کراچی کی کہانی ، کچھ اپنی زبانی
کراچی میں پیداواری صنعتوں کے بڑے بڑے یونٹس، نہ صرف ملک کی اقتصادی ترقی، تجارت، زرمبادلہ کی ترسیل میں معاون ثابت ہو رہے ہیں بلکہ روزگار کے وسیع مواقعے مزید پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے دوسرے شہروں سے لوگ حصول روزگار کے لیے کراچی ہی کا رخ کرتے ہیں۔
انڈسٹریل حب ہونے اور بیروزگار لوگوں کو با عزت روزگار کی فراہمی کی وجہ سے اس شہرکی بیشتر آبادی غیر مقامی لوگوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں پختونوں کا آبادی کے لحاظ سب سے بڑا شہرکراچی بن چکا ہے۔ غرض یہ شہر ہر مذہب و نسل و زبان کے افراد کی آماجگاہ ہے۔
دنیا کے جدید اربن شہروں میں کراچی بھی عالمی معیارکا وسیع و عریض شہر ہے۔ کراچی کے ماسٹر پلان سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں عوام کی تفریح طبع کے لیے کشادہ باغات، کھیلوں کے وسیع میدان اور شاندار انٹرنیشنل معیارکی رہائشی اسکیمیوں کی آباد کاری کے لیے اراضی مختص کی گئی تھیں جن میں کچھ تو تعمیر ہوچکی تھی اورکچھ ہونا باقی تھیں۔
اس نقشہ کے مطابق پارکوں کے چاروں اطراف کشادہ اور پختہ سڑکوں کا جال تھا اور ان سڑکوں کے دوسری جانب رہائشی مکانات تھے۔ کوئی بھی مکان ایسا نہیں تھا جو پارک کی حدود کے ساتھ تعمیر ہو۔ یہ تمام پارکس کراچی بلدیاتی ادارے کے ما تحت تھے۔ وقت کے جبر نے اس اوریجنل ماسٹر پلان کو برباد کرنے میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑی۔ کے ڈی اے اورکراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مجاز افسران کی ملی بھگت سے ان پارکوں کی مختص کردہ زمین کا کچھ حصہ من پسند لوگوں کو الاٹ کرکے اس کو قانونی شکل دے دی گئی۔
شروع شروع میں کھیل کے وسیع و عریض میدانوں کی زمین کاٹ کر پرائمری اسکول اور بعد میں سرکاری کالجز تعمیر کردیے گئے یعنی کراچی کے قدرتی حسن اور خوبصورتی کو جان بوجھ کر بگاڑا گیا۔ جنرل ضیا ا لحق مرحوم نے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا راگ الاپا، جس کا سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ فرقہ واریت کو ہوا ملی اور جہاں کچھ فاصلہ پر بڑی بڑی مساجد تھیں وہا ں چھوٹی اورتنگ جگہوں میں بھی مساجد تعمیر ہونا شروع ہوگئیں۔ ان کے دورحکومت میں عوام الناس کے لیے تفریحی پارکس اورکھیل کے میدا نوں میں جو جگہ بچی تھی، وہ مساجدکی تعمیر سے مکمل ہوگئی۔
عوام کی تفریح طبع بھی ان کی ذہنی وجسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آج میٹرو پولیٹن شہر کے باسی فضائی اور زمینی آلودگی سے متاثر ہوکر نت نئی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ کراچی جدید شہرکہلانے کے بجائے رکشہ، موٹر سائیکل اور چنگچی کا شہر بن چکا ہے۔ شہرکو آلودگی سے پاک کرنے کا راگ الاپ جا رہا ہے۔
طویل عرصے سے سیمینارز اور ورکشاپس منعقدکیے جا رہے ہیں مگر افسوس! عملی اقدامات کے بجائے زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا جاتا رہا ہے۔ قوم کی پستی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہمارا زیادہ وقت بجائے کچھ کرنے کے ایک دوسرے پر منفی انداز میں نکتہ چینی میں گذر جاتا ہے۔
کراچی کو ماڈرن شہر بنانے کی صرف ظاہری کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جہاں نت نئے شاپنگ مال بنائے جا رہے ہوں، جہاں محفوظ اور آرام دہ رہائش کے لیے سیکڑوں ایکڑ اراضی پر وال گیٹڈ کمیونٹی سوسائٹیاں تعمیر کی جا رہی ہیں، مگر افسوس گزشتہ برس سے کووڈ 19 نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس سے متاثر ہو کر لاکھوں کی تعداد میں انسانی اموات ہو رہی ہیں ان کو دفن کرنے کے لیے پہلے سے موجود قبرستان کی اراضی میں کمی محسوس ہونے لگی ہے۔
ادھر لوگوں کا رویہ ہے کہ اپنے پیاروں کی قبروں کو محل نما بنانے کے لیے ہمسائے کی قبروں کی جگہ تک پر ناجائز قبضہ کرکے اپنے پیارے کی قبر خوبصورت اور نمایا ں کرتا ہے۔ قبرستان کے اندر مقررکردہ راہداریوں کی چوڑائی کم کرکے مزید چھوٹی کردی گئی ہیں کہ میت گاڑی کی مطلوبہ جگہ پر رسائی نہایت مشکل ہوگئی ہے۔ مخصوص برادریوں نے اراضی خرید کر اپنے قبرستانوں کو چار دیواری کھینچ کر محفوظ کر لیا ہے۔
اس شہر میں ٹریفک ہی کے مسائل نہیں بلکہ ایسے بے شمار مسائل نے جنم لیا ہے جن کا براہ راست تعلق عوام سے ہے اور ان کے اخلاقی رویوں سے ہے۔ ان میں سوک سینس کا فقدان ہے۔ بلاشبہ ان تمام معاملات کا یہاں ایک مختصر سے مضمون میں احاطہ کرنا نا ممکن ہے۔ یہاں کے مسائل کے ذمے دار نہ صرف سرکاری ادارے ہیں بلکہ انفرادی سطح پر اس کے ہم خود ذمے دار ہیں۔ جس کی تربیت عوامی سطح پر ہونی بہت ضروری ہے۔
اگر شہر میں آرام دہ سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے بسوں کے آپریشن کا باضابطہ آغاز کر دیا جائے تو شہر میں ٹریفک کے مسائل کی روک تھام کسی حد تک ممکن ہو سکتی ہے۔ لیاری ایکسپریس وے ایک اچھا منصوبہ ہے جو مرکزی شہر تک رسائی آسان سفری سہولت فراہم کرتا ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کا دوبارہ آپریشن خوش آیند ہے۔ یہ دو منصوبہ مکمل طور پر نافذ العمل ہوجائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک کا دبائوکم ہو سکتا ہے۔
اس ضمن میں ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ رکشہ اور موٹر سائیکلوں کے بجائے ان بسوں میں سفرکرنے کو ترجیح دیں گے، جس سے نہ صرف قدرتی ایندھن، جیب پر مالی بوجھ کی کمی کے علاوہ سڑکوں پر ٹریفک کے رش میں کمی کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کا سد باب کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ ان تمام اصلاحی پہلوئوں سے شہرکی ٹریفک پولیس کی آمدنی کا گراف بھی یکسر نیچے آجائے گا اور ٹریفک پولیس میں غیر مقامی افرادی قوت میں بھی بآسانی تخفیف ممکن ہو سکے گی۔
ٹریفک پولیس کے اکثر اہل کار وں کو قانون کے خلاف ورزی کرنیوالوں سے رشوت کی مد میں نقدی لیتے ہوئے بھی دیکھا گیاہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ علی الصبح فروٹ اور سبزی منڈی سے جو مال بردار کمرشل گاڑیوں کے قافلے شہرکی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان گاڑیوں سے ٹریفک پولیس اہلکار بھتہ وصول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان گاڑیوں کو چلانیوالے تربیت یافتہ اور تجربہ کار ڈرائیورز نہیں ہوتے، وہ ان پڑھ افراد ہوتے ہیں جنھیں بلامشروط مال بردار گاڑیوں کے سٹیرنگ پر بٹھا دیا جاتا ہے جو صرف ریس پر پائوں رکھنے اور ہارن پر ہاتھ رکھنے کے سوا کچھ نہیں جانتے۔
ایمرجنسی کی صورت میں وہ بریک کا استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ گویا یوں کہہ لیجیے کہ شہر میں قبائلی نظام رائج ہے۔ حادثہ کی صورت میں کراچی پولیس ان کو ٹریس کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ جائے حادثہ کے وقت اس شہر سے فرارہو جاتے ہیں۔ شہر کی سڑکوں، گلیوں اور شاہراہوں پر جتنی بھی کمرشل گاڑیاں رواں دواں ہیں، ان کے چلانے والے سندھ پولیس کا جاری کردہ مستند ڈرائیونگ لائسنس تو دورکی بات وہ تو اس شہر کے شہری نہ ہوتے ہوئے بھی کسی ڈرائیونگ انسٹی ٹیوٹ سے تربیت یافتہ بھی نہیں ہوتے۔ نہ ہی ان کے کوائف کا ریکارڈ مقامی انتظامیہ کے پاس محفوظ ہوتا ہے تاکہ کسی بھی حادثہ کی صورت میں ان کی بیخ کنی کی جاسکے۔