اور انقلاب کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
بھارت کے ایک دورے کی یاد وہ اکثر تازہ کرتے تھے۔ جماعت اسلامی سے نظریاتی اور مسلم لیگ(ن) سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ وہ بلاشبہ ایک ایسے دانشور صحافی تھے جنہوں نے اپنی نظریاتی اور سیاسی وابستگی کا کبھی سودا نہیں کیا۔ بلا شبہ وہ ایک دیانتدار قلم کار تھے۔ آج کے دور میں یہ بات تقریباً ناپید ہے۔
قدرت اللہ چوہدری ہمارے طائفے کے ایک خاموش اور باہمت مجاہد تھے۔ بے پناہ صلاحیتیں رکھنے والے صحافی جو خاموشی سے ڈیسک پر بیٹھ کر اپنی ذمہ داریاں پیشہ وارانہ دیانت و ذہانت کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ شامی صاحب نے اپنے روزنامے، پاکستان کی ذمہ داری ان کو سونپ رکھی تھی یہ جانتے ہوئے کہ وہ اسے کتنی پیشہ وارانہ دیانت سے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمارے بہت ہی پیارے ساتھیوں میں سے ایک تھے جو خاموشی سے ہمیں تنہا چھوڑ کر چل بسے۔
رفیق ڈوگر زندگی کے ابتدائی دنوں میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ مزاج کے اکھڑ تھے مگر حق گو تھے۔ اس حوالے سے ان کی بہت سی باتیں معروف بھی ہیں۔ ایک زمانے میں ذرا ناراض ہوئے، مجھے ڈر ہوا کہ غصہ لمبا جائے گا مگر چند ہی روز میں ان کا لاہور سے فون آیا۔ میں ان دنوں کراچی میں تھا، کہنے لگے میرے والد حج سے واپس آ رہے ہیں۔ بہت سیدھے سادھے آدمی ہیں، بندرگاہ سے انہیں لے کر گاڑی میں سوار کردینا۔ ظاہر ہے جس قدر اپنے والد کی تکریم ہو سکتی تھی، وہ اپنے دوست کے والد کے لئے روا رکھنا فرض تھا۔
چند دنوں بعد کراچی آئے تو ان کی ممنونیت کا اپنا انداز تھا۔ لاہور واپس آیا تو پتا چلا انہیں ڈاکٹر نے غالباً ٹانگ میں کینسر کی تشخیص کر کے یہ اطلاع دی تھی کہ ان کی ٹانگ کاٹنا پڑے گی۔ انہوں نے یہ بات سنی اور سیرت نبویؐ لکھنے میں لگ گئے۔ کئی جلدوں میں یہ کام مکمل کیا، یہی ان کی بیماری کا علاج تھا۔ خدا نے ایسی قبولیت بخشی کہ کئی سال زندہ رہے۔ وہ بھی ایسے گئے کہ خبر تک نہ ہوئی۔ برادرم نصیر سلیمی نے کراچی سے اطلاع دی تو معلوم ہوا۔ آخری دنوں میں کئی بار پروگرام بنایا کہ گھر ڈھونڈ کر ملنے جائوں مگر مقدر میں نہ تھا۔ ایک طرح سے گوشہ نشین تھے مگر اپنے کام میں مگن تھے۔
ایک تذکرہ مجھے اور کرنا ہے جو شاید آپ کو پھر حیران کرے۔ ان دنوں پروفیسر مہدی حسن کا بھی انتقال ہوا ہے۔ جب میں یونیورسٹی میں تھا تو اگرچہ ان کا طالب علم نہ تھا۔ مگر مرے اکثر دوست ان کے شعبے کے طالب علم تھے۔ صولت رضا، ارشد علوی، مقبول ملک، اجمل ملک سب ان کے شاگرد تھے۔ نظریاتی مقام عروج پر تھا، اس میں مہدی حسن وہ واحد استاد تھے جو ہمارے دوستوں کو کھٹکتے تھے۔ وارث میر، مسکین علی حجازی، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید سے تو ان سب کی بنتی تھی مگر مہدی حسن سے ٹھنی رہتی تھی۔ وہ ان میں ایسے تھے مگر میرا مہدی صاحب سے تعلق ایک دوسرا تھا جسے میں نے ہمیشہ سرعام نبھایا۔ وہ یہ کہ ساہیوال میں ان کے خاندان سے قریبی تعلق رہا۔
ان کا گھر ہمارا ٹھکانہ تھا۔ ان کے چھوٹے سے چھوٹے بھائی حسن عسکری کالج میں اگرچہ ہم سے سینئر تھے مگر بے تکلف دوست تھے۔ ان کی والدہ کو ہم سب اماں کہتے تھے۔ بڑی وضعدار خاتون تھیں۔ میں نے جب بھی ان سے اختلاف کیا، اس احترام کے رشتے کا ہمیشہ ذکر کیا۔ اپنے حلقے میں وہ ہمیشہ قابل احترام گنے گئے۔ خاندانی طور پر ڈاکٹر مبشر حسن سے بھی ان کا رشتہ تھا۔ سارا خاندان ادبی پس منظر رکھتا تھا۔ بہن میمونہ انصاری اپنے وقت کی نامور فکشن رائٹر تھیں۔
ایک نسل ہے کہ ہم سے رخصت ہو رہی ہے۔ سچی بات ہے کہ ہم ان کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ ہم میں جو کچھ ہے انہی لوگوں کی تائید و تردید کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ خدا ہمارے لئے بھی سہولتیں پیدا کرے۔ اک قافلہ ہے کہ چلا جاتا ہے۔