Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Riayatullah Farooqui
  3. Takhleeqi Bachay Aor Deeni Madaris

Takhleeqi Bachay Aor Deeni Madaris

تخلیقی بچے اور دینی مدارس

کسی بھی دوسرے نظام تعلیم کی طرح مدارس میں پڑھنے والے طلباء کی بھی تین کٹییگریز ہوتی ہیں ایک وہ جو ہمیشہ اے (ممتاز) گریڈ لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو سی (مقبول) گریڈ لیتے ہیں جبکہ تیسرے وہ جو ان دونوں کے بیچ میں پائے جاتے ہیں اور تعداد میں غالب اکثریت ہوتے ہیں۔ اے گریڈ والے وہ ہوتے ہیں جو ہر وقت اپنی تعلیم میں مشغول نظر آتے ہیں اور غیر نصابی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں۔ انہیں مدرسے کے ذہین ترین طلباء شمار کیا جاتا ہے اور یہ سب کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف سی گریڈ والوں کا سارا زور غیر نصابی سرگرمیوں پر ہوتا ہے اور یہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اس کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں اس درجے کی نہیں رہتیں جس درجے کی اے گریڈ والوں کی ہوتی ہیں ورنہ ذہانت میں یہ اے گریڈ والوں سے بھی آگے ہوتے ہیں۔ مدارس میں چونکہ درسی قابلیت ہی کو قابلیت مانا جاتا ہے جو سی گریڈ والوں میں بہت کم ہوتی ہے نتیجہ یہ کہ مدرسے میں ان کی حیثیت کرمنلز جیسی ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ دونوں ہی گریڈ تعلیم پوری کرکے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اے گریڈ والے یوں غائب ہو جاتے ہیں جیسے ضرورتِ شعری کے تحت کوئی حرف غائب ہوتا ہے۔ یہ قومی سطح تو کیا شہری سطح پر بھی نمایاں نہیں ہوپاتے۔ جبکہ سی گریڈ والے دھیرے دھیرے ابھرنے لگتے ہیں اور دس پندرہ سال میں کسی مقام سے چمکنے لگتے ہیں اور جب یہ چمکنے لگتے ہیں تو ان کے دور طالب علمی کے اے گریڈ والے بھی ان کے محض "فین" بن کر رہ جاتے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تعلیمی دور کے مقابلے میں عملی زندگی کا معاملہ برعکس کیوں ہوجاتا ہے؟ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ اے گریڈ والے کتابی قابلیت حاصل کرتے ہیں اور یہ قابلیت جتنی بھی حاصل کرلی جائے اتنا ہی ان کا "مدرس" بننے کا امکان روشن ہوجاتا ہے۔ یہ طالب علم جوں ہی تعلیم مکمل کرتے ہیں عموماً اسی مدرسے میں فوراً مدرس رکھ لئے جاتے ہیں اب مدرس کی کل شہرت تعلیمی ادارے کی چار دیواری تک ہوتی ہے۔ مدرسے سے باہر یہ صرف امام وخطیب ہی ہوتے ہیں اور بطور امام و خطیب یہ ناکام ہوتے ہیں کیونکہ انکی تقریریں فضائل سے شروع ہو کر فضائل پر ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ سماج کا ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کیونکہ انہیں پڑھنے سے ہی فرصت نہ تھی اور جب پڑھ رہے تھے تو سماج سے کٹ کر مدرسے کے دارالاقامہ (ہاسٹل) تک محدود تھے۔ جمعرات کے دن یہ اس چار دیواری سے نکلتے تو اپنے عزیزوں کے ڈیرے پر پہنچ جاتے جہاں ان کے گاؤں والا ہی ماحول ہوتا۔ اگلے دن عصر میں یہ اس ڈیرے سے اگلے ہفتے کے لئے ایک بار پھر مدرسے پہنچ جاتے۔ اب خطیب بنے ہیں تو گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر کی روٹین پر قائم ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جس سماج میں یہ رہ رہے ہیں اس کی روایات اور اس کے مسائل سے بالکل بے خبر ہیں کیونکہ یہ اس میں گھلے نہیں ہیں۔ یہ اس شکر کی طرح ہیں جو چائے کے کپ میں ڈال تو دی گئی مگر چمچی کی مدد سے تحلیل کرکے چائے میں ضم نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ کہ چائے میں شامل ہوکر بھی کوئی اثرات مرتب نہیں کر رہی۔ ان کے برخلاف "آوارگانِ ملت" یعنی سی گریڈ والوں کا تو مدرسے کی چار دیواری میں دم گھٹتا تھا۔ جوں ہی چھٹی ہوتی یہ مدرسے کا گیٹ عبور کرنے کے بہانے ڈھونڈتے۔ انہیں اپنے شہر میں ہونے والا انٹرنیشنل کرکٹ میچ سٹیڈیم میں جا کر دیکھانا ہوتا۔ اگر میچ اس شہر میں نہیں ہے تو پھر مدرسے کے دو چار کلو میٹر کے ریڈیس میں واقع کسی ریسٹورنٹ میں ٹی وی پر ہی دیکھ کر گزارہ کرنا ہوتا۔ انہیں ہر نئی فلم بھی لازماً دیکھنی ہوتی۔ اور ہمارے زمانے میں تو چونکہ انڈین فلمیں سینماؤں میں ممنوع تھیں لھذا ان فلموں کے لئے چرسیوں کے کھوپچوں کا بھی رخ کرنا ہوتا۔ انہیں ناولز اور ڈائجسٹ بھی پڑھنے ہوتے۔ اب یہ سب چونکہ جنابِ شیخ کی کتاب میں جرم کا درجہ رکھتے تو نتیجہ یہ کہ جب آخری شو دیکھ کر لوٹتے تو گیٹ کے بجائے مدرسے کی سولہ سے اٹھارہ فٹ کی دیوار پھلانگ کر داخل ہوتے جس سے ان کے بازو اور کہنیاں چھل جاتیں۔ صبح ہوتی تو پتہ چلتا کہ "مخبری" کردی ہے۔ اب پٹتے بھی تھے اور ہفتے بھر کے لئے کھانا الگ بند ہوتا۔ جس کا مطلب یہ کہ جن پیسوں سے اس ہفتے مزید فلمیں دیکھنی تھیں وہ اب ناشتے، کھانے پر صرف ہونگے۔ اس بحران کے دو حل ہوتے یا تو کسی طالب علم کی جیب پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا اور یا فوراً جا کر اپنے سرپرستوں سے کوئی جھوٹ بول کر مزید پیسوں کا انتظام کرلیا جاتا۔ اور جو ہم جیسے ذہین ہوتے وہ اس کا مستقل حل پیشگی یوں کر کے رکھتے کہ مدرسے کے باورچیوں سے ہمیشہ خوب بنا کر رکھتے۔ اس تمام آوارگی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ یہ مدرسے میں کم اور سماج میں زیادہ ہوتے۔ نتیجہ یہ کہ جب انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو مدرس تو یہ بن نہیں سکتے تھے گویا مدرسے اب یہ چائے پینے تو جاسکتے تھے لیکن اس کا حصہ نہیں بن سکتے تھے چنانچہ انہیں سماج میں ہی اپنے لئے جگہ بنانی ہوتی اور وہ یہ بہت آسانی سے بنا لیتے کیونکہ سماج کی تو یہ رگ رگ سے وقف ہوتے۔ اپنی آوارگی کے دور میں انہوں نے بی اے بھی اسی لئے کر لیا تھا۔ بی اے کی ڈگری انہیں سماج کا حصہ بنانے کے لئے کافی ہو جاتی۔ بطور خطیب بھی یہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ جب ان کے مقتدی انہیں فضول سمجھ کر چکر دینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ دل ہی دل میں ان پر خوب ہنستے ہیں اور ان کے ہر یارکر کا دفاع اور ہر باؤنسر کو ہک یا پل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اب چونکہ وہ سماج کو سمجھتے ہیں اس لئے وہ سماجی مسائل پر بات کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سماج انہیں پلک جھپکتے ہی قبول کر لیتا ہے اور ان کی بات پر کان دھرنے لگتا ہے۔ پھر سماج میں ان کی شہرت پھیلنے لگتی ہے اور یہ پھیلتے پھیلتے انہیں قومی سطح پر بھی لے آتی ہے۔ محض سماج کے فہم کے سبب ان کا تھوڑا علم بھی زیادہ اثرات پیدا کر رہا جبکہ اے گریڈ والوں کا زیادہ علم سماج میں ہلکا سا بھی ارتعاش پیدا نہیں کر پارہا۔ جانتے ہیں اے گریڈ اور سی گریڈ والوں میں جوہری فرق کیا ہے؟ انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو تعلیمی ذہن رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ جو تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ تعلیمی ذہن والوں کے دل غیر نصابی سرگرمیوں کی جانب رغبت نہیں رکھتے جبکہ تخلیقی ذہن والے تعلیم میں رغبت نہیں رکھتے۔ یہ ایک قدرتی نظام ہے جو یوں کارآمد ہے کہ تعلیمی ذہن والے بچے کو دس بارہ گھنٹے کی یومیہ تعلیمی سرگرمی درکار ہوتی ہے۔ اگر وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں رغبت رکھے گا تو اس کی تعلیم متاثر ہوگی۔ اور اگر تخلیقی ذہن والا تعلیم میں رغبت رکھے گا تو اپنے فن میں دس سے چودہ گھنٹے کا یومیہ ریاض کیسے کرے گا؟ چنانچہ اپنے میدان میں رکھنے کے لئے قدرت ان کی رغبت ہی دوسری جانب کے لئے بہت محدود کر دیتی ہے۔ عصری علوم کے اداروں کے پاس اپنے تخلیقی بچوں کے لئے بھی بندوبست ہوتا ہے۔ مثلا سپورٹس، گائیکی، مصوری سمیت لگ بھگ ہر تخلیقی عمل کے لئے ان کے پاس شعبہ ہی نہیں مستقل ادارے بھی ہوتے ہیں لیکن کیا مدارس کے پاس بھی اپنے تخلیقی ذہن والے بچوں کے لئے کوئی انتظام ہے؟

Check Also

Sadqa

By Javed Chaudhry