صحتِ زبان پر اتنا اصرار کیوں
ایک سوال ہے اور بہت دلچسپ سوال ہے کہ "صحتِ زبان پر آخر اِتنا اصرار کیوں؟ زبان کا اصل مقصد تو ابلاغ ہے"۔
ابلاغ کی مثال بھی دی گئی ہے کہ فرض کیجیے پروفیسر شمس الدین نے فرمایا: "مجھے دماغ تو کھپانا پڑا مگر بات اُس کی سمجھ میں آگئی"۔
اور یہی بات اگر شمسو بھائی نے یوں بتائی کہ "میرے کو اُس کے ساتھ دماغ پچی تو کرنی پڑی لیکن اگلے کو بات کی سمجھ لگ گئی"۔
توصاحب! دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اپنی بات کا اظہار و ابلاغ کر دیا۔ اب آپ کو کیا مسئلہ ہے؟"
غالباًکہنا یہ چاہتے تھے کہ "آپ کو کیا تکلیف ہے؟"
بھائی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رواج ہے، دو آدمی بات کر رہے ہوں تو تیسرے آدمی کو لازماً کوئی نہ کوئی تکلیف ہوجاتی ہے اور اُس سے، دخل در مکالمات کیے بغیر رہا نہیں جاتا۔ دوسری بات یہ کہ صحیح، صحیح ہے اور غلط، غلط ہے۔ صحیح کو بہر حال غلط پر فوقیت ہے۔
صحت کے جن معنوں کو عوام فوقیت دیتے ہیں وہ ہیں بیماری سے نجات، شفا اور جسم کا ٹھیک ہونا یعنی، تن دُرستی۔ یہاں برسبیلِ تذکرہ یہ بات پوچھتے چلیں کہ جو لوگ، دُرستی کو، درستگی لکھنے کے عادی ہیں اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں، وہ اپنی، تن درستگی پر توجہ کیوں نہیں فرماتے؟ تن دُرستی کے معنوں سے ماخوذ، ہمارے ہاں حفظانِ صحت، خرابیِ صحت اور صحت بخش جیسی کئی صحت مند تراکیب رائج ہیں۔
لغت کے مطابق، صحت اسمِ مؤنث ہے۔ اس کا مطلب صحیح ہونا، درستی اور ٹھیک ہونا ہے۔ یعنی عیب یا نقص سے پاک ہونا اور غلطی سے مبرا ہونا۔ ، صحتِ زبان سے بھی یہی مراد لی جاتی ہے کہ زبان درست ہو اور ٹھیک بولی یا لکھی جائے۔ تحریر اور بیان میں عیب یا نقص نہ ہو۔ قواعد کے لحاظ سے غلطی نہ کی جائے۔ مگر یہاں تو سوال یہ ہے کہ صحتِ زبان پر اتنا اصرار کیوں ہے؟
صاحب! اصرار سے کسی کو کیا تکلیف ہے؟ اگر ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور مفتی منیب الرحمٰن جیسے معالجین کو صحتِ زبان پر اصرار ہے تو کئی اتائیوں کو خرابیِ زبان پر بھی اتنا ہی اصرار ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مصر ہیں۔ اب فیصلہ آپ کیجیے کہ زبان کا درست ہونا درست ہے یا خراب ہونا؟
اہلِ عقل و دانش یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی کام اس قابل ہے کہ کیا جائے تو یقیناََ وہ اس قابل بھی ہوگا کہ حسن و خوبی اور خوش اسلوبی سے کیا جائے۔ لہٰذا اگر آپ نے اُردو میں ابلاغ کرنے یعنی اُردو میں لکھنے یا بولنے کا کام سنبھال ہی لیا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اس کام کو بہتر طریقے سے کرکے اپنا بہتر تاثر بنائیں، بجائے اس کے کہ اپنا کام بُری طرح کرکے "دنیا بھر میں جگ ہنسائی" کروالیں۔
صحتِ زبان سے کام لینے کا کام دو سطحوں پر ہوتا ہے۔ یا تو ہم زبان کا استعمال روز مرہ گفتگو یعنی عام بول چال میں کرتے ہیں یا اپنے خیالات کا لکھ کر اظہار کرتے ہیں۔ تیسری صورت آج کل یہ بن گئی ہے کہ برقی ذرائع ابلاغ پر لکھے ہوئے افکار و خیالات زبانی بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ املا کی غلطیاں نہ ہوں، تلفظ کی ہوں۔
لکھنے والے ہوں یا بولنے والے، دونوں صورتوں میں اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ نے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے کیسا اُسلوب اختیار کیا ہے۔ یہ تو آپ نے یقیناََ محسوس کیا ہوگا کہ الفاظ کے برموقع استعمال سے بات میں جان پڑ جاتی ہے اور بے محل یا بھونڈے استعمال سے آپ کی کہی ہوئی اچھی سے اچھی بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ لیکن اثر زائل ہوتا ہے تو ہوتا رہے، پیسے زائل نہ ہوں۔
زائل کے معنی ہیں ضائع ہوجانا، برباد ہوجانا اور بے نام و نشان ہو جانا۔ ، زوال میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ زوال کی علامتوں میں سے ایک علامت، بے زبان ہو جانا بھی ہے۔ انیسویں صدی میں جب کینیڈا کو باقاعدہ برطانوی کالونی بنا لیا گیا تو ہماری طرح وہاں کے لوگوں کو بھی زبردستی انگریزی پڑھائی گئی۔ علاقائی زبان بولنے پر سزاؤں کا نفاذ کیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ آج کینیڈا کے اصلی اور نسلی لوگوں کو معلوم بھی نہیں کہ اُن کے آبا و اجداد کی زبان کیا تھی، تہذیب کیا تھی، تمدن کیا تھا اور ثقافت کیا تھی۔ زبان کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت بھی رخصت ہوگئی۔
کچھ اسی سے مماثل نتائج ترکی میں بھی برآمد ہوئے جب وہاں صرف رسم الخط بدل دیا گیا۔ ترکی زبان کا رسم الخط قریب قریب یہی تھا جو آج اُردو زبان کا رسم الخط ہے اور، خطِ چَغتائی کہلاتا تھا۔ محض رسم الخط سے محروم کردینے کی وجہ سے آج ترک لڑکے لڑکیاں اپنے آبا و اجداد کی لکھی ہوئی کتابیں، اپنی تاریخی عمارتوں پر کندہ تحریریں اور اپنے بزرگوں کے مزارات کے کتبے پڑھنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی تاریخ ہی سے نہیں اپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور اقدارکے علمی اور ادبی ذخائر سے بھی ناواقف ہو گئے ہیں۔ رسم الخط کی تبدیلی کی وجہ سے ہم بھی ترکی زبان سے کٹ گئے۔
اُردو خود ترکی زبان کا لفظ ہے۔ ہوا، چاقو، چقماق، چقندر، قینچی، چوغہ اور چغد جیسے کتنے ہی ترکی الفاظ ہماری زبان پر رواں ہیں، مگر ہم ترکی زبان اس طرح پڑھ بھی نہیں سکتے جس طرح عربی یا فارسی زبان کم از کم پڑھ تو لیتے ہیں۔ یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ ثقافتی اور تمدنی اقدار ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور اپنی تہذیبی شناخت کی حفاظت کرنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔
زبان کی حفاظت کے لیے اس کے الفاظ کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ اس کے قواعد اور انشا کی حفاظت ضروری ہے۔ اگرچہ برصغیر میں بھی انگریزی اور انگریزی ذریعۂ تعلیم کا نفاذ اُسی طاقت اور قوت سے کیا گیا جس شدت سے دیگر برطانوی مقبوضات میں کیا گیا، مگر اُردو زبان نے نہ صرف اپنا وجود بلکہ اپنا رسم الخط بھی بچا لیا۔ آج اُردو کو عالمی زبانوں کی صف میں باوقار مقام حاصل ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے دستور میں اُردو کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ سو یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اُردو کے معیار کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی جاری رکھیں۔ آج اُردو تمام برقی ذرائع ابلاغ پر موجود ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ دوسری زبانوں کے مقابلے میں ابھی جن چیزوں کی کمی ہے اُس کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ لکھتے اور بولتے ہوئے اپنی زبان کے معیار کو گرنے نہ دیں۔
لکھنے اور بولنے والی زبان کے معیار اور صحتِ زبان پر اصرار کی ایک وجہ یہ ہے کہ اچھی زبان استعمال کرنے سے اچھی شخصیت بنتی ہے۔ اپنے بچوں کی تعمیر سیرت کے لیے بھی صحتِ زبان پر اصرار ضروری ہے۔ زبان شخصیت کے مکمل پس منظر کا اظہار کر دیتی ہے۔ ایک شگفتہ مزاج دوست نے پچھلے دنوں ایک پُر لطف واقعہ بیان کیا۔ کیوں نہ آج کے سنجیدہ کالم کا اختتام اسی پُر مزاح قصے پر کیا جائے۔ فرماتے ہیں:
ایک عزیز کے گھر کچھ لوگ اُن کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے۔ لڑکا خیر سے انجینئر ہے۔ والد صاحب کا بڑا کاروبار ہے۔ لڑکی والے ابھی گفتگو کرنا ہی چاہتے تھے کہ لڑکے کے والد صاحب کا فون بج اُٹھا۔ فون پر قبلہ نے بہ آوازِ بلند جو خطاب فرمایا وہ سب نے سنا:
"بھائی بشیر! لڈّن سے صاف صاف کہہ دیجوکہ میرا حساب چکتا کرے۔ چھے مہینے سے میرا ناواں دبائے بیٹھا ہے۔ آج کل، آج کل کیے جا ریا ہے۔ دیکھو! جس دن میرا متھا گھوم گیا اُس دن سسرے کو وہ چار کی چوٹ ماروں گا کہ تھوبڑا سوج جائے گا"۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس طرزِ کلام کے بعد لڑکی اور اس کے اعزہ کا کیا رد عمل ہوگا۔