Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Jahez Ka Saman

Jahez Ka Saman

جہیز کا سامان

مائیں ہماری ساری عمر بیٹیوں کے لیے جہیز کا سامان جوڑتی چل بستی ہیں۔ جب وقت آتا ہے وہ سارا سامان پرانا ہو چکا ہوتا ہے۔ ہر گھر میں ایک پیٹی ایسی ضرور ہوتی تھی جس کے اندر گدے، موٹی موٹی وزنی رضائیاں، کراکری سیٹ، نیشنل کا ونڈو اے سی، استری اور نجانے کیا کیا جمع ہوتا تھا۔ مڈل کلاس گھرانوں میں سب سے کام کی اشیاء مائیں جمع کرکے پیٹی میں رکھ دیتیں۔ نہ خود استعمال کرتیں نہ اہلخانے کے نصیب میں آتا۔

میری اماں نے بھی دو پیٹیاں رکھی ہوئیں تھیں۔ فُل سائز جستی پیٹیاں۔ کہتیں" ایک تیری بہن کے لیے ہے اور ایک میری بہو کے لیے"۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہم دونوں بہن بھائیوں اور اماں کو خود کبھی اچھے برتن، اچھی استری، اچھے گلاس، اے سی وغیرہ نصیب نہ ہوا۔ معمولی برتن روزمرہ کے استعمال واسطے تھے۔ ایک پلیٹ دوسری سے نہیں ملتی تھی۔ شیشے کے گلاس تب نکلتے جب بھولے بھٹکے کوئی مہمان یا رشتے دار آ جاتا۔ اس دن نیا کراکری سیٹ نکلتا۔ وہ بھی مشہور زمانہ پتھر کا سیٹ جس پر سیب اور ناشپاتی کی تصویر ہوتی۔ ٹویو ناسک کمپنی کے شیشے کے گلاس۔ نئے چمکیلے چمچ۔ نئے بسترے اور رضائی یا کمبل۔

اور جیسے ہی مہمان رخصت ہوتے سب لپیٹ کر واپس پیٹی میں بند ہو جاتا۔ یہ پیٹی کھولنے اور لپیٹ کر واپس بند کرنے کی ذمہ داری میری تھی۔ ظاہر ہے والد کی وفات کے بعد گھر میں ایک ہی مرد تھا۔ اے سی تھا مگر پیک شدہ۔ کسی زمانے میں ابا نے جاپانی خریدا تھا۔ ونڈو اے سی۔ وہ بہن کے جہیز والی پیٹی میں بند پڑا تھا۔ ایک نیا کلر ٹی وی چوبیس انچ۔ کمپنی سونی۔ وہ بھی جہیز کا حصہ تھا اور جوسر، گرینڈر سمیت الغرض جو بھی تھا وہ بس جہیز تھا۔

جب بہن کو میں نے رخصت کیا اماں کے آخری دن تھے۔ بستر پر رہتیں۔ گردے لمبی شوگر ہنڈا کر ناکارہ ہو چکے تھے۔ جہیز والی پیٹی بھی گردوں کی مانند ناکارہ ہو چکی تھی۔ ونڈو اے سی کا زمانہ جا چکا تھا۔ نیشنل کی دس کلو وزنی استری کون لیتا دیتا تھا۔ ٹی وی ختم ہو چکے تھے اب ایل ای ڈی فلیٹ سکرین کا دور تھا۔ وہ ناکارہ سامان اونے پونے دام ایک بندے کو بیچنا پڑا اور پھر حسبِ زمانہ نئی اشیاء مجھے خریدنا پڑیں۔ یہی حال بھاری بھر کم رضائیوں اور کمبلوں کا ہوا۔ وہ تو بک نہیں سکتی تھیں لہذا وہ بیگم کے کھاتے میں چلی گئیں۔ یعنی دوسری پیٹی میں شفٹ ہوگئیں جہاں پہلے ہی بستروں رضائیوں کی بھرمار تھی۔

اماں دنیا سے چلی گئیں، بہن اپنے گھر چلی گئی، بیگم صاحبہ سے کچھ سال بعد راہیں الگ ہوگئیں۔ پیچھے رہ گئی پیٹی جس کا بوجھ میں اُٹھا اُٹھا کر پھرتا رہا۔ سیالکوٹ چھوڑا آبائی گھر سے رشتہ ٹوٹا تو پیٹی کرائے کے گھر میں شفٹ ہوگئی۔ موجودہ بیگم جو ہیں ان سے شادی ہوئی تو پیٹی لاہور والے گھر میں شفٹ ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد اپنا مستقل ٹھکانہ لاہور بنا لیا تو پیٹی بلآخر پھر شفٹ ہوئی۔ تاحال پیٹی یہیں پڑی ہے۔

ایک سردیوں کی رات کا ذکر ہے۔ مجھے اپنے ڈاکومنٹس والی ایک فائل چاہئیے تھی جس میں ضروری کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ بیگم کو کہا۔ وہ ڈھونڈنے لگی۔ ادھر اُدھر دیکھا۔ کئی داراز اور فائلیں پھٹکیں مگر وہ نہ مل سکی۔ یہ صورتحال دیکھ کر میرا غصہ بڑھ گیا۔ بیگم بھی ڈھونڈنے کی کاوشوں میں بھری بیٹھی تھی۔ بلآخر ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی ٹینشن کے بعد مل ہی گئی۔ جیسے ہی ملی میں نے بیگم کو کہا " تم برائے مہربانی میری چیزوں کو ہاتھ نہ لگایا کرو۔ تم رکھ کر بھول جاتی ہو"۔ بس بھائیو اتنا کہنا تھا کہ بیگم کا پارہ چڑھ گیا۔

وہ بولی " اچھا میری چیزیں، میرا یہ میرا وہ۔ ٹھیک ہے۔ تو پھر یہ کوئلٹ (لحاف) جو آپ نے لے رکھا ہے وہ میرا ہے۔ میرے جہیز میں آیا ہے۔ وہ میں لے رہی۔ آپ اپنا لے لیں جہاں سے لینا۔ " اور صاحبو وہ میرے اوپر سے لحاف اتار کر دوسرے کمرے میں لے گئی اور ناراضگی میں وہیں قیام فرما لیا۔ میں نے بھی کہا " ٹھیک ہے میری ماں نے بھی ساری عمر رضائیاں ہی بنائیں اور محفوظ کیں ہیں۔ مجھے کیا کمی"۔ میں بڑے فخر سے گھر کے سٹور روم میں گھسا۔ پیٹی کھولی۔ رضائیاں دیکھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک رنگین اور سب کی سب ہیوی ویٹ۔

ایک رضائی نکال کر لے لی۔ دس منٹ بعد مجھے گھبراہٹ سی محسوس ہوئی۔ سینے پر جیسے بوجھ ہو اور بدن پر ہلکا پسینہ آنے لگا۔ میں نے وہ بھاری رضائی ہٹا دی۔ پانچ منٹ بعد مجھے سردی لگنے لگ گئی۔ پھر رضائی لے لی۔ دس منٹ بعد پھر بوجھ محسوس ہو۔ اماں نے شاید الاسکا کے موسم مطابق رضائیاں بنوائیں تھیں۔ اس رات نیند آئی ہی نہیں۔ رضائی تلے دم گھٹ جاتا جیسے سینے پر کوئی چڑھ کر بیٹھ گیا ہو۔ اسے ہٹاتا تو کچھ منٹس بعد سردی لگنے لگتی۔

صبح صبح کا وقت ہوگا۔ بیگم فجر پڑھنے اُٹھی۔ میں نے اسے کہا "معاف کر دو یار تم تو ایسے ہی غصہ کر گئی۔ لحاف واپس دے دو"۔ منت سماجت اور مذاکرات کے بعد معمول کے تعلقات بحال ہوئے۔ بیگم کے جہیز کا لحاف واپس آیا تو مجھے چین کی نیند آئی۔

ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ بیگم صاحبہ چھت پر ہیں اور پیٹی کھول رکھی ہے۔ چھت پر رضائیاں اور گدے بکھرے ہوئے ہیں۔ مجھے دیکھ کر بولی " ان کو دھوپ لگوا رہی ہوں۔ ان کو دھوپ لگوانا ہوتی ہے ورنہ خراب ہو جاتی ہیں"۔ مجھے بیگم کی بیکار مشقت پر ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا " یہ کونسا کام کی ہیں اول دن سے بیکار ہی تو پڑیں ہیں۔ میری مانو ان کو اُدھیڑ کر ان کے رنگین کپڑے سے غرارے بنوا لو اور روئی میں قریبی ہسپتال میں دان کر آتا ہوں ان کو آپریشن میں ضرورت رہتی ہوگی"۔ بولی " اتنی پیاری رضائیاں ہیں۔ عاریش (بیٹی) کے لیے رکھ لیتے ہیں"۔ مجھے بیگم کے لہجے میں اماں سنائی دینے لگی۔

خدا کا کرنا یہ ہوا کہ تین سال قبل سیلاب آ گیا۔ میں نے فوراً پیٹی خالی کروائی اور سب کچھ دان کر دیا۔ بس ایک رضائی بطور اماں کی نشانی کے پاس رکھ لی ہے۔ وہ میرا ارادہ ہے کہ کسی دن ڈرائینگ روم کی ایک وال پر کیلوں سے سجا دوں۔ اچھی لگے گی اور ہر آئے گئے مہمان کو کہا کروں "یہ ہے ہماری نسل کی تہذیب کی آخری نشانی"۔

Check Also

Izhar Ul Haq

By Rauf Klasra