ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا (2)
ضیاء الحق کے جانے کے بعد جو پہلے انتخابات ہوئے، وہ جماعتی بنیادوں پر تھے۔ ان انتخابات میں ایک اندیشہ تمام خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ظاہر کیا گیا تھا کہ عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی ازسر نو اُبھر کر انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھا دے۔ پیپلز پارٹی کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کا خوف مرکزی سول انتظامیہ کو تھا اور نہ ہی ضلعی سطح کے حکومتی اہلکاروں کو کسی قسم کے اندیشے لاحق تھے۔ لیکن کچھ حلقوں میں پیپلز پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے سے جو اندیشہ ہائے دُور دراز موجود تھے، ان کی وجہ سے بہت سے "ادارے" ان الیکشنوں میں پہلی دفعہ متحرک ہوئے۔ المیہ یہ تھا کہ الیکشن کی سیاست ان "اداروں " کی استعداد اور تجربے سے بہت دُور تھی، اس لئے ان اداروں کا کردار قومی اور صوبائی سطح تک ہی بہت محدود رہا۔ لوکل سطح پر اُتر کر الیکشنوں پر اثر انداز ہونا تو ابھی انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مرضی و منشاء کے برعکس پیپلز پارٹی اتنی سیٹیں لے کر اسمبلی میں آ گئی کہ اسے حکومت دینے سے انکار عوامی ردِعمل کی صورت ظاہر ہو سکتا تھا۔ اب پولنگ اسٹیشن بہت پیچھے رہ گئے اور حکومتی سطح کی سیاسی چالبازیاں شروع ہو گئیں۔
پنجاب میں نواز شریف اور بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی وزارتِ اعلیٰ حکومتی کارکردگی کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلئے کافی تھی۔ آئین میں 2-B58 کی لٹکتی ہوئی تلوار کے سائے میں ڈیڑھ سال بعد بے نظیر حکومت کو چلتا کیا گیا۔ اب ذرا محتاط کھیل شروع ہوا اور یہ سارے کا سارا کھیل مرکز اور صوبائی سطح تک منظم انداز میں کھیلا گیا۔ پارٹیوں کا ایک اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں لایا گیا، صوبوں میں اپنی مرضی کے نگران وزرائے اعلیٰ مقرر کئے گئے اور یوں مرکزی سطح پر ادارے اور صوبائی سطح پر انتظامیہ کا گٹھ جوڑ پہلی دفعہ آزمایا گیا۔ لوکل انتظامیہ کو علم تھا کہ مقتدر قوتیں کس شخص کو قومی اسمبلی اور کس کو صوبائی اسمبلی کا رکن دیکھنا چاہتی ہیں۔ جعلی یا اضافی ووٹرز لسٹوں کی تدوین کی حد تک الیکشن کمیشن کو بھی ملوث کیا گیا۔ شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نے اپنے اضافی ہنگامی دفاتر بھی بنائے اور رات گئے تک نئے شناختی کارڈ بھی بنائے جاتے رہے۔ یوں ایک بہترین ربطِ باہمی (Co-ordination) سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے گئے اور نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر "جلوہ افروز" ہو گئے۔ پہلی دفعہ ایک منظم کارروائی کا تجربہ کیا گیا۔ یہ باہمی ربط اور ہم آہنگی وقت کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہترین ہوتی چلی گئی۔
مرکزی سطح پر سیاست دانوں کو دام میں لایا جاتا، اپنی مرضی کی چھتری تلے گھسیٹا جاتا اور علاقائی سطح پر انتظامیہ ان کے "شاندار" الیکشن کیلئے پسِ پردہ تمام اختیار بروئے کار لاتی۔ مشرف کے برسرِ اقتدار آنے اور اس کے دَور کے پہلے الیکشنوں تک یہ پہیہ خوب چلا اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے راوی چین لکھتا رہا۔ لیکن جب 2008ء کے الیکشنوں کا موسم آیا تو لوکل اور مرکزی کرداروں سے بالاتر ایک اور کردار پاکستان کی جمہوری زندگی پر کھل کر اثر انداز ہونے کیلئے سامنے آ گیا۔ یہ تھی "عالمی اسٹیبلشمنٹ"۔ اس سے پہلے وہ اپنے "سودے" براہِ راست ملٹری یا سول دونوں طرح کی حکومتوں سے آسانی سے طے کر لیا کرتے تھے۔ لیکن اب انہیں ہر ملک میں جمہوری چہرہ لانے کیلئے مجبور کیا گیا۔ جمہوری چہرہ بھی ایسا کہ جسے عوام میں تھوڑی بہت پذیرائی ضرور حاصل ہو اور لوگ انہیں حکومتی تھیلی کی بلّی نہ سمجھیں۔ یہی وجہ ہے کہ چوہدری شجاعت کو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے کھل کر کہہ دیا تھا کہ اگر آپ کی پارٹی الیکشن جیت گئی تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ وارننگ چوہدری شجاعت کو نہیں تھی، بلکہ بالواسطہ طور پر مشرف اور اس انتظامیہ کو دی گئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ جو اب الیکشن کے رزلٹ اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں ماہر ہو چکی تھی اور ان کیلئے قاف لیگ کی حکومت کو برسرِ اقتدار لانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، لیکن وہ دبک کر بیٹھ گئی۔
سیاست اور اقتدار کا کھیل کس قدر ظالم ہوتا ہے، ذرا واقعات کا تسلسل دیکھئے۔ بے نظیر کی وطن واپسی، نواز شریف کا ورود، کراچی کار ساز دھماکے کی وارننگ، لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر کا قتل، سندھ میں آگ و خون کی ہولی، آصف زرداری کا "پاکستان کھپے" کا نعرہ اور اس کی عوامی مقبولیت۔ ایسے میں جب انتخابات ہوئے تو مرکز کو اور ضلعی سطح کی انتظامیہ کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی، جو چاہا تھا ویسا ہی نتیجہ خودبخود سامنے آ گیا۔ اس کے بعد کے دو انتخابات مرکزی اور مقامی انتظامیہ کے ہنرمند ہاتھوں کے باہمی ربط کا خوبصورت اور حسین امتزاج ہیں۔ مرکزی "اداروں " کو اب، بساط جمانے، مہرے بدلنے اور شہ مات کیلئے میدان سجانے کا خوب تجریہ ہو چکا ہے اور علاقائی و ضلعی انتظامیہ کو بھی خوب پتہ چل چکا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ کوئی بھی ہو، اس کی حیثیت کٹھ پُتلی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ الیکشن کمیشن جیسے چاہے احکامات صادر فرمائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں معلوم ہے کہ کس کے احکامات کے مطابق الیکشن کو ترتیب دینا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب یہ سب کچھ عوام کے سامنے اتنا کھل کر آ چکا ہے کہ کوئی پردہ نہیں رہا۔ ایک ایسا ملک جس کی سیاسی پارٹیاں جنہوں نے عوام کی قیادت کرنا ہوتی ہے، اتنی مجبور ہوں کہ سرِعام کہتی پھریں کہ ہمارے اُمیدواروں کو فون مت کرو، ورنہ وہ ہمارے گھونسلے سے اُڑان بھر لیں گے یا پھر وہ اپنے لوگوں کو دولت اور وزارتوں کے لالچ کے عوض بِکتا ہوا خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ ایسے ماحول میں کون ہے جو اس سب کے خلاف اُٹھ کر انقلاب لائے گا، شاید کوئی نہیں۔
یہ ساری بساط الیکشن کمیشن کی چھتری اور انتظامیہ کے شامیانے کے تلے اس خوبصورتی سے بچھائی جاتی ہے کہ کوئی اسے اُلٹنے کی اوّل تو جرأت نہیں کرتا اور دوسرا یہ کہ یہ کام ایسی صفائی سے کیا جاتا ہے کہ کوئی انہیں پکڑ نہیں سکتا۔ کئی سالوں پر محیط ٹریننگ سے حاصل کردہ الیکشنوں پر غلبے کی صلاحیت والے لوگوں کے سامنے جب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویز رکھی گئی تو ہر کوئی بھڑک اُٹھا۔ اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ مشین میں ایمانداری اور بے ایمانی دونوں کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ یہ دونوں خصوصیات تو چلانے والے میں ہوتی ہیں۔ جس ملک میں 16 کروڑ موبائل فون کنکشن کسی بددیانتی کے بغیر گلی محلوں میں گھومتے بائیو میٹرک مشینوں والوں کے ذریعے رجسٹرڈ ہو جائیں۔ جہاں روز ہزاروں دفاتر میں بائیو میٹرک مشینوں سے حاضری لگتی ہو۔ جہاں روز لاکھوں لوگ بائیو میٹرک اے ٹی ایم مشین استعمال کرتے ہوں اور کروڑں روپے نکالتے ہوں اور ایسے لاتعداد کام روزانہ اسی طرح کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین جیسی مشینوں کے ذریعے ایماندارانہ طور پر سرانجام دیئے جاتے ہوں، وہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خلاف یہ تمام سیاسی پارٹیاں شور کیوں مچا رہی ہیں۔
دراصل یہ شور اس مشین کے خلاف نہیں مچایا جا رہا، بلکہ گذشتہ چالیس سال میں جو تجربہ اور استعداد ہماری قومی اسٹیبلشمنٹ اور لوکل انتظامیہ نے حاصل کر لی ہے، سب یا تو اس سے ڈرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں اگر یہ مشین بھی آ گئی تو بے ایمان ہو جائے گی یا پھر یہ سب اس پرانے نظام سے ہی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جس کی دسترس میں یہ مشین ہو گی، اگر وہ بے ایمان ہے تو مشین سو فیصد "بے ایمان" اور اگر وہ ایماندار ہے تو مشین سو فیصد "ایماندار"۔ مشین تو حکم عدولی نہیں کرتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب مل کر ایک ایسا نظام وضع کرتے جس میں مشین کو بے ایمان بنانے کی صلاحیت ہی کارآمد نہ ہو سکتی۔ ایسا کمپیوٹر کی دُنیا میں آسانی سے ممکن ہے۔ لاکھوں ادارے روزانہ بے ایمانی کی روک تھام کیلئے اسی کمپیوٹر چیک کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ ہم گذشتہ بے ایمان سسٹم کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن دل سے اسے ہی چاہتے ہیں کیونکہ اس میں تھوڑا بہت دائو لگنے کا "چانس" موجود رہتا ہے۔ لیکن اگر مشین کو کسی طرح مکمل طور پر ایماندار بنا دیا گیا اور ایسا میکنزم وضع ہو گیا کہ مشین بے ایمانی سے اچانک بھڑک اُٹھے، مکمل طور پر بند ہو جائے تو پھر یہ تمام سیاستدانوں کی اُمیدوں کی موت ہو گی، اور ایسا کون چاہے گا۔