نوازشریف کا ہدف۔آئی ایس آئی کیوں؟(آخری قسط)
دنیا کی ہر انٹیلی جنس ایجنسی کی طرح آئی ایس آئی کے خدوخال اور کام کرنے کا طریقہ کار بھی ویسا ہی ہے۔ اس لئے گزشتہ کئی سالوں سے آئی ایس آئی پر لکھے جانے والے مواد میں اس کے کام کرنے کے انداز، مختلف جاسوسی کرنے کے ہتھکنڈے یا جنگ کو دشمن ملک تک روکنے کے عملی طریقوں پر گفتگو نہیں کی گئی، بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کو جو ہدف دیا گیا تھا، کیا اس نے اپنا ہدف حاصل کیا یا نہیں۔
اب تک لکھے جانے والے مواد اور اخبارات و رسائل میں موجود مٹیریل کا ان دونوں کتابوں نے احاطہ کیا ہے اور آئی ایس آئی ان کے نزدیک نہ صرف پاکستانی تاریخ کا ایک اہم ترین باب ہے، یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو 1947 میں ایک محدود پیمانے کی جاسوسی کی اہلیت رکھتا تھا لیکن اب اس کی حالت یہ ہے کہ نہ صرف اس کی صلاحیتوں سے اس کا پڑوسی ملک بھارت خوفزدہ ہے بلکہ اس خطے میں دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی ایجنسی اگر آ کر کام کرنا چاہے تو اسے اس کے ساتھ یا تو اپنے تعلقات استوار کرنا پڑیں گے یا پھر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو بہت زیادہ منظم کرنا ہوگا۔
یہ دونوں کتابیں اور ان کتابوں کی بنیاد بننے والا مواد دنیا بھر کی عالمی طاقتوں کو یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ آئی ایس آئی اب ایک ایسا دیو (Monster) بن چکا ہے کہ اگر اس کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پھر خطے میں آپ اس کے مستقل محتاج ہوں گے۔
تمام مواد اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ آئی ایس آئی کا صرف اور صرف ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے "بھارت"۔ اس کی تمام تر منصوبہ بندی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ آپ اسے اس کے ہدف سے نہ روکیں تو یہ آپ کی شاندار مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اوین سرز کی کتاب کا چوتھا حصہ اسی بات پر بحث کرتا ہے اس حصے کے پانچ باب ہیں اور آپ ان کے عنوان سے ہی اندازہ لگا لیں گے کہ وہ آئی ایس آئی کے کیسے اور کس طرح کے کردار کو زیر بحث لانا چاہتا ہے۔
(1) خفیہ ایجنسیاں اور جمہوریت (2) کشمیر اور پنجاب میں شورش (3) بھارت کے ساتھ تناؤ میں اضافہ (4) پاکستان کی افغان دلدل اور (5) آئی ایس آئی اور اسامہ بن لادن۔ ان ابواب میں آئی ایس آئی کی 1980ء سے لے کر اب تک کی ساری تاریخ سمو دی گئی ہے۔ اور تاریخ یہ ہے کہ اس عرصے میں یہ تنظیم اس قدر مضبوط ہوئی ہے کہ وہ آئی ایس آئی جو 1971ء میں مشرقی پاکستان میں اطلاعات کی ناکامی کی وجہ سے حالات وواقعات اور بھارت کی خفیہ سرگرمیوں کا اپنے ہی ملک میں صحیح اندازہ نہیں لگا سکتی تھی، 1986ء میں اس کا یہ عالم تھا کہ جب بھارت نے پاکستان کے ساتھ راجستھان باڈر کے ساتھ پانچ لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مشقیں شروع کیں اور اس کے نام Brasstarks تک کو بھی خفیہ رکھا گیا۔ لیکن آئی ایس آئی کو بھارت کے ہر کنٹونمنٹ کے باہر یا اندر موجود اپنے افراد کے ذریعے ایک ایک لمحے کی معلومات مل رہی تھیں۔
اس کے بعد ہی پاکستان نے بھی اپنی افواج کو بارڈر کی طرف لے جانا شروع کردیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور امریکہ افغان جنگ کی وجہ سے ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ لیکن امریکہ کسی صورت بھی خطے میں پاکستان کے کردار کو اس قدر بڑا نہیں دیکھنا چاہتا تھا کہ بھارت خوفزدہ رہے۔ مگر جب پاکستان کے ضیاء الحق نے امریکی حکام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تمام معلومات انکے سامنے رکھ دیں تو اس دن امریکیوں کا ماتھا ٹھنکا اور بھارت کو پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ پاکستان نے ان کے مقابلے میں اپنے خفیہ نیٹ ورک اتنا مضبوط کیا ہے۔ آج اسکی بدولت وہ ہمیں بھی مانتا ہے اور خود بھی تیار ہے۔
یہ بھارت سے زیادہ امریکیوں کے لیے حیرت کا مقام تھا۔ یہ واحد تناؤ تھا جسے پاکستان نے بھارت کے ساتھ کسی مدد کے بغیر خود حل کیا۔ ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے چلا گیا اور دنیا جانتی ہے کہ اس نے راجیو کے کان میں کیا کہا کہ دونوں ملک بغیر کسی بیرونی مداخلت کے فوراً ایک لاکھ پچاس ہزار افواج بارڈر سے واپس بلانے پر رضامند ہو گئے۔ جس کے بعد بھارت اپنے ملک میں موجود سفیروں کو بلاکر کھسیانا سا ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ہم بارڈر کا تناؤ ختم صرف پاکستان کے ساتھ حالات ٹھیک کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔
یہیں سے (CBM) confidence building measure""کا لفظ ایجاد ہوا۔ یہ شکست ایک خطرے کی گھنٹی تھی۔ اسی کے بعد بھارت نے اپنے اندر موجود آزادی کی تحریکوں کو کچلنا شروع کیا۔ 8 جون 1984 کو گولڈن ٹمپل کا آپریشن ہوچکا تھا اور وہ سکھ تحریک جو اب تک صرف بھارتی پنجاب تک محدود تھی، وسعت اختیار کر گئی۔
بھارت نے دنیا بھر کی طاقتوں کے سامنے اس کا واویلا کیا لیکن افغان جنگ کی وجہ سے امریکہ اور دیگر نے سنی ان سنی کر دی۔ اسی دوران کشمیر میں بھی تحریک نے ایک نیا موڑ لیا۔ لاتعداد کتابوں خصوصاً لیوی اور سکوٹ کی لکھی ہوئی کتاب "Nuclear deception"ایٹمی دھوکہ بازی" میں یہ تصویر کھینچی گئی ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی بھارتی کشمیر میں افغان جہاد کا ایک ویسا ہی روپ دیکھنا چاہتی تھی۔
حالات بدل گئے، افغان جنگ میں روس افغانستان چھوڑ گیا تھا لیکن اس دوران پاکستان اور آئی ایس آئی کے پاس تین اہم ترین صلاحیتیں آچکی تھیں (1) ایٹمی صلاحیت، (2) شاندار خفیہ نیٹ ورک (3) تربیت یافتہ مجاہدین۔ آئی ایس آئی اور پاکستان کی ان صلاحیتوں پر لکھے گئے اس تمام مواد میں ایک واقعے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کہ ضیاء الحق کے بعد کیسے بے نظیر کی جمہوری حکومت کے تعاون سے بھارت نے خالصتان کی تحریک کو کچل کر رکھ دیا تھا۔
دنیا متفق ہے کہ آئی ایس آئی کو اگر اپنے "بھارتی ہدف" سے نہ ہٹایا جائے تو یہ تمام عالمی مفادات پورا کرنے میں ممدو معاون ہوتی ہے۔ افغان جہاد جیت کر عالمی طاقتوں کی جھولی میں ڈال دیتی ہے اور پھر 2001 میں ایک پرامن افغانستان کو جو خود ان کے ملک کے لیے ایک بہترین پڑوسی بن چکا تھا دوبارہ امریکی افواج کا مقبوضہ علاقہ بنانے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن اگر اس دیو (Monster) کو بھارت کے سائے میں کام کرنے کے لئے کہا جائے، دباؤ ڈالا جائے تو پھر یہ خوفناک ہو جاتا ہے اور اسکی خوفناکی سنبھالی نہیں جاسکتی۔ تقریبا تیس سال کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس دیو کو قابو کرنے کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت ہی بہترین ہتھیار ہے مگر اس کو عالمی مدد بہت ضروری ہے۔ یہ سیاسی حکومتیں آہستہ آہستہ اپنی قوت اور طاقت سے خود کو فوج اور آئی ایس آئی سے دور کر لیں گی۔
یہ مشکل کام ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے انھیں بھارت اور عالمی طاقتوں کی مدد چاہیے ہوگی۔ یہاں یہ تمام بیرونی لکھاری اور عالمی طاقتیں ایک خواب دیکھتی ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب آئی ایس آئی اپنی اس صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ دنیا کا ہر تجزیہ نگار اس کے لیے پہلا قدم یہ تجویز کرتا ہے کہ آئی ایس آئی کو فوج کے کنٹرول سے نکال کر سول کنٹرول میں دیا جائے پھر اس کے بعد اس کی تینوں صلاحیتوں کو آہستہ آہستہ ختم کرکے اس کا ڈنک نکال دیا جائے۔ وہ مانتے ہیں کہ جب امریکہ نے افغانستان میں بھارت کے کردار کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تو اس بری طرح شکست کھائی کہ اسے واپس مڑکر آئی ایس آئی کے پاؤں پڑنا پڑے کہ اسے وہاں سے باعزت نکلنے کا راستہ ملے۔
پاکستان اس وقت ایک ایسے تاریخی دو راہے پر کھڑا ہے ستر سال کے بعد پاکستان اس آہنی شکنجے سے مکمل طور پر آزاد ہونے کے مرحلے میں ہے جو 1956 میں لیاقت علی خان اور امریکہ معاہدہ سے پاکستان کی گردن میں آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ پاکستان اپنی سمت بدلے، آئی ایس آئی اور پاکستان سے اس کی تین صلاحیتیں چھین لینا بہت ضروری ہیں (1) ایٹمی صلاحیت، (2) آئی ایس آئی کا مضبوط نیٹ ورک (3) مجاہدین۔ ایسا کسی جنگ سے نہیں ہوسکتا۔ جنگ مزید مجاہدین پیدا کرتی ہے اور حالت جنگ میں نیٹ ورک اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
یہ صرف اور صرف پاکستان کے عوام میں آئی ایس آئی کو ایک منفی کردار کے طور پر پیش کرنے، یہاں پاکستان مخالف قوتوں کی مدد کرنے اور سیاسی قوتوں کو خود مختاری، آزادی اور جمہوری عمل کی راہ دکھا کر آئی ایس آئی اور فوج کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کمزور ہوگئی تو جس طرح عراق شکست کے بعد پورا خطہ ایک چراگاہ بن چکی ہے جہاں دہشت گرد، اٹارنی ملیشیا، سب گھومتے پھرتے ہیں، بھارت کو بھی وسط ایشیاء تک کوئی روک نہ سکے گا اور پاکستان ویسی ہی ایک چراگاہ بن جائے گا۔
ایک کمزور، مقروض، بے جان اور خوفزدہ پاکستان، عالمی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد گار اور ہر ایسے سیاستدان کی جنت ہوگا جو حکومت یہاں کرے گا لیکن اس کے مالی، معاشی اور سیاسی مفادات ملک سے باہر ہوں گے۔ نوازشریف ایسا ہی ایک سیاستدان ہے لیکن شاید وہ اس عالمی مشن میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کی وجہ نہ تو فوج ہے نہ آئی ایس آئی، نہ بھارت ہے اور نہ ہی امریکہ۔ اس کی وجہ پاکستان ہے جو اللہ کی غیرت کی علامت ہے اور اللہ کی غیرت یقیناً اس وقت جوش میں ہے۔ (ختم شد)