یہ گھڑی محشر کی ہے، "ہم" عرصۂ محشر میں ہیں (1)
گذشتہ دس سالوں سے مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی یورپ میں جو جگہ جگہ آتش فشانی پٹاخہ باری جاری تھی، اس نے اب ایک بہت بڑے میدانِ جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس جنگی بحران اور آنے والے خوفناک دنوں کو سمجھنے، تجزیہ کرنے اور اس کی ہولناکی کا اندازہ کرنے کے لئے پوری دُنیا میں دو زاویۂ نظر متوازی طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
پہلا تو وہ معروف طریقہ ہے کہ جس میں سیاسی، معاشی اور عسکری ماہرین تیسری عالمی جنگ کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی دُنیا کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جبکہ تینوں ابراہیمی مذاہب، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے وہ ماہرین جو علم آخرالزمان (Eschatology) رکھتے ہیں، وہ اپنے اپنے مذاہب کی کتب میں اس جنگ کے بارے کی گئی پیش گوئیوں کے مطابق آنے والے دنوں کا نقشہ ترتیب دے رہے ہیں۔
دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ آخری دنوں کا نتیجہ بھی ایک جیسا ہے کہ حالات و واقعات، تیاریوں اور نفرت و مسابقت کا عالم اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ جس سے ایک ایسی بڑی خونریزی جنم لینے والی ہے، جس کے نتیجے میں دُنیا میں آباد انسانوں کی اکثریت یا تو جان سے چلی جائے گی یا پھر دربدر پناہ ڈھونڈتی پھر رہی ہو گی۔ یوں تو ایسی ہی عظیم جنگ کا نقشہ سیدالانبیاء ﷺ کی احادیث میں بار ہا ملتا ہے، جیسے صحیح مسلم کی وہ والی حدیث جس میں فرات سے سونے کے پہاڑ کی برآمدگی پر لڑائی کی خبر دی گئی ہے۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ "پھر وہ اس پر قتل و قتال کریں گے، پس ہر سو میں سے ننانوے آدمی قتل کر دیئے جائیں گے" (صحیح مسلم)۔ بالکل ایسی ہی جنگ کا احوال اس وقت تمام بڑے عالمی دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور عسکری مہارت کے بڑے بڑے اداروں کی رپورٹوں میں نظر آ رہا ہے۔
سب سے پہلے اس جنگ کے مرکزی حصے کو دیکھتے ہیں کہ یہ آتش فشاں کا دہانہ کہاں پر ہے اور اس سے نکلنے والے جنگی لاوے کی لپیٹ اور تباہی کہاں تک جائے گی۔ یقیناً یہ آبنائے باسفورس کا ساحل ہے اور خاص طور پر یوکرین کا خطہ، جہاں اس کی چنگاری 2014ء میں سُلگائی گئی، جب روس نواز وزیر اعظم وکٹر یان کووچ (Viktor Yanukovych) کو ایک "آئینی طریقے" سے حکومتی اراکین کی وفاداریاں خرید کر حکومت سے برطرف کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔
رجیم چینج (Regime Change) کے اس آپریشن میں یورپی یونین اور امریکہ کے سفیر براہِ راست شریک ہوئے اور جب وہاں ہنگامے پھوٹ پڑے تو یہ سفیر حضرات، اس کے خلاف، دھرنوں میں بھی شریک ہو گئے۔ آخر کار یوکرین سے روس نواز وزیر اعظم کو بھاگنا پڑا، جس کے نتیجے میں یوکرین مکمل طور پر امریکی اثر میں چلا گیا اور روس کے پاس کوئی ایسی سمندری بندرگاہ یا راستہ باقی نہ بچا جس سے اس کا باہر کی دُنیا سے رابطہ ہو سکتا۔
روس کو ایسی جکڑ بندی کا صرف اور صرف ایک ہی حل نظر آیا کہ فوراً یوکرین کے ایک حصے "کریمیا" پر قبضہ کر لیا جائے کیونکہ وہاں 90 فیصد روسی آباد ہیں۔ اس طرح یوکرین کی تیرہ میں سے پانچ بندرگاہیں تو اس کے کنٹرول میں آ جائیں گی۔ 18 مارچ 2014ء کو چھ دن کی جنگ کے بعد کریمیا پر قبضہ کر لیا گیا اور پھر وہاں ریفرنڈم کروا کر اسے روس کا حصہ قرار دے دیا گیا۔
امریکہ ابھی تک افغانستان میں اُلجھا ہوا تھا اور وہاں سے نکلنے کے راستے تلاش کر رہا تھا۔ طالبان کا قطر میں دفتر کھل چکا تھا اور یہ طے ہو گیا تھا کہ اب یہاں سے آخرکار نکلنا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس وقت یوکرین میں اپنے منظورِ نظر ولادی میر زینسکی (Volodymyr Zelenskyy) کو لانے کے بعد صرف ایک ہی شرارت پر توجہ مرکوز رکھی۔
شرارت یہ تھی کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ اور روس میں یہ طے ہوا تھا کہ امریکہ اب اپنی فوجی بالادستی کے لئے بنائی گئی تنظیم "نیٹو" کو یورپ میں مزید آگے نہیں بڑھائے گا۔ لیکن کریمیا پر روسی قبضے کے بعد امریکہ نے اس معاہدے کو بالائے طاق رکھا اور یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے لئے راہ ہموار کرنے لگا۔ اس کا براہِ راست مطلب یہ تھا کہ اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہو جاتا ہے تو پھر امریکہ وہاں دیگر نیٹو اتحادی ممالک کی طرح اپنے اڈے قائم کر کے میزائل نصب کرے گا، جن میں ایٹمی میزائل بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر ایسا ہو جاتا تو پھر روس ان میزائلوں کی زد میں آ جاتا ہے۔ یہ اس قدر اہم نہیں تھا البتہ یہ معاملہ زیادہ اہم تھا کہ یوکرین میں نصب میزائلوں کی وجہ سے امریکہ اور نیٹو جب اور جس وقت چاہتے باسفورس میں کریمیا کی پانچ بندرگاہوں کو اپنے نشانے پر رکھ سکتے تھے جن پر روس نے قبضہ کر لیا تھا۔ جوبائیڈن کے اس بیان کے بعد کہ جس میں اس نے یہ کہا تھا کہ "یوکرین جس دن اشارہ کرے گا، ہم اسے نیٹو میں شامل کر لیں گے"، پیوٹن نے خطرہ بھانپتے ہوئے فوراً 24 فروری 2022ء کو یہ کہتے ہوئے یوکرین پر حملہ کر دیا کہ ہم اس خطے کو غیر عسکری (Demilitrize) اور نازی ازم سے پاک (Denazify) کرنے کے لئے آئے ہیں۔
آج پانچ ماہ بعد یہ سُلگتی ہوئی چنگاری دُنیا بھر کے لئے ایک ایسا خطرہ بن چکی ہے جس کی کوکھ میں تیسری عالمی جنگ چھپی ہے۔ ماہرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ اگر ایک دفعہ یہ جنگ شروع ہو گئی تو پھر اس کے میدانِ جنگ کی وسعت، شمالی انٹارکٹکا کے پڑوسی ممالک آئس لینڈ اور فن لینڈ سے ہوتی ہوئی یورپی یونین کے 29 ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر باسفورس کی جنوبی سمت آباد مسلمان دُنیا کو گھیر سکتی ہے۔
ان میں سب سے پہلا ملک ترکی ہے جس کے شہر استنبول جس کا قدیمی نام "قسطنطنیہ" تھا اور جس پر قبضے کا خواب مغرب کے دماغوں میں آج بھی ناسور کی طرح زندہ ہے۔ جبکہ اس عالمی جنگ کی لپیٹ میں آنے والے عرب ممالک میں مصر، مراکش، لیبیا، سعودی عرب، لبنان، عرب امارات، یمن، عراق اور ایران شامل ہیں۔ یہ ممالک شروع میں تو شاید براہِ راست جنگ میں شامل نہ ہوں گے لیکن ان کے ان دنوں کے فیصلے، مستقبل کے جنگی نقشے پر ان کی پوزیشن کو ابھی سے واضح کر دیں گے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اس وقت ایک جانب امریکہ اور دوسری جانب چین اور روس، دونوں طاقتیں ان عرب ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سعودی عرب جیسے امریکی سرپرستی میں سانس لینے والے ملک نے امریکہ کے صدر جوبائیڈن کو بے نیل و مرام واپس لوٹایا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی صدر کا جدہ کے ایئر پورٹ پر ایک چھوٹی سطح کے رہنما یعنی مکہ کے گورنر شہزادہ خالد بن فیصل نے استقبال کیا، اس کے ساتھ امریکہ میں سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر بھی موجود تھی۔ سعودی قیادت میں سب سے اہم شخصیت شہزادہ محمد بن سلمان نے جب جوبائیڈن کا استقبال کیا تو اس نے حسبِ روایت اس سے اپنے گال ملانے کی بجائے، صرف چھاتی ٹکرائی اور ایسا کرتے وقت اس کے چہرے پر کسی بھی قسم کی کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ حالانکہ عربوں کو خوش کرنے کیلئے اس دورے سے پہلے جوبائیڈن جب یروشلم گیا تو مشرقی یروشلم کے علاقے سے گزرتے ہوئے اس نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ اس کی گاڑی پر امریکہ کے ساتھ لگا ہوا اسرائیل کا پرچم اُتار دو۔
بائیڈن سے پہلے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب گیا تھا تو اس کا خود بادشاہ سلمان نے سرخ قالین پر استقبال کیا تھا، جبکہ جوبائیڈن کے لئے خاص طور پر جامنی رنگ کا قالین بچھایا گیا تاکہ اسے یہ احساس دلایا جائے کہ اس کی پذیرائی ایک معزز مہمان جیسی نہیں ہو رہی۔ (جاری ہے)