? Who Am I
بیس سال ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن نے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ملک کی ممتاز خواتین سے انٹرویو کا ایک سلسلہ شروع کیا جو کافی دن چلتا رہا۔ اس پروگرام کی روح رواں فیض صاحب کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی تھیں۔ وہ ان دنوں پی ٹی وی سے وابستہ تھیں۔ انھوں نے خواتین کا انتخاب کیا اور ان سے انٹرویو کیا۔ یہ پروگرام بہت مقبول ہوا۔ بعد میں منیزہ نے انٹرویوز انگریزی میں منتقل کرائے اور ایک کتاب مرتب کرکے Who Am I، کے عنوان سے شایع کی۔ سنگ میل لاہور اس کتاب کے ناشر ہیں۔ اپنی ذات سے آگاہی کی یہ ایک اچھی کوشش تھی۔
منیزہ نے جن خواتین کے انٹرویوز کیے، ان میں سیاست کی دنیا سے بے نظیر بھٹو اور نسیم ولی خان، انگریزی ادب سے باپسی سدھوا، اردو ادب سے بانو قدسیہ، شاعری سے زہرہ نگاہ، موسیقی سے عابدہ پروین اور فریدہ خانم اور فلمی دنیا سے صبیحہ خانم اور شمیم آرا شامل تھیں۔ یہ انٹرویو بہت دلچسپ ہیں اور فکر و فن کی ان ہستیوں کی شناخت کے حوالے سے ان کی خاص اہمیت ہے۔
پہلا انٹرویو عابدہ پروین سے تھا۔ منیزہ ہاشمی نے ان سے پوچھا۔ آپ جب گاتی ہیں توکیا محسوس کرتی ہیں؟
عابدہ پروین نے جواب دیا، مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں یہاں ہوں مگر حقیقت میں، میں کہیں اور ہوتی ہوں۔ بات یہ ہے کہ جب آپ اپنے خالق سے باتیں کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ میں نہیں رہتے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں ایسا محسوس کرتی ہوں۔
پھر منیزہ نے سوال کیا، کیا آپ کبھی اداس ہوئی ہیں؟ عابدہ نے جواب دیا، محبت کرنے والے تو سدا اداس رہتے ہیں۔
بانو قدسیہ سے منیزہ ہاشمی نے سوال کیا، آپ نے یہ فیصلہ کب اورکیسے کیا کہ آپ کو ادیب بننا ہے؟ قدسیہ نے جواب دیا، تخلیق کار اپنی ذات میں تنہا ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ اپنے آپ کو سب سے مختلف سمجھتا ہے۔ چنانچہ وہ سوچتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے، لیکن اس سوال کا جواب آسان نہیں۔ دیر لگتی ہے قطرے کو گہر ہونے تک۔ مجھے دس سال لگے اگرچہ میں جب پانچویں جماعت میں تھی تو مجھے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ شاید میری قسمت میں ادیب بننا ہے۔
منیزہ نے باپسی سدھوا سے پوچھا، تم کس طرح لکھتی ہو؟ انھوں نے جواب دیا، ٹھہر ٹھہرکر جب جی چاہا۔ کوئی باقاعدگی نہیں۔ کبھی ایک دن میں اٹھارہ گھنٹے مسلسل اورکبھی بہت دن گزر جاتے ہیں کچھ لکھتی نہیں۔
منیزہ ہاشمی کو بے نظیر بھٹو کا انٹرویو لینا تھا۔ محترمہ وزیر اعظم تھیں۔ منیزہ فکرمند تھیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔ انٹرویو شروع ہوا تو وہ بہت نروس تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے کہا، انٹرویو تو میں دے رہی ہوں، تم کیوں پریشان ہو رہی ہو؟
منیزہ کا پہلا سوال تھا، آپ کو بہت مواقع حاصل تھے، عملی زندگی کے لیے کوئی بھی راہ اختیار کرسکتی تھیں۔ آپ نے سیاست میں آنا کیوں پسند کیا؟
بے نظیر بھٹو نے جواب دیا، یہ میری پسند نہیں تھی۔ مجھے تو سیاست میں دھکیل دیا گیا۔ میں بہت چھوٹی تھی جب اعلان تاشقند پر میرے والد ذوالفقار علی بھٹو کا ایوب خان سے جھگڑا ہوا اور ان کی راہیں الگ ہوگئیں۔ اس کے بعد میرے والد پر قاتلانہ حملے ہونے لگے۔ جب بھی میرے والد گھر سے نکلتے میں ڈرتی کہ انھیں کچھ ہو نہ جائے۔
میں دعائیں مانگتی کہ وہ صحیح سلامت واپس آجائیں۔ میں اپنے آپ سے بھی کہتی کہ میں اپنے لیے ایسی زندگی کبھی پسند نہیں کروں گی۔ میں صحافی بنوں گی یا فارن آفس میں کام کروں گی اور خارجہ پالیسی کے میدان میں اپنے وطن کی خدمت کروں گی۔ مجھے سیاست سے نفرت تھی اور میں اس کے قریب بھٹکنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ مجھے اس سے خوف آتا تھا۔
میں نے جب اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرلی اور واپس آئی تو پاکستان میں مارشل لا تھا۔ جمہوری قوتیں دبا دی گئی تھیں۔ بھٹو صاحب کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے تھے اور انھیں اپنی جان کا خطرہ تھا۔ یہ وہ ماحول تھا جس نے مجھے اور مجھ جیسے ہزاروں جمہوریت پسندوں کو سیاست میں آنے پر مجبور کردیا۔ بہت سے وزیر، پارلیمنٹ کے ممبر، اسمبلیوں کے ممبر ہم سے کنارہ کش ہوگئے کیونکہ وہ پیپلز پارٹی سے وابستہ رہ کر اپنے آرام و آسائش سے محروم ہونے کو تیار نہیں تھے۔
ایک نئے قسم کے لوگ اور سیاسی ورکر ان کی جگہ لینے کو آرہے تھے۔ میں اس دن کی منتظر تھی جب میرے والد جیل سے باہر آئیں گے، میں راولپنڈی جیل کے باہر ہاتھوں میں پھولوں کی مالا لیے ان کے انتظار میں کھڑی ہوں گی اور ہزاروں لوگ وہاں میرے ساتھ ہوں گے، مگر وہ دن کبھی نہیں آیا۔ میں احتجاجی بیانات لکھنے اور لوگوں سے ملاقاتیں کرنے میں اپنی والدہ کی مدد کرنے لگی۔ پھر جیسے جیسے ان کی صحت خراب ہوتی گئی وہ سیاست سے دور ہوتی گئیں۔
سو یوں میری مرضی اور میرے چاہے بغیر یہ ذمے داری میرے کندھوں پر آ پڑی۔ مجھے یاد آتا ہے ایک مرتبہ ہمارے راولپنڈی والے گھر میں، میں اپنے والد کے پاس بیٹھی اخبار میں اندرا گاندھی کا ایک انٹرویو پڑھ رہی تھی۔ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کے والد کے نزدیک سیاست ایک رومانس ہے لیکن وہ اسے ایک ذمے داری سمجھتی ہیں۔ میرے والد نے اخبار میرے ہاتھ سے لے کر ایک طرف پھینک دیا اور کہنے لگے "اس عورت کو سیاست کا کچھ پتا ہی نہیں۔ " اب جب میں اس واقعے پر غورکرتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ یہ وہی بات تھی کہ سیاست میرے نزدیک ایک ذمے داری تھی اور میرے والدکے لیے رومانس تھا، تو یہ ایک ذمے داری ہے جو میں نے اپنے والد کی خاطر، عوام کی خاطر اور ان تمام سیاسی کارکنوں کی خاطر اٹھائی ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے کتنے ہی قیمتی سال جیلوں میں گزار دیے ہیں۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ آسانی سے نیشنل اسمبلی میں چلے جائیں گے مگر میں ان کو بتانا چاہتی ہوں کہ سیاست کی راہ آسان نہیں۔ اس میدان میں کامیابی کے لیے بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔ جب تک آپ سمجھوتہ کرنا اور درگزرکرنا نہیں سیکھیں گے، آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ سیاست میں انا کی کوئی گنجائش نہیں۔ صرف مقاصد ہی عوام کو متحد کرسکتے ہیں۔ مقصد ایک ہو تو ساتھ چلنا آسان ہوتا ہے، میں نے جب سیاست میں قدم رکھا تو مجھے یہ راہ بہت مشکل نظر آئی۔
میری یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ نسلوں سے آپس میں لڑتے آئے لوگ چشم زدن میں ایک دوسرے کے دوست کیسے بن جاتے ہیں۔ میرے خیال میں سیاست حساب کا کھیل ہے۔ آپ کو جیتنے کے لیے کتنے کھلاڑی درکار ہوں گے، اس کا صحیح حساب لگانا آپ کو آنا چاہیے۔ سیاست میں سب سے اہم ایک بات یہ ہے کہ آپ کا عوام سے تعلق ٹوٹنے نہ پائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو عوام کو بااختیار بنانا بھی ضروری ہے۔ انھیں مسائل سے آگاہی ہونی چاہیے اور اس آگاہی سے خود صحیح فیصلے کرنے کی طاقت ہونی چاہیے۔ میں نے یہ تمام باتیں خود سیکھی ہیں۔ میں نے یونیورسٹی میں سیاست پڑھی تھی۔ لیکن عملی سیاست اور نظری سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
منیزہ ہاشمی نے سیاسی زندگی کے خیر و شر کے حوالے سے ایک سوال سابق وزیر اعظم فیروز خان نون کی بیگم سے بھی کیا۔ انھوں نے بیگم وقار النسا نون سے پوچھا، وزیر اعظم کی بیوی کی حیثیت سے آپ کی پوزیشن تو بڑی قابل رشک رہی ہوگی؟
بیگم نون نے کہا، کیا تم ایسا سمجھتی ہو؟ تو سنو۔ ۔ ۔ ۔ میں گورنر کی بیوی تھی، میں چیف منسٹر کی بیوی تھی، میں پرائم منسٹر کی بیوی تھی۔ میری زندگی ہرگز قابل رشک نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میری پوزیشن قابل رحم تھی کیونکہ میری کھال موٹی نہیں ہے۔ جب آپ سیاست میں آتے ہیں تو اس کے ساتھ بہت کچھ تکلیف دہ چیزیں بھی آپ کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ لوگ آپ پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں، سب جھوٹے، سب غلط۔ یہ سیاست ہے، یہ میری برداشت سے باہر تھا یہ تمام تماشے اور ڈرامے۔ میرے میاں کو لوگ ایسی ایسی واہیات باتیں کہتے تھے، میں پریشان ہوجاتی تھی۔ میرے میاں تو سیاست دان تھے انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔