Mil Jaye To Mitti, Kho Jaye To Sona
مل جائے تو مٹی، کھو جائے تو سونا
نیا سال، نئی امیدوں کا شور، لیکن کیا یہ شور ہمیں سننے دے گا؟ ہم تو وہ ہیں جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو معمولی سمجھ کر گزار دیتے ہیں۔ پھر جب وہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، تو انہیں خوابوں کا تاج پہناتے ہیں۔ مل جائے تو مٹی، کھو جائے تو سونا۔
یہ دنیا عجیب ہے۔ یہاں ہر چیز کی قیمت تب سمجھ میں آتی ہے، جب وہ چھن جاتی ہے۔ خوشبو کی قدر تب ہوتی ہے، جب باغ ویران ہو جائے۔ آواز کی اہمیت تب ہوتی ہے، جب خاموشی کا راج ہو۔ ہم زندہ ہیں، لیکن زندگی ہمیں معمولی لگتی ہے۔ جیسے یہ کوئی حقیر سی چیز ہو، جسے کسی دن ٹھکرا دیں گے۔ مگر موت کے ایک لمحے میں یہی زندگی سونا بن جاتی ہے۔
کیا یہ تضاد ہماری فطرت کا حصہ ہے؟ شاید۔ ہم اس دنیا میں ناشکری کی زبان بولتے ہیں۔ جو چیز ہمارے پاس ہو، وہ ہمیشہ معمولی ہوتی ہے۔ جو ہم سے دور ہو، وہی سب کچھ۔ جیسے کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ہوئے ہمیں دھوپ کی قدر نہیں ہوتی۔ مگر جب دھوپ سر پر آتی ہے، تب وہی چھاؤں خواب بن جاتی ہے۔
ہم اپنے خوابوں کے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں۔ جب وہ ہمارے دل کے قریب ہوتے ہیں، تو ہم انہیں روزمرہ کے کاموں کے نیچے دبا دیتے ہیں۔ پھر جب وقت گزر جاتا ہے، تو ہم پچھتاتے ہیں۔ "کاش وہ خواب پورا کر لیا ہوتا۔ " مگر وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ نہ وہ خواب کے لیے، نہ حقیقت کے لیے۔
نیا سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ لیکن ہم پھر بھی بدلتے نہیں۔ ہم نئے وعدے کرتے ہیں، نئی امیدیں باندھتے ہیں، مگر عمل؟ وہی پرانی سستی۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس بہت وقت ہے۔ مگر وقت کا کھیل ہی یہی ہے۔ وہ آپ کو احساس دلاتا ہے جب وہ ختم ہو چکا ہو۔
ہم اپنے رشتوں کے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں۔ وہ ماں، جو ہمیشہ ہمارے ساتھ تھی، ہمیں روز کی یاد دہانی کرتی رہی کہ وہ ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ مگر ہم نے اسے بھی مٹی سمجھا۔ پھر جب وہ چلی جاتی ہے، تو اس کی دعائیں سونے کی مانند لگتی ہیں۔ وہ دوست، جس کی باتیں کبھی معمولی لگتی تھیں، آج اس کی خاموشی ہمیں چبھتی ہے۔
یہ نیا سال کیا ہمیں کچھ سکھائے گا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ ہم سیکھنے والے کہاں ہیں؟ ہم تو بس پچھتاوے کے مجسمے ہیں۔ وہ لمحے، جو ہمیں جینا چاہیے تھے، ہم نے انہیں "کل" پر ٹال دیا۔ وہ محبتیں، جو ہمیں بانٹنی تھیں، ہم نے انہیں مصروفیت کی بھینٹ چڑھا دیا اور وہ خواب، جو ہمارے دل میں بستے تھے، ہم نے انہیں "کسی دن" کہہ کر دفن کر دیا۔
ہماری زندگی کا المیہ یہی ہے کہ ہم حال میں جینا نہیں چاہتے۔ ہمیں ہمیشہ ماضی کا غم اور مستقبل کی فکر ستاتی ہے۔ حال، جو ہمارے پاس ہے، وہ ہماری نظر میں مٹی ہے۔ مگر یہ مٹی ہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس مٹی کو سونا سمجھیں؟ شاید ممکن ہو، مگر اس کے لیے ہمیں اپنے زاویۂ نظر کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے وقت کی قدر کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنی محبتوں کو ان کے ہونے کی خوشی میں جینا ہوگا۔ ہمیں اپنے خوابوں کو آج پورا کرنے کی ہمت کرنی ہوگی۔
نیا سال صرف کیلنڈر بدلنے کا نام نہیں۔ یہ ایک موقع ہے۔ موقع اپنے رویے بدلنے کا۔ مگر کیا ہم اس موقع کو استعمال کریں گے؟ کیا ہم واقعی وہ کریں گے جو ہم وعدہ کرتے ہیں؟ یا پھر یہ وعدے بھی پچھلے سالوں کے وعدوں کی طرح مٹی میں مل جائیں گے؟
زندگی ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں وہی دکھاتی ہے جو ہم اسے دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو معمولی سمجھیں گے، تو یہ ہمیں معمولی ہی لگے گی۔ مگر اگر ہم اسے سونا سمجھیں، تو یہ ہمیں قیمتی لگے گی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ یہ موقع بار بار نہیں آتا۔ یہ لمحے، یہ وقت، یہ رشتے، یہ خواب سب کچھ عارضی ہے۔ جو آج ہمارے پاس ہے، کل نہیں ہوگا اور تب یہ سب کچھ ہمیں سونا لگے گا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
تو اس نئے سال میں، کیا ہم اپنی زندگی کو بدل سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی مٹی کو سونا بنا سکتے ہیں؟ شاید۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکنا ہوگا۔ ہمیں اپنی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔
زندگی کے ہر لمحے کو جینا ہوگا۔ ہر نعمت کی قدر کرنی ہوگی۔ ہر رشتے کو محبت دینی ہوگی۔ ہر خواب کو آج پورا کرنے کی ہمت کرنی ہوگی۔ کیونکہ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ یہ مٹی کو سونا بناتا ہے، مگر تب جب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہو۔
نیا سال ایک سوال ہے۔ کیا ہم اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ یا پھر ہم اسے بھی نظر انداز کر دیں گے؟ زندگی ہمیں موقع دے رہی ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ زندگی، آخرکار، مل جائے تو مٹی، کھو جائے تو سونا ہی ہے۔