کوئی چارہ ساز ہوتا ،کوئی غم گسار ہوتا
پاکستان کی بدقسمتی یہ نہیں کہ اسے گزشتہ 50 سالوں سے ایسے لیڈر میسر آتے رہے ہیں جنہوں نے غربت، بیماری، بھوک، بے روزگاری اور جہالت جیسے لفظ صرف کتابوں میں پڑھے ہوتے ہیں بلکہ اکثر انکی تقریریں لکھنے والوں نے انہیں یہ لفظ تقریروں کو جاندار بنانے کے لئے سکھائے ہوتے ہیں، بلکہ اصل بد قسمتی یہ بھی ہے کہ وہ دانشور، ادیب، شاعر اور لکھاری جن کی تحریروں میں غریب کا دکھ ہوتا تھا، جھونپڑی کی سرد راتیں اور صحرا کی پیاس میں تپتے دن نظر آتے تھے، مزدور کا استحصال، کسان کی بے بسی نظر آتی تھی، وہ سب کے سب ان متمول طبقات میں شامل ہوگئے ہیں جن کا طرز زندگی پاکستان کی اشرافیہ سے ملتا جلتا ہے۔ گئے دن کہ جب کوئی احمد ندیم قاسمی "رئیس خانہ" لکھتا تھا یا راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ "مٹھی بھر چاول" پڑھنے والے کو رْلا دیتا تھا۔ مسعود مفتی کا "کھلونے" ہو یا پریم چند کا "زادِ راہ"، سب اس محروم و مظلوم طبقے کا دکھ بیان کرتے تھے جن کے آس پاس یہ لکھاری خود بھی رہتے تھے۔
صدیوں پرانے بسائے گئے شہروں اور قصبوں میں امیر اور غریب آبادیوں کا فرق نہیں ہوتا تھا۔ ایک ہی محلے میں بہت بڑی حویلی بھی ہوتی تھی اور عین اس کی دیوار سے جڑا ایک مرلے کا مکان بھی۔ تاجر اور دکاندار بھی وہیں رہتا اور ملوں اور دکانوں میں کام کرنے والا مزدور بھی اپنی غربت کے دن کاٹتا تھا۔ لوگوں نے قدیم شہر، قصبے، محلے اور گاؤں چھوڑے تو ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق نوآباد علاقوں میں منتقل ہوتا چلا گیا۔
سیٹلائٹ ٹاون، سمن آباد، پی ای سی ایچ ایس سے گلبرگ، کینٹ، ڈیفنس اور بحریہ کی آراستہ آبادیوں سے شہروں میں غربت کی تقسیم واضح ہوتی چلی گئی۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے پچاس سالوں تک سب کچھ ایسے ہی ٹھہرا ہوا سا تھا۔ ہمارا معاشرہ 1970ء کے بعد "دبئی چلو" کے طوفان نے بدلا ضرور لیکن لوگ اپنے آبائی محلوں، گھروں اور علاقوں سے جڑے رہنے میں ہی خوشی محسوس کرتے تھے۔
پاکستان کے افق پر ابھرنے والے لازوال ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، صحافیوں اور لکھاریوں کے گھروں کے پتے اکٹھے کیے جائیں تو ان میں سے اکثریت ہی نہیں بلکہ بے پناہ اکثریت انہی کٹروں، محلوں، گلیوں اور آبادیوں میں رہنے والے تھے جہاں اردگرد غریب اور مفلوک الحال بستے تھے۔ کوئی کرشن نگر کی گلیوں میں زندگی کے خوش کن اور درد بھرے لمحات کاٹتا تو کوئی مزنگ اور انارکلی کے قرب و جوار میں۔
اخبار اور ریڈیو رزق کمانے کے ذریعے تھے، ادبی رسالے بھی تھوڑا بہت معاوضہ دیتے رہتے، قسمت یاوری کرتی تو فلم کی دنیا میں مکالمے، کہانی یا گیت لکھ کر کما لیا جاتا۔ لیکن یہ تمام ذرائع زندگی میں آسانی تو پیدا کردیتے مگر ان لکھاریوں کی زندگی میں جوہری طبقاتی تبدیلی نہ آئی۔ یعنی ان کی "کلاس" نہیں بدلی. یہی وجہ ہے ان تمام لکھنے والوں کی تحریروں میں غریب کا دکھ بھی جھانکتا تھا اور ان کے آئیڈیل رہنماؤں میں آج کے سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے لوگ بھی شامل نہ تھے۔
سنت نگر کی گلیوں میں زندگی گزارنے والا حبیب جالب اور بھاٹی گیٹ میں رہنے والا استاد دامن اسی لیے اپنے ماحول کے ناقد اور اشرافیہ کے مخالف رہے کہ انہوں نے زندگی کے دکھ اور درد سہے اور اپنے اردگرد دیکھے تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن نے کچھ لوگوں کو تھوڑی سی آسائش فراہم کی، اس کے بعد نوے کی دہائی میں پرائیویٹ ڈرامے شروع ہوئے تو ادیب خوشحال ہونے لگے۔ یوں تاجروں، صنعت کاروں، بیوروکریٹس اور سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ادیب بھی خوش رنگ آبادیوں میں منتقل ہونے لگے۔
کالم نگاری لوگوں میں مقبول ہوئی تو اخبار والوں کا کالم نگار بہتر آمدنی والے طبقے میں شامل ہوگیا، اور آخری تبدیلی پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز کے پروگراموں میں جلوہ گر ہونے والے اینکروں، نیوز اینکروں، مارننگ شوز کے میزبانوں اور دیگر سکرین پر نمودار افراد کے معاوضوں سے آئی، اور آج پورے پاکستان میں میڈیا پر عوام کے دکھ درد کے یہی ترجمان ہیں۔ ان کی زندگیوں کے معمولات عام پاکستانی سے بالکل مختلف ہو چکے ہیں۔
صبح تازہ جوس کے بعد گالف یا جمنیزیم، دوپہر کسی شاندار ریسٹورنٹ میں لنچ، شام کی طریبہ محفلیں، دنیا بھر کے تفریحی مقامات کی سیریں، عالمی برانڈ کے کپڑے، غرض وہ سب کچھ جس کی کوئی غریب صرف تمنا کر سکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ قرۃ العین حیدر اور اس قبیل کے ادیب جب لکھتے تھے تو سب لوگ حیرت سے پڑھتے تھے کہ ان کے لیے یہ ماحول اجنبی اور افسانوی سا تھا، اب ہر کسی لکھنے والے کو یہ سب میسر آجاتا ہے۔ اسی لیے ان کے دکھ بھی اشرافیہ والے ہوچکے ہیں، اور موضوعات بھی اور ہیرو بھی ویسے۔
بلاول ہاؤس سے بلاول اور رائے ونڈ کے محلات سے مریم۔ گزشتہ چند برسوں سے میں ڈھونڈتا رہا ہوں کہ پاکستان کی نبض پرہاتھ رکھنے والے ان دانشوروں کی تحریروں میں وہ معاشی زوال، اقتصادی بدحالی اور عام آدمی کے کرب کی کوئی ایسی تصویر نظر آئے جس سے معلوم ہو کہ انہیں اس مسئلہ کا ادراک ہے۔ وہ بلندی سے تیزی کے ساتھ لڑھکتی ہوئی معیشت کا ماتم کر رہے ہیں۔
سوائے چند ایک دانشوروں کی تحریروں کے، اور وہ بھی جنہیں میڈیا خشک اور بور قرار دیتا ہے، کہیں مسئلے کی سنگینی نظر نہ آئی۔ سنگینی ہے کیا؟ ۔ اور ہم کس کنوئیں میں گر چکے ہیں اور نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی نہیں مار رہے کوئی جان لے تو چیخ اٹھے۔ بینظیر کی پہلی حکومت جو 1988ء میں قائم ہوئی تھی، اس سے لے کر 2018ء تک پاکستانی معاشرہ ایک خاص منصوبے کے تحت کسانوں اور صنعتکاروں سے بدل کر تاجروں کے معاشرے میں بدل دیا گیا ہے۔
نہ ہم کچھ پیدا کرنے والوں میں شمار ہو رہے ہیں اور نہ ہی کچھ بنانے والوں میں۔ نواز شریف کی پہلی حکومت سے لے کر آخری حکومت تک کے سارے کے سارے عرصہ میں تاجر کا راج قائم کیا گیا۔ جو شخص دنیا بھر سے جو کچھ چاہے، جب چاہے، اور جیسا چاہے منگوائے اور لوگوں کو اس کا عادی بنا دے۔ ہم نے خریداروں کا ایک طبقہ پیدا کر لیا ہے جس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہم نے اس ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
ہم ناشپاتی نیوزی لینڈ کی کھاتے ہیں اور سیب و زیتون سپین کے، دنیا کے ہر برانڈ کے کپڑوں، جوتوں، میک اپ، غرض آپ کسی چیز کے کسی بھی برانڈ کا نام لیں آپ کو میسر آجائے گی۔ ہمیں امپورٹڈ گاڑیاں اچھی لگتی ہیں، اس لیے ہم نے منگوا لیں۔ ہم نے درآمدات کو اس لیے کھلی چھوٹ دی کہ تاجر ہمارا ووٹر بھی تھا اور فنانسر بھی۔ چین سے فرنیچر، جوتے، بجلی کا سامان، کھلونے، یہاں تک کہ بیٹری کے سیل، بٹن اور سوئیاں تک منگوائی جانے لگیں اور یہاں کے کارخانے بند اور لوگ بیروزگار ہوتے گئے۔ صرف تاجروں کے پیٹ موٹے ہوئے۔
ہم کس قدر ظالم ہیں کہ ان تیس سالوں میں ایک روپیہ بھی پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں پر نہیں لگایا اور تیل اور کوئلے سے بجلی بنائی تاکہ برآمد کرنے والوں کا منافع بھی قائم رہے اور افسران و وزیران کا کمیشن بھی۔ حالت یہ ہے کہ اس وقت صنعت کار افغانستان سے کوئلہ منگوا کر کارخانوں کو بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ اس غریب قوم کی خریداری کی لسٹ ملاحظہ کریں۔
پٹرول، کوئلہ، گیس کے لیے 13.7 ارب ڈالر، ایئرکنڈیشنڈ، بوائلر، واشنگ مشین، کمپیوٹر، بلڈوزر کے لیے 6.9 ارب ڈالر، بجلی کے ساز و سامان کے لیے 4.7 ارب ڈالر، سٹیل 3.4 ارب ڈالر، گاڑیاں 2.7 ارب ڈالر، خوردنی تیل 2.4 ارب ڈالر، سبزیاں ایک ارب ڈالر، پلاسٹک کا سامان 2.3 ارب ڈالر یعنی ہم 58 ارب ڈالر کی اشیاء باہر سے منگواتے ہیں۔ موجودہ حکومت خیال کرتی ہے کہ اس سال کی ہماری برآمدات 24 ارب ڈالر ہو ں گی جبکہ درآمدات 54 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ یہ 27 ارب ڈالر کا خسارہ بھی ریکارڈ ہے لیکن جس حساب سے ہم نے خریداری کا بازار گرم کیا ہے ہم اس سال 60 ارب ڈالر کی اشیاء منگوائیں گے اور شاید بائیس ارب کی کپاس، چاول، کپڑے وغیرہ باہر بھیج سکیں گے۔
یہ چالیس ارب ڈالر کا خسارہ کون پورا کرے گا۔ یقیناقرضہ اور پھر قرضہ۔ نواز شریف حکومت نے آخر میں حل یہ نکالا کہ پاکستانی روپے کی قیمت کم کر کے اسے ایک اور کھائی میں گرا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ تاجروں کی آمدن اور کاروبار میں اضافہ ہو۔ ہم بدترین بحران کی زد میں ہیں۔ ہمیں سرمایہ کاری کے لیے غیر محفوظ بتایا جاتا ہے، لیکن برگر، پیزا، فاسٹ فوڈ، فیشن شاپ، برانڈڈ مصنوعات کی دکانیں روز کھل رہی ہیں۔ پاکستان کی اس بدقسمتی کے ذمہ دار دو طبقے ہیں جن کے بارے میں افلاطون نے اپنی کتاب "الجمہوریہ" میں متنبہ کیا تھا۔ اس نے کہا تھا "تباہ ہوگئیں وہ قومیں جن پر تاجر حکمران ہوئے یا جرنیل۔ ہماری بد قسمتی کی انتہا دیکھیں کہ ہم پر دونوں ہی حکمران رہے۔