Ghulami Ki Dastan Taweel Hai
غلامی کی داستان طویل ہے
اگر امریکہ پاکستان کی سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت دے تو میں کبھی فوج ہی نہیں رکھوں گا۔ مئی 1950 میں یہ بیان لیاقت علی خان نے امریکہ کے نیشنل پریس کلب کے ایک رپورٹر کو دیا تھا۔ ہے نا حیران و ششدر کر دینے والا یہ بیان۔ لیاقت علی خان جیسے محب الوطن لیڈر کی زبان سے اس طرح کا بیان بہت ہی شرمناک بھی ہے اور تشویش ناک کبھی۔ لیاقت علی خان کے ساتھ بھی ٹرومین نے ویسےہی کیا جیسے جو بائیڈن نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کیا کہ بانی پی ٹی آئی کو کال نہ کی، نہ دورے کی دعوت دی اور وہ کال کا انتظار کرتے کرتے، تھک ہار کر روس کے دورے پہ چلے گئے۔ لیاقت علی خان بھی امریکہ کو سبق سکھانے کے لیے روس کے دورے پر جانا چاہتے تھے مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ اگر وہ ایسا کر جاتے تو آج امریکہ ہماری نہیں ہم امریکہ کی مجبوری ہو تے۔
امریکی صدر ٹرومین جو دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945 سے 1953 تک امریکہ کے صدر رہے۔ انہوں نے مئی 1949 میں جواہر لال نہرو کو امریکی دورے کی دعوت دی۔ پاکستانی لیڈر حیران و پریشان کہ یہ کیا ہوگیا۔ محبت کے دعوے ہم سے اور وفاداری بھارت سے یعنی ٹرومین نے پاکستان کو امریکی دورے کی دعوت نہیں دی اور بھارت کو دے دی۔ اس وقت لیاقت علی خان ایران کے دورے پر تھے جب انھیں اس بات کی اطلاع ملی کہ امریکہ نے خطے میں یہ گل کھلایا ہے تو حکومتِ پاکستان نے یہ طے کیا کہ امریکہ کو سبق سکھایا جائے۔ اس کے لیے پاکستان کے سفیر غضنفر علی نے روسی سفارت کار سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ لیاقت علی خان روس کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں دورے کے لیے دعوت نامہ چاہیے۔ روس میں اس وقت سٹالن کی گورنمنٹ تھی۔ سٹالن گورنمنٹ نے پانچ دن کے اندر ہی پاکستان کو دعوت نامہ بھجوا دیا۔ لیاقت علی خان نے اس دعوت نامے کو سر آنکھوں پہ لگایا اور محبت کا جواب محبت سے دیا۔ دوسری چنگ عظیم کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا سب سے بڑا دشمن روس تھا۔ 1945 کے بعد سے امریکہ اور روس کی سرد جنگ چل رہی تھی اس صورتحال میں جب امریکہ کو اس بات کا پتہ چلا کہ پاکستانی حکومت امریکہ کا دورہ کرنا چاہتی ہے تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔ اس بات کی فکر مندی نے اسے گھیر لیا کہ کہیں ایسا نہ ہو پاکستان کا جھکاؤ روس کی طرف ہو جائے اور اس کے سارے عزائم دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ پاکستان نے امریکہ پر اپنا دباؤ ڈالنے کے لیے روس میں اپنا سفیر بھی نامزد کر دیا۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ دورہ دو ماہ کے لیے ملتوی کر دیاگیا۔ امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں کو پیغام بھجوایا کہ اگر پاکستان روس کا دورہ کرے گا تو امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ اس کے تعلق بہت متاثر ہوں گے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ پاکستانی حکومت یہ دورہ ملتوی کردے۔ ٹرومین نے اپنی غلطی سدھارنے کے لیے 17 نومبر 1949 کو وزیراعظم پاکستان کو امریکی دورے کی دعوت دے دی۔ دعوت نامے کا سن کر وزیراعظم کی کابینہ اور وزیراعظم خود خوشی سے دھمال ڈالنے لگے کہ شکر ہے آخر کار محبوب کی طرف سے بھی محبت نامہ موصول ہوا۔
یاد رہے امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ امریکہ کے نزدیک انسانی حقوق کا مطالبہ فضول، بکواس ہے۔ اسے کہیں بھی انسانی بنیادی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں ہے نہ ہی اس کی کتاب میں دنیا کی بہتری اور بھلائی کے باب ہیں۔ اس کے نزدیک جمہوریت، رواداری، انصاف، امن، ان سب نعروں کی حیثیت دو ٹکے کی ہیں۔ امریکہ نے کہاں ہماری مدد کی۔ سیٹو اور سینٹو کے معاہدے کرکے بھی 1965 کی جنگ میں ہمارا تماشہ دیکھتا رہا۔ ہم اس کی آس امید پہ جنگ چھیڑ کے بیٹھ گئے اور وہ ہاتھ بغل میں دبائے سارا کھیل دیکھتا رہا۔ 1962 میں پاک چائنہ جنگ میں پاکستان کو لالی پاپ دیتا رہا کہ انڈیا پر حملہ نہیں کرنا اگر انڈیا پر حملہ نہیں کرو گے تو اس سے کشمیر کے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں مدد ملے گی مگر بعد میں پتہ چلا کہ امریکہ نے ہمیں الو بنایا اور ہم نے کشمیر کے لیے ایک شاندار موقع گنوا دیا۔ امریکہ نے ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچایا۔ 1962 کی چائنہ بھارت کی جنگ میں امریکی صدر نے ایوب خان سے وعدہ کیا کہ اگر چائنہ اور انڈیا کی جنگ ہوئی توامریکہ انڈیا کو اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔ اگر اسلحہ دینا مجبوری بن گیا تو امریکہ ہر صورت صدر ایوب سے مشاورت کرے گا مگر جیسےہی جنگ کی پہلی گولی چلی، صدر کینیڈی نے فوراََ اسلحہ بھارت کو سپلائی کر دیا۔
یہ داستان بہت طویل ہے جب حکومتِ پاکستان بار بار اپنے عزیز دوست کے ہاتھوں چابک کھاتی رہی۔ اس کی یاریاں، مکاریاں بے نقاب ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی اس کی طرف سے منہ نہ موڑا۔ سکندر مرزا جس کے بیٹے نے امریکی سفیر ہوریس ہیلڈرتھ کی بیٹی سے ساتھ شادی کر لی تھی۔ وہ سکندر مرزا قومی حساس معلومات امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو پہنچاتا تھا۔ جنرل ایوب خان نے ستمبر 1953 میں ہی وزارت خواجہ کے امور اپنے ذمے لے لیے۔ وہ ایک دفعہ اپنے آنے کی اطلاع دیے بغیر ہی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے انچارج آفیسرسےملنے ان کے دفتر چلے گئے۔ انھیں کہنے لگے کہ ہماری فوج آپ کی فوج ہے۔ آپ جو چاہیں، ہماری فوج کرے گی۔ جہاں کہیں گے، جس سے کہیں گے، لڑے گی۔ بس آپ ہماری امداد کیجئے۔ دیکھیے احساسِ غلامی کتنا زیادہ ہڈیوں میں رچاہو ا تھا۔ پاکستان بننے کے چار سال بعد ہی فوج نے اپنے آپ کو امریکہ کی جنگ لڑنے کے لیے مہیا کیا۔ 1951 میں امریکہ کوریا میں جنگ لڑ رہا تھا جس میں پاکستان نے اپنی مشروط شمولیت کی رضامندی ظاہر کی مگر امریکہ نے مشروط شمولیت قبول نہیں کی۔
محمد علی بوگرا امریکہ کے کندھوں پہ ہی وزیراعظم بنے۔ امریکہ نے ان کی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے دور میں گندم کا بحران پیدا ہوا تو اپنے دوست کی مدد کے لیے امریکہ نے ایک لاکھ ٹن گندم فراہم کی۔ حکومتِ پاکستان نے اس خیرات کو من و سلویٰ سمجھا۔ یہ گندم جن اونٹوں پہ رکھ کر کراچی لائی گئی۔ ان اونٹوں کے گلے میں "Thank you America" کے ٹیگ لگائے گئے۔
یہ غلامی کی داستان بہت طویل ہے۔ امریکہ پاکستان کے بارے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے بارے سوچتا ہے۔ 1948 میں ایک امریکی سفیر نے ایک نوٹ لکھا کہ پاکستان ہمیشہ ہمارے کام آئےگا۔ ہمیں جب بھی ایمرجنسی پڑے گی تو پاکستا ن زمینی اور فضائی حملوں کے لیے بہترین اڈا ثابت ہو سکتاہے۔ امریکہ نے روس اور چائنہ کا راستہ روکنے اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے وہ لاہور اور کراچی کو اپنے فوجی اڈے کے طور پہ دیکھ رہا تھا۔ وہ ان شہروں کو اپنی فوجی چھاونی بنانا چاہتا تھا۔ اس نے ہمارے ذریعے اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ بدلے میں ہمیں کیا دی صرف دہشت گردی۔ ہم کتنے احمق ہیں کہ اسے کل بھی اور آج بھی اپنا ہمدرد اور مخلص سمجھتے ہیں۔ 1965 تک اس نے بھارت کو 6 بلین کی امداد دی اور ہمیں صرف 3 بلین۔ آج بھی امریکہ سے زیادہ ہمارے ساتھ تعاون چائنہ کر رہا ہے مگر ہم تب بھی امریکہ امریکہ کرتے تھے اور آج بھی امریکہ امریکہ کرتے ہیں۔
اس لیے میرے ہم وطنو رچرڈ گرینل کے حوالے سے یہ غلط فہمیاں نکال دو کہ اسے خان صاحب سے کوئی ہمدردی ہے یا اس کا دل پی ٹی آئی کے بے قصور لوگوں کے لیے بہت دکھی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یوں سمجھ لیے یہ سب بیانات پی ٹی آئی سے زیادہ امریکہ کے مفاد میں ہیں۔ امریکہ کو اپنے کھیل رچانے کے لیے صرف حکومتی حمایت نہیں چاہیے ہوتی بلکہ عوامی حمایت حاصل کرنا بھی اس کی پالیسی میں شامل ہے۔ پاکستانی عوام کی نظر میں اپنا امیج بہتر کرنے کیے لیے امریکہ کے لیے اس وقت ایک اچھا موقع ہے۔
اگر ہم واقعی آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں رچرڈ گرینل کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ ہم جتنی اسے اہمیت دیں گے اتنا ہی زیادہ وہ دخل اندازی کریں گے۔ اتنا ہی زیادہ پی ٹی ائی کا انحصار بھی امریکہ پر بڑھے گا۔ 1949 میں اگر پاکستان امریکہ کے بجائے روس کا دورہ کر لیتا تھا تو دونوں منہ زور گھوڑوں کو لگام دی جا سکتی تھی جیسے بھارت نے کیا تھا۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے ہمارا سارا انحصار امریکہ پر بڑھ گیا اور امریکہ نے ہماری اسی محتاجی کا خوب فائدہ اٹھایا اور اٹھا رہا ہے۔ اگر آج پی ٹی آئی امریکی تعاون سے معاملات طے کرتی ہے تو کل کو بھاری قیمت چکانے کے لیے پی ٹی آئی اور پاکستان کو تیار رہنا چاہیے اور اگر پی ٹی آئی نے معاوضہ دینے سے انکار کیا تو پھر اسے عبرت بننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس لیے تعاون کا تاوان ادا کرنے سے بہتر ہے کہ تعاون نہ لیا جائے۔