Roohani Ilaj Bamuqabla Allopathic Ilaj
روحانی علاج بمقابلہ ایلو پیتھک علاج
یوگا، بُدھ ازم، صوفی ازم وغیرہ روحانی طریقوں سے مریضوں بالخصوص ایسے مریض جو حسیاتی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوں، کا علاج کرتے ہیں۔ دنیا میں کئی ملکوں میں روحانی سنٹرز، یوگا سنٹرز، میڈی ٹیشن سنٹرز، جرنلنگ سنٹرز، ھپناٹزم سنٹرز، ٹیلی پیتھی سنٹرز، سلوا مائنڈ سنٹرز اور ریکی سنٹرز باقاعدہ کام کر رہے ہیں اور ان سے اکثر مریضوں کو شفاء ملتی ہے۔ ان تمام سنٹرز یا طرز علاج میں بحثیت مجموعی کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ زیادہ تر فرق صرف طریقہ کار کا ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ روحانی طریق علاج کو سائنسی طرز پر ثابت کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اس بات کو پکڑتے ہوئے ڈاکٹرز کمیونٹی کی چاندی ہو جاتی ہے اور یہ کمیونٹی، روحانی سنٹرز کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اس ساری صورتحال کی وجہ سے لوگ روحانی علاج معالجہ کی طرف بہت کم رجوع کرتے ہیں اور یا پھر جب تمام ڈاکٹرز جواب دے جائیں تو آخری کوشش سمجھتے ہوئے مریض کو روحانی علاج کی طرف بھیجنے کا بندوبست کیا جاتا ہے کہ جہاں سب کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں تو ایک اور آخری کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے، چاہے یہ آخری کوشش کرنے کو دل نہ بھی مان رہا ہو۔ مگر دل یہ جان کر مان جاتا ہے کہ کبھی کبھار کھوٹا سکہ بھی چل جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم کی جیب میں سب کھوٹے سکوں نے اپنا کھوٹہ پن ترک نہ کیا اور غالباً جناح کے اچانک بیمار ہو جانے کی یہی ایک بنیادی وجہ تھی کہ صدمہ انسان کو اندر سے توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ وگرنہ آج اسٹیبلشمنٹ ملک کی سیاہ و سفید کی مالک نہ ہوتی اور نہ ہی شدت پسندی، فرقہ واریت اور طالبانائزیشن کا وجود ہوتا اور صرف عوام کی حکومت ہوتی۔
بات ہو رہی تھی روحانی علاج کی، ڈاکٹرز کمیونٹی کی چاندی کی اور سائنٹیفکلی ثبوتوں کی۔ قائداعظم میں ٹی بی اور پھیپھڑوں کی بیماری تشخیص کی گئی۔ اس بیماری کا علاج کراچی جیسے بڑے شہر میں کرنے کی بجائے قائداعظم کو زیارت بھیجا گیا کیونکہ ڈاکٹرز سمجھتے تھے کہ زیارت کی صاف شفاف آب و ہوا، پہاڑیاں، فطرت سے قربت اور ہریالی جناح کی صحت کے لیے اچھی ہوگی۔
روحانی علاج کرنے والے دھان ونتری، جوگی، یوگی بابا، گُرو، سادھو، سنیاسی وغیرہ ان سب نے زیارت جیسے قدرتی مناظر سے بھرپور علاقوں ہی میں میڈی ٹیشن کے عمل کیے، مالک کائنات کی طرف خشوع و خضوع سے رجوع کیا، تپسیا کی اور ایسی ہی جگہوں کو اولیت دیتے ہیں۔ لہذا اب ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ ڈاکٹرز کمیونٹی بھی غیر اعلانیہ روحانی علاج و معالجہ کو قبول کرتی ہے۔ صرف اس کا برملہ اظہار کرنے سے کنی کتراتی ہے جس کی وجہ یا تو دقیانوسی کا لیبل لگنے سے بچنا ہو سکتا ہے اور یا پھر دکانداری ماند پڑنے کا خدشہ۔
روحانی علاج کا ذکر تمام مذاہب میں موجود ہے۔ روحانی معالجین دعاؤں، اعتقادات اور توانائی کی ترسیل بذریعہ ہاتھ یا ہوا کی لہریں یا سورج کی شعاؤں کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔ میری سر درد تین دھائیوں سے ہفتہ میں کم از کم دو فعہ ہوتی تھی اور جب بھی ہوتی شدید ہوتی اور بعض دفعہ آدھے سر کی جسے مائیگرین کہتے ہیں۔ کافی علاج کروایا لیکن یہ سب عارضی ہوتا۔ بعد ازاں ڈسپرین سے کام چلایا۔ گذشتہ سال مجھے ایک سلوا مائنڈ اور ریکی ماہر محترمہ جبین کوثر بارے علم ہوا۔ میں نے اپنا سر درد کا مسئلہ ان کے گوش گزار کیا۔ انہوں نے مجھے سینکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے آن لائن چار سیشنز دیئے اور پینے کے پانی کے لیے ٹرانسپلانٹڈ پانی کا کہا اور اس کا طریقہ کار بتایا۔ ان چار سیشنز اور ٹرانسپلانٹڈ پانی کے استعمال سے دھائیوں سے جاری میری سر درد ایسے ختم ہوگئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
جس طرح ڈاکٹرز کمیونٹی روحانی علاج کو گھاس نہیں ڈالتی اسی طرح روحانی معالجین بھی ڈاکٹرز کمیونٹی کو رگڑا لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کا علاج لمحاتی اور عارضی ہوتا ہے، مستقل نہیں ہوتا۔ یہ مرض کا علاج نہیں کرتے بلکہ مرض کو عارضی طور پر دبا دیتے ہیں یا چھپا دیتے ہیں جو چند دنوں یا مہینوں بعد پھر سطح پر آ دھمکتا ہے۔ زکام، بخار، سر درد کا اگر علاج ہو تو یہ دوبارہ نہیں ابھرنا چاہیے۔ چونکہ ایسے امراض آئے روز آنیاں جانیاں کرتے رہتے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرض کا علاج نہیں کیا گیا بلکہ اس پر محض مٹی ڈالی گئی ہے۔ چند ہفتے یا مہینوں بعد تیز آندھی آتی ہے اور اس مٹی کو اُڑا کر مرض کو پھر سے ننگا کر دیتی ہے۔ ذرا غور فرمائیں تو روحانی معالجین کا یہ نکتہ اتنا غلط بھی نہیں! یہ تو ویسا ہی نہیں ہوگیا جیسے جواز جعفری نے کہا تھا:
مجھ کو بھی گرچہ چہرہ شناسی کا زعم تھا
مشکل یہ آ پڑی کہ اداکار وہ بھی تھا
حاصل کلام یہ کہ جب نفسیات کو سائنس مانا جاتا ہے تو روحانی طرز علاج کو سائنس نہ ماننا بددیانتی ہوگی۔ وجہ یہ کہ نفسیات اور روحانیت دونوں کا تعلق انسان کی روح، محسوسات، ارتعاش، انسانی انرجی، ذہن، جذبات، احساسات، باطن، خیالات، توہمات، اضطراب، بے چینی، تفکرات، تشویش اور خواب سے ہوتا ہے۔ بہرحال اہمیت دونوں ایلو پیتھک اور روحانی علاج کی ہے۔ لیکن ہماری دانست میں روحانیت کی طرف رجوع کرنے سے امراض ویسے ہی نزدیک نہیں آئیں گے، اس لیے روحانی علاج کی اہمیت ایلو پیتھک علاج سے کہیں زیادہ ہے!