بلدیاتی ادارے اور سپریم کورٹ
بہت دیر کی مہرباں، چلئے۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی ہو گا۔ بالآخر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جاتے جاتے بلدیاتی نظام کے بارے میں فیصلہ صادر فرما دیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جب سے ہمارے ہاں جمہوری نظام آیا ہے بلدیاتی انتخاب اور نظام صرف سپریم کورٹ کے حکم کے محتاج ہیں۔ گزشتہ دور میں بھی ایسا ہی ہوا، اس بار بھی یہ انتخابات جہاں جہاں ہو رہے ہیں، عدلیہ کے حکم سے ہو رہے ہیں۔ اس بار تو قانون کا بنیادی ڈھانچہ بھی عدلیہ کے حکم سے متعین ہونے کی توقع پیدا ہوئی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ ویسے تو یہ مقدمہ سندھ کے حوالے سے تھا بالخصوص کراچی کے مسئلے پر تھا مگر اس کا ماہرین قانون کے مطابق اطلاق پورے ملک پر ہو گا۔ خود بخود نہیں بھی ہو گا تو بھی جو صوبہ اسے لے کر عدلیہ جائے گا اسی فیصلے کی روشنی میں اپنے لئے گائیڈ لائن حاصل کرے گا۔ ان میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کچھ از خود ہو جائے اور ہمیں اپنے بنیادی حقوق کے لئے عدالتوں کے دھکے نہ کھانا پڑیں۔ گزشتہ بار تو صرف ایک مسئلہ تھا کہ انتخاب کرائے جائیں اس بار دو مسئلے ہیں۔ ایک تو یہی انتخابات کا انعقاد اور دوسرا یہ کہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کیا ہونے چاہئیں۔ میں ان بے بساط لوگوں میں سے ہوں جو اس پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں کہ اصل خرابی کی بنیاد آئین پاکستان میں رکھ دی گئی ہے اور وہ خرابی یہ ہے کہ انتخابات کا فیصلہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
بلدیاتی حکومت کو خالص صوبائی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں ادارے توڑ دیتے ہیں اور پھر جو انتظامی ڈھانچہ چاہے بنا دیتے ہیں۔ جنگل کے بادشاہ ہیں، انڈے دیں یا بچے۔ چاہیں تو میئر کا انتخاب براہ راست کر دیں چاہیں تو بالواسطہ۔ جس طرح چاہیں صوبے کی تقسیم کر دیں۔ ضلع بنا دیں یا ٹائون۔ مقامی کمیٹیوں کو جو چاہے نام دے دیں۔ یونین کونسل کہہ دیں یا نیبرہڈ کونسل۔ یہ نیبرہڈ کونسل کیا ہوتی ہے، اسے عوام کو سمجھ بھی آتا ہے یا نہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر ان اداروں کو جو چاہیں اختیار دے دیں۔ اختیار دے دیں تو پھر یہ بھی صوبائی حکومت کی صوابدید پر ہے کہ وہ ان اختیارات پر عملدرآمد کے لئے وسائل فراہم کرتی ہے یا نہیں۔ گویا سب کچھ صوبوں کی صوابدید پر ہوتا ہے۔
جب مشرف نے شہری حکومتوں کا نظام نافذ کیا تھا تو پورے ملک سے بیک زبان یہ شور اٹھا تھا کہ صوبوں کو بائی پاس کیا گیا ہے۔ مرکز براہ راست مقامی حکومتوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ بیچارے صوبوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے صوبائی خود مختاری کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اٹھارویں ترمیم کے پیچھے جو جذبہ تھا اس میں صوبوں کو اہمیت دینے کا خیال ایسی ہی باتوں سے ہوتا تھا۔ مطلب یہ کہ اس بات کا بھی کچھ نہ کچھ عمل دخل تھا۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ صوبے یک بیک مقدس ہو گئے۔ اتنے مقدس ہو گئے کہ ملک اور ریاست بھی پیچھے رہ گئے۔
جس پر اب بار بار شور اٹھتا ہے۔ یہ اس فیصلے کی دوسری جہت ہے مگر اس وقت ہم دوسرے پہلو پر بات کر رہے ہیں، وہ یہ کہ صوبے مرکز ہی سے آزاد نہیں ہوئے، انہوں نے اپنے سے نیچے بھی اختیارات کی منتقلی سے ایک طرح سے انکار کر دیا۔ شہری حکومت کا تصور ایک طرف، انہوں نے بلدیاتی اداروں کو وہ اختیارات بھی نہ دیے جو ہمیشہ سے ان اداروں کے پاس تھے۔ مثال کے طور پر فراہمی آب اور نکاسی آب کا نظام بھی صوبے نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ سندھ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بلڈنگ کنٹرول کے شعبے کو شہری بندوبست کے ماتحت کرنے کے بجائے صوبے کے ماتحت کر دیا۔ اس سے کراچی میں ایک طرح سے پھر علاقائیت پھیلنے لگی۔
صوبائی حکومت کے تحت آنے کی وجہ سے ان محکموں پر دیہی سند ھ سے آئے ہوئے ملازمین دھرا دھر براجمان ہونے لگے۔ اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ یہ وہی جانتا ہے جو کراچی کی سیاسی حرکیات سے آگاہ ہے۔ جب بھٹو صاحب نے دو لسانی بل روشناس کرایا اور رئیس امروہوی نے نعرہ لگایا کہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے تو اس وقت اس سیاست کی بنیاد رکھ دی گئی تھی جس نے کراچی کے وفاقی کردار کو لسانی شکل میں بدل ڈالا۔ بعد کی تاریخ میں دہرانا نہیں چاہتا۔ ہم سب اس سے باخبر ہیں۔
میں تجزیے میں لگ گیا، بات سیدھی سی ہے، وہ یہ کہ اس ملک میں جمہوریت کا نظام قائم و راسخ نہیں ہو سکتا جب تک ہم ہر سطح پر جمہوری اداروں کو آئینی تحفظ نہ دیں۔ کل کے فیصلے پر سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ بے ساختہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ان اداروں کو اتنے اختیارات دینا ہیں تو پھر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی کیا ضرورت ہے۔ بالکل درست کہا۔ دراصل یہی مسئلہ طے ہونے والا ہے۔ ہمارا قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا ممبر ابھی تک اس بات پر خود کو قائل نہیں کر سکا کہ اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام اگر اسے نہیں کرنا تو پھر ایسی ممبری کا کیا فائدہ۔ اس لئے وہ اپنے فنڈز مانگتے ہیں۔ عدلیہ اسے غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ یہ بدعت ہمارے ہاں ضیاء الحق نے شروع کی تھی۔
اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ صاف کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کام بلدیاتی اداروں نے کرنے ہیں تو وزیر اعلیٰ کو گویا گھر بھیج دیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی بعض لوگ اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں کہتے ہیں کہ سب کچھ صوبوں نے کرنا ہے تو آیا وفاق کا رول صرف تماشائی کا ہے یعنی وزیر اعظم کی کیا ضرورت ہے۔ عملی طور پر تو یہ حال ہے کہ موجودہ حکومت بھی پنجاب کی حکومت کے بغیر وفاق میں حکومت کو بے معنی سمجھتی تھی اور ہمارے وزیر اعظم پنجاب کے بھی سپر وزیر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ صرف مائنڈ سیٹ ہی کو بدلنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر سطح پر ہر ادارے کے کردار کو طے کرنے اور اس پر عملدرآمد کرنے اور خود کو اس کا عادی بنانے کی ضرورت ہے۔
میں نے زندگی کا بڑا حصہ کراچی میں گزارا ہے۔ مجھے شرح صدر حاصل ہے کہ کراچی کو اگر اسی طرح چلایا جاتا رہا تو پھر وہاں تنہائی کے جذبات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے، بلکہ ایک حد تک یہ جذبات اب بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو شہری سندھ میں کبھی پذیرائی نہیں ملی۔ اس لئے سندھ میں پیپلز پارٹی کا مطلب دیہی سندھ کی حکومت ہے۔ بدقسمتی سے اس کا مطلب ایک جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ لسانی پس منظر بھی بن جاتا ہے۔ یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔
70ء میں جب یحییٰ خاں نے ون یونٹ توڑا تو اس وقت ایک طرف تو وہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا جو ریاست بہاولپور سے کیا گیا تھا کہ ون یونٹ ٹوٹنے کی صورت میں اسے الگ صوبہ بنا دیا جائے گا۔ دوسری طرف کراچی کی اس وقت کی قیادت نے یحییٰ خاں کی یہ پیش کش نہیں مانی کہ کراچی کو سندھ سے الگ کر دیا جائے۔ شاید بعد میں وہ پچھتائے ہوں بلکہ میرے خیال میں سندھ پر بھٹو صاحب کی حکومت آنے کے ساتھ ہی ان کے ہاں یہ پچھتاوا شروع ہو گیا تھا۔ اسی نے کراچی کو آج تک بے چین رکھا ہوا ہے۔
مرے خیال میں بہتر ہے کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات برضا و رغبت دے دیے جائیں وگرنہ بڑی خرابی پیدا ہو گی۔ یہ مسئلہ کراچی یا سندھ ہی کا نہیں، پورے ملک کا ہے۔ پنجاب میں بھی یہ ضروری ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ بلوچستان تو خیر ایک بڑا مسئلہ ہے۔ چلئے ایک اچھا فیصلہ تو آیا مگر دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک۔