شور، شور،شور
حضرت علیؓ کا قول ہے " اپنی بھیڑ بکریاں ایسے راستوں سے لے کر جاؤ جہاں گھاس اور سبزہ ہو۔ " نہج البلاغہ کے مصنف، قلم کار آج یوں یاد آگئے کہ تھر پارکر جہاں انسان بھوک و پیاس سے مرتے ہیں، مگر جب کبھی بارش ان تپتے صحراؤں میں برس جاتی ہے تو اپنے گھر چھوڑکر چلے جانے والے واپس لوٹ آتے ہیں۔ ان کے ڈھور ڈنگر بھی ان کے ساتھ آجاتے ہیں۔ صحرا ہرا بھرا ہوجاتا ہے، مور ناچنے لگتے ہیں، چہرے کھل اٹھتے ہیں۔
آج کل ایسے ہی سبزہ زار حالات سے تھر گزر رہا ہے۔ مٹھی کی تحصیل ڈیپلو کے گاؤں "ویڑی چھب" کا معمر چرواہا اسماعیل اپنی بکریوں کو لے کر ہرے بھرے راستوں کی طرف نکلا تھا، اس کی معصوم و بے زبان بکریاں قریبی کھیتوں میں گھس گئیں بس اسی گستاخی پر تین افراد نے چرواہے پر کلہاڑیوں سے حملہ کردیا، زخمی چرواہا اسماعیل اسپتال میں داخل ہے۔ زخمی کے بھائی کی فریاد پر تین حملہ آوروں پر مقدمہ درج ہوگیا ہے۔
انسان انسانوں کو تو مار ہی رہے ہیں یہاں تو جانور بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہاں وہ جانور محفوظ ہیں جو وڈیروں، جاگیرداروں کی جاگیروں میں ناز و نعم کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک معروف سیاستدان اور اپنے علاقے کے بڑے جاگیردار ہیں، ان کا کتا ایک موٹرسائیکل والے نے ٹکر مار کر زخمی کر دیا۔ ان صاحب کا بیان پڑھ کر مجھے بڑا اچھا لگا کہتے ہیں "میرے نزدیک انسان اور جانور ایک برابر ہیں، اسی لیے میں نے اپنے ایک لاکھ تیس ہزار کے قیمتی کتے کی ایف آئی آر درج کروائی ہے۔
میڈیکل رپورٹ بھی جمع کروائی ہے کہ آیندہ کوئی انسان کسی جانور کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرے۔ یہ میرا کتا بے چارہ جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوگیا ہے۔ " بہت خوب! سیاستدان صاحب، مگر آپ کو شاید یاد ہوگا، آپ ہی کے علاقے رحیم یار خان کے آپ ہی جیسے آپ کے جوڑی دار جاگیردار کے شکاری کتوں نے ایک غریب ہاری کسان عورت کے دو سالہ بچے کو کہ جو درخت کے نیچے سو رہا تھا اور ماں قریب کے کھیتوں میں کام کر رہی تھی۔
دو سالہ بچے کو چیر پھاڑ ڈالا تھا، غریب عورت کے سات سالہ بچے نے درخت پر چڑھ کر اپنی جان بچائی، بچوں کے ماں باپ اپنے بچوں کی مدد کو پہنچے تو شکاری کتوں نے انھیں بھی شدید زخمی کردیا۔ دو سال کا بچہ مر گیا اور جناب سیاستدان صاحب! آپ سمیت کسی بھی جاگیردار نے اپنے جوڑی دار، جاگیردار کے خونخوارکتوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروائی، اور "یہ خونِ خاک نشیناں تھا نذرِ خاک ہوا۔ "
پورے ملک میں جو آوازیں اٹھ رہی ہیں "یہ تو ہونا ہی تھا" ان آوازوں سے کیا گھبرانا! ان آوازوں کو اٹھنے دو، جدید ترین ہتھیاروں سے لدی پھندی ہیبت ناک گاڑیوں کو دہشت ناک محافظوں کے ساتھ دندناتے دوڑنے دو، اگرکوئی ان خوفناک لوگوں کے سامنے زبان کھولے تو اسے مرنے دو "مظلوم بلوچستان " سے لے کر فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالہ، پشاور، لاڑکانہ، شکارپور، کراچی میں سرعام اسلحہ لہراتے "خونی" دندنا رہے ہیں، انھیں دندنانے دو۔ فیصل آباد، لاہور، کراچی، لاڑکانہ میں عدالتیں بھی ہیں، حکومتیں بھی ہیں، مگر سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے۔
اسمبلیاں بھی شور مچا رہی ہیں، گلیاں بھی شور مچا رہی ہیں، شاہراہوں پر بھی شور ہے، عدالتوں میں بھی شور ہے۔ سیلفیاں بن رہی ہیں، کالے کوٹوں والے مارکٹائی کر رہے ہیں، تاجر شور مچا رہے ہیں کہتے ہیں "شناختی کارڈ نہیں دیں گے، ہم سے کچھ مت پوچھو" اسپتالوں میں شور ہے، ڈاکٹر اور تیمار دار گھونسے، لاتیں چلا رہے ہیں، لائن آف کنٹرول پر بھی شور ہے، روزانہ خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، دو تین شہری مارے جا رہے ہیں۔ بے چارہ ہندوستانی سفیر بلایا جاتا ہے اور احتجاجی مراسلہ اسے تھما دیا جاتا ہے۔
یہ سارا شور شرابا یوں ہی نہیں ہو رہا۔ اس نوبت تک آنے میں 70 سال لگے ہیں۔ حکومتیں آتی رہیں سرکاری ملازم اور افسران کھلے عام رشوتیں لیتے رہے، تاجر رشوتیں دیتے رہے، پلاٹوں پر قبضے ہوتے رہے اور پلاٹوں کے مالکان پلاٹ کی فائل بغل میں دبائے دفتر دفتر، عدالت عدالت دھکے کھاتے رہے، کالا دھن پھلتا پھولتا رہا، رشوتیں لینے اور دینے والے بھی پھلتے پھولتے رہے۔
ظالموں نے یہ کام بھی کر ڈالا کہ جعلی دوائیاں بنا ڈالیں، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی انتہاؤں پر پہنچا دیں، پولیس کی نگرانی میں جرائم کے اڈے چلتے رہے۔ آج بھی گٹکے جیسا زہریلا مواد بنایا جا رہا ہے۔ نتیجتاً کینسر کے مریضوں سے اسپتال بھرے پڑے ہیں۔ پورے ملک میں سلافین کی تھیلیاں سڑکوں گلیوں میں دوڑتی بھاگتی نظر آتی ہیں۔
ان قاتل تھیلیوں پر حکومت نے پابندی لگائی تو تھیلیوں کے تاجر سڑکوں پر بطور احتجاج شور مچانے لگے۔ یہ قاتل تھیلیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے گٹر لائنیں بند ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا نصف ایمان، گندے پانی کی صورت گلیوں میں رسوا ہوتا نظر آتا ہے۔
یہی تھیلیاں ہیں جن کی وجہ سے گند اور پھر گند کی وجہ سے ڈینگی، نگلیریا جیسے موذی مرض پھیلتے ہیں، جلدی امراض، سانس کی بیماری، ماحول میں آلودگی سب کا باعث یہی تھیلیاں ہیں مگر شور مچا ہے کہ تھیلیاں چلنے دو، میں یہاں بتاتا چلوں کہ حکومتی اعلان سے بہت پہلے میں نے ٹوکری اٹھالی تھی اور دودھ دہی کے لیے برتن اور آج تک میں اسی پر کار بند ہوں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ عوام انھی قاتل تھیلیوں میں گرم چائے، گرم کھانے لیے جا رہے ہیں اور کھائے پیے جا رہے ہیں۔ اس بگڑے ہوئے "آوے" کو ٹھیک کون کرے گا؟
کشمیر کا معاملہ بھی انتہا پسند فاشسٹ مودی نے اٹھا کر پھینک دیا ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ ہم نے کشمیرکے مسئلے کو فیئر ویل دے کر رخصت کر دیا ہے۔ مودی مزید کہتا ہے "پاکستان سے اپنا ملک سنبھل نہیں رہا اور کشمیر لینے چلے ہیں " کیا ان حالات میں اتنے شور شرابے کے بعد اور مودی کے خیالات کے بعد یہ زیب دیتا ہے کہ اسلام آباد میں 27 اکتوبر سے مزید شور شرابا مچایا جائے؟
اور یہ جو ایئرکنڈیشنڈ جیلوں میں آرام دہ قید کاٹ رہے ہیں یہ لیڈران ذرا سوچیں کہ آخر ان لیڈروں کو اتنی جائیدادیں اور بینک بیلنس بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی، ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی طرح حکومت میں رہتے اور ویسے کے ویسے ہی حکومت چھوڑ کے باہر آجاتے۔ اس ملک میں جہاں آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو۔
ایسے ملک کے حکمرانوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ محل بنائیں، فارم ہاؤسز بنائیں، کروڑوں روپوں کے کتے پالیں، اور پتا نہیں کیا کیا الللے تللے ہیں۔ بہرحال اب یہ بات چل نکلی ہے اور دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ اب یہ انقلاب روکے سے نہیں رکے گا۔ یہ جتنا سڑک سڑک، گلی گلی، نگر نگر شور ہے اسی شور سے انقلاب نکلے گا۔ کچھ فی البدیہ لائنیں ذہن میں آگئی ہیں تحریر کر رہا ہوں :
تم جتنا شور مچاؤ گے
اور شعلوں کو بھڑکاؤ گے
ہم آگے بڑھتے جائیں گے
ظالم دیواریں ڈھائیں گے
راشی اور چور لٹیروں کے
اب داؤ میں ہم نہ آئیں گے
ہم سے مراد، اپنے وطن پاکستان کے سنہرے مستقبل کے نقیب جمہوریت، آزادی پسند عوام۔