زمینداری،مزارعت اور سود (2)
اسلام کی معاشی تعلیمات کو جس طرح جدید سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر تہذیبوں، معاشروں اور حکومتوں نے مسخ کیا ہے اس کی مثال گزشتہ چودہ سو سال کی امت مسلمہ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جیسے کیمونزم کا خوف پیدا کرکے سرمایہ داری کو جائز قرار دیا گیا اور پھر اس نظام کی خشت اول سودی بنکاری کو "مشرف بہ اسلام" کرنے کی کوشش کی گئی ویسے ہی زمینداروں، جاگیرداروں اور ان کے وسیع و عریض کھیتوں پر کام کرنے والے مزارعوں کی محنت سے حاصل ہونے والی آمدن کو بھی جائز قرار دیا گیا۔
حالانکہ ہمارے علماء نے یہ حدیث تو پڑھی ہوئی تھی کہ "ابو الزبیر نے حضرت جابر سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ جب تحریم ربوٰ یعنی سود کی حرمت کی آیات نازل ہوئیں، جن میں سود نہ چھوڑنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا "جو مخابرت نہ چھوڑے اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے یا یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے بر سر پیکار ہے" (مسلم)۔
اس میں لفظ مخابرہ استعمال ہوا ہے۔ احادیث میں مزارعت کے لیے بہت سے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جیسے محاقلہ، حواکر، الحنبر اور مخابرہ وغیرہ، لیکن سب سے معروف اور مستعمل لفظ مخابرہ ہے۔ مدینہ میں چونکہ کھیتی باڑی تھی اس لیے مدینہ کے لوگ مزارعت کو "مخابرت" کہتے تھے۔ اس مزارعت یا مخابرت کی تشریح اور تعریف خود نبی مکرم ﷺنے فرمائی ہے۔ "
حضرت زید بن ثابتؓ نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مخابرت سے منع فرمایا، میں نے پوچھا مخابرہ کیا ہے، تو جواب دیا، تیرا زمین کو کاشت کے لیے، نصف، تہائی اورچوتھائی پیداوار پر لینا (سنن ابی داود)۔ اس مزارعت کے بارے میں بہت سخت ارشادات احادیث میں انتہائی واضح ملتے ہیں۔ "ابن ابی نعیم نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ حضرت رافع بن خدیج ؓنے بتلایا کہ اس نے ایک زمین کاشت کی، وہاں سے نبی اکرم ﷺگزرے، جبکہ وہ اسے پانی دے رہا تھا۔ آپ نے پوچھا کہ کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی ہے۔
میں نے عرض کیا کھیتی میرے بیج اور عمل سے ہوئی ہے۔ نصف پیداوار میرے لیے اور نصف بنی فلاں کے لیے ہو گی۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا تم ربوٰ (سود) میں مبتلا ہو، زمین اس کے مالکوں کو دے دو اور اپنا خرچہ لے لو (سنن ابی داود)۔ مزارعت پر اس قدر سخت احکام کہ اسے بھی سود کی طرح اللہ کے ساتھ جنگ کے برابر ٹھہرایا گیا، ایسا کیوں ہے۔ دراصل تجارت میں جو سود ہوتا ہے اس میں جب کوئی شخص کس دوسرے کو سود پر کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ دیتا ہے تو اس میں سرمایہ دینے والے کی کوئی محنت شامل ہوتی ہے اور نہ مشقت، مگر وہ سرمایہ دینے کے بعد مقروض سے زائد طلب کر رہا ہوتا ہے اسی کو سود کہتے ہیں۔
قرآنی احکام میں جہاں اللہ نے سود کو حرام قرار دیا اور بیع یعنی کاروبار کو حلال ٹھہرایا تو اس میں دراصل یہ بتانا مقصود تھا کہ بیع یعنی کاروبار میں ایک انسان کی ذہنی اور جسمانی مشقت شامل ہوتی ہے۔ جبکہ سود میں سرمایہ گھر بیٹھے وصول ہوجاتا ہے۔ ربوٰ یا سود کا اصل مطلب ہی یہ ہے کہ قرض دینے والا مقروض سے اصل مال کے علاوہ جو کچھ بھی زائد لیتا ہے وہ اس کا حق نہیں بلکہ مقروض کا حق ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس سرمایہ میں جو زائد مال ہے اس میں قرض دینے والے کی کوئی حقیقی شئے، مثلا محنت ومشقت شامل نہیں ہوتی۔
بالکل ایسے ہی مزارعت کے دوران زمین محفوظ رہتی ہے اور جب فصل کاٹ لی جاتی ہے، معاملہ ختم ہو جاتا ہے تو وہ زمین ویسے ہی مالک کے پاس واپس چلی جاتی ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، یہاں تک اس کی اکثر اوقاتقیمت بھی کم نہیں ہوتی۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک بنجر زمین کاشت کے لیے دی جائے تو اس کی قیمت اگر دس لاکھ روپے فی ایکڑ تھی تو کاشت کے بعد اسی زمین کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
مزارعت کے دوران کھیت کی پیداوار میں زمیندار کی ایک سود خور کی طرح کسی بھی قسم کی محنت شامل نہیں ہوتی اور جیسے ایک سود خور مقروض کے خون پسینے کی کمائی سے زائد رقم وصول کرتا ہے، ویسے ہی ایک زمیندار اپنے مزارع کے خون پسینے کی کمائی سے آدھا، چوتھائی یا تیسرا حصہ وصول کرتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺکے احکامات کے مطابق ربوٰ یعنی سود ہے۔
رسولِ رحمت ﷺ نے زمین کی کاشت کاری کے لیے ایک اصول وضع کر دیا۔ آپ نے فرمایا، " حضرت مسور بن مخرمہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کی ایک زمین کے پاس سے گزرے جس میں کھیتی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اے ابو عبدالرحمن نہ ربوٰ کھاؤ اور نہ کھلاو، اور نہ کاشت کرو مگر ایسی زمین میں جس کے تم وارث ہو، یا وارث بنا دیے گئے یا تمہیں مفت دی گئی (مجمع الزوائد)۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین کسی دوسرے کو صرف مفت کاشت کرنے کے لیے دی جاسکتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا حکم بہت واضح ہے۔ آپ نے فرمایا "حضرت عطا سے مروی ہے کہ حضرت جابر نے فرمایا ہم میں سے کچھ اشخاص کے پاس فاضل زمینیں تھیں، آپ ﷺ سے پوچھا گیا ہم ان کو تہائی، چوتھائی، اور نصف پیداوار پر کاشت کے لیے دے سکتے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا "یاد رکھو جس کی زمین ہو، وہ اسے خود کاشت کرے یا پھر اپنے بھائی کو بلا معاوضہ کاشت کے لیے دے دے اور اگر ایسا نہیں کرتاتو پھر اپنے بھائی کو بلا معاوضہ کاشت کے لیے دے دے اور اگر ایسا بھی نہیں کرتا تو اپنی زمین کو بلا کاشت روکے رکھے (صحیح مسلم)۔
یعنی اللہ کے رسول ﷺکو یہ بات گوارا ہے کہ زمین بغیر کاشت رکی رہے لیکن اس کو مزارعت پر دے کر اس سے کمائی حاصل کرنے کو سود اوراللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا عالم یہ ہے کہ اس مضمون کی گیارہ احادیث مختلف کتب حدیث میں موجود ہیں۔ بلکہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں تو مزارعت کے لیے جتنے بھی لفظ عرب میں مستعمل تھے نبی اکرم ﷺنے ان سب کا استعمال کرتے ہوئے اسے منع فرمایا، "حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے محاقلہ، محاضرہ، ملاسمہ، منابذہ اور خرابنتہ سے منع فرمایا (بخاری)۔
احادیث کے ان خزائن کے بعد چاروں آئمہ کرام بھی مزارعت کو سود کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ مزارعت، مسافات کی ہر شکل کو برا اور ناجائز فرماتے، وہ خالی زمین میں ہو یا باغ اور درختوں میں تہائی کے بدلے چوتھائی کے (الخراج)۔ اسی طرح امام مالک نے اپنی مستند کتاب المؤطا میں اسے ناجائز قرار دیا ہے۔
امام شافعی کتاب الام میں لکھتے ہیں "جو کوئی اپنی خالی زمین کاشت کے لیے دے اور یہ طے کرے کہ اللہ کی زمین سے جو پیدا ہوگا اس میں ایک حصہ اس کے لیے ہوگا، پس یہی "محابرہ" ہے جس سے رسول اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ امام احمد بن حنبل صرف ایک صورت میں جائز قرار دیتے ہیں اگر بیج مالک کی طرف سے ہو۔ سود کی یہ قسم اس مملکت خدا داد پاکستان میں رائج ہے۔
اس کو ختم کرنے کے لیے نہ ورلڈ بینک کی ضرورت ہے اور نہ آئی ایم ایف کی، صرف منبر و محراب سے ایک قول فصیل کی ضرورت ہے، ایک اعلانِ جہاد ہی لوگوں کو بتا سکتا ہے کہ تم بے خبری میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ میں مبتلا ہو رہے ہو، سرکار کو خبردار کرنا کہ جمہوری اسمبلی ایسے جاگیرداروں اور زمینداروں کی اکثریت ہے۔