اسٹبلشمنٹ کے اصل دست و بازو (آخری قسط)
اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ صرف فوج یا اس کے زیرِ سایہ خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ چند سالوں سے ایسا تاثر پاکستان میں خاص طور پر بنانے کی منظم کوشش کی گئی ہے، جس کی وجوہات اور پس پردہ مقاصد ایک الگ موضوع ہے۔ ہردور میں وقت اور حالت کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ایک بازو زیادہ بااختیار ہو کر پورے گروہ کی قیادت کرنے لگتا ہے تو وہی اس کی پہچان بن جاتا ہے۔ سول بیوروکریسی کے بغیر فوج اپنا اثر و نفوذ مضبوط نہیں کر سکتی اور سیاست دانوں میں اپنے تخلیق کردہ (Planted) گروہی لیڈروں کے بغیر دونوں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔ پاکستان میں اکتوبر 1958ء سے پہلے فوج، سول بیوروکریسی کے ماتحت ایک ایسی منظم قوت تھی جو اس کا حکم بجا لانے کے لئے مستعد کھڑی ہوتی۔ پاکستان میں فروری 1953ء میں جو پہلا مارشل لاء لگا اس کی روئیداد سکندر مرزا (سیکرٹری دفاع) نے جس طرح لکھی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے، کہ لاہور میں قادیانیوں کے خلاف "مجلس عمل"کی تحریک زور پکڑ چکی تھی، حالات خراب ہوتے جا رہے تھے اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین، مجلس عمل کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہوچکے تھے۔ اس مقصدکے لئے 27فروری کو صبح دس بجے کابینہ کا اجلاس بھی بلا لیا گیا تھا۔
ایک رات قبل سکندر مرزانے وزیر داخلہ گورمانی کو راتوں رات یہ خبر پہنچائی کہ ایک خفیہ اطلاع کے مطابق کل صبح ایک لاکھ افراد وزیراعظم ہاوس کا گھیراؤ کرنے والے ہیں۔ اگلے دن کابینہ کے اجلاس کے لئے جب سکندر مرزاکمرے میں داخل ہوا تو وزیر اعظم، پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ سے فون پر بات کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے فون ہاتھ میں لئے ہوئے کابینہ سے کہا کہ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ "آپ مجلس عمل کے مطالبات تسلیم کر لیں، ورنہ لاہور راکھ کا ڈھیر بن جائے گا"۔ سکندر مرزا نے وزیر اعظم سے کہا کہ آپ فون بند کریں میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد سکندر مرزا بولے کہ وزیر اعلیٰ کو اتنی بے احتیاطی کے ساتھ کھلے فون پر گفتگو نہیں کرنا چاہیے، اسے بتا دیں کہ ہم کسی سے کوئی بات نہیں کریں گے اور فوراً اجازت لے کر چلا گیا۔ وہاں سے وہ سیدھا آرمی انٹیلی جنس کے دفتر پہنچا، "مخصوص" (secra) فون طلب کیا اور لاہور کے کمانڈنگ آفیسر جنرل اعظم خان سے کہا، "لاہور میں سول انتظامیہ ناکام ہو گئی ہے، تم کنٹرول سنبھالو، مارشل لاء نافذ کر دو اور معاملہ ختم کرو"۔
اس کے بعد جنرل اعظم نے ایک مستعد سپاہی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے "سینئر پارٹنر" سکندر مرزا کی ہدایات پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ لیکن ایوب خان کے مارشل لاکے بعد اب یہ ترتیب الٹ چکی ہے۔ فوج اب اس اسٹبلشمنٹ کی قائد اور سینئر پارٹنر بن گئی ہے، جبکہ سول بیوروکریسی اس کا وہ دایاں ہاتھ ہے جس سے وہ اپنے ہر حکم کا اطلاق کرواتی ہے اور ہر خواہش کی تکمیل بھی۔ بالواسطہ مداخلت اور براہ راست مداخلت دونوں صورتیں اپنے اپنے وقتی حالات کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ مگر ان دونوں مداخلتوں میں سیاست دان ایک ایسے بند کا کام دیتے ہیں جو عوامی نفرت کے سیلاب کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
براہ راست مداخلت کی صورت میں ایوب خان کو ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر فضل القادر چوہدری تک ہر صوبے سے سیاست دانوں کی ایک وسیع کھیپ میسر آجاتی ہے جو اپنے سینوں کو ایوب کے انتخابی نشان "گلاب کے پھول" سے سجاتے ہیں اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی لالٹین کو"گُل "کر دیتے ہیں۔ یحییٰ خان کو بھی خوش ٓمدید کہنے کے لیئے اسی بھٹو کا کاندھا میسر آتا ہے۔ بھٹو کی مدد آخر وقت تک اسکے شاملِ حال رہتی ہے۔ 1970ء کے الیکشن کے نتائج کے بعد یحییٰ خان مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کرتا ہے، بھٹو اس کی حمایت کرتا ہے، شیخ مجیب کو گرفتار کرتا ہے، عوامی لیگ کو کالعدم قرار دیتا ہے، ضمنی الیکشن کرواتا ہے، نور الامین کو وزیر اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نامزد کرتا ہے اور یحییٰ خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے دسمبر 1971ء میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شریک بھی ہوتا ہے۔
ضیاء الحق کے براہ راست مارشل لاء کا ساتھ تو ہر اس سیاستدان نے دیا جن کی اولادیں آج انقلاب اور جمہوریت کی علمبردار بنی بیٹھی ہیں۔ باچا خان کے صاحبزادے خان عبدالولی خان نے ضیاء الحق کو واضح الفاظ میں مشورہ دیا تھاکہ قبر ایک ہے اور افراد دو، بھٹو اس قبر میں لیٹے گا نہیں توآپ۔ خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر ضیاء الحق کی "مجلس شوریٰ"کے سپیکر تھے تو مریم نواز کے والد واحدسیاسی جانشین۔ مارشل لا لگنے کے اگلے دن ضیاء الحق نے 7جولائی کو غوث بخش بزنجو اور عطاء اللہ مینگل سے ملاقات کی اور ساتھ ہی بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر دیا، یہاں تک کہ بلوچوں کو ہتھیاروں کے ساتھ پہاڑوں سے اترنے کی اجازت بھی دے دی۔ اس کے بعد ضیاء الحق کے دس سالوں میں بلوچستان پاکستان کا سب سے پرامن خطہ رہا۔ تقریباً ایک سال بعد 7جولائی کو "پی این اے" کے صدر مولانا مفتی محمود کو دل کا شدید دورہ پڑا۔ ضیاء الحق عیادت کے لئے کراچی پہنچے، میٹنگ طویل ہوتی گئی، پی این اے کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔
مولانا مفتی محمود نے معاملے کو تمام جماعتوں کے سامنے رکھنے کے لئے کہا، لیکن اس دوران مسلم لیگ نے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی، 13جولائی کو پی این اے کا اجلاس تھا، لیکن جماعت اسلامی نے 12جولائی کو اپنا اجلاس بلایا اور اعلامیہ جاری کر دیا کہ چونکہ مسلم لیگ نے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی ہے اس لئے ہمیں بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ 13 جولائی کا "پی این اے" کا اجلاس ویسے ہی بے معنی ثابت ہوا جیسا ان دِنوں "پی ڈی ایم"کا اجلاس ہوتا ہے۔ ضیاء الحق نے 26جولائی کو پھر مولانا مفتی محمود سے ایک طویل ملاقات کی، گلے شکوے ہوئے اور اگلے دن ملنے کے وعدے پر جدا ہوگئے۔ اگلے دن پھر ملے اور تمام معاملات بحسن و خوبی طے ہوگئے۔ پی این اے کی نو جماعتوں کے تمام "جمہوریت پرست" سیاستدان ضیاء الحق کی مارشل لاء والی کابینہ کا حصہ بن گئے۔ پرویز مشرف کے براہ راست مارشل لاء کی چھت کو جن سیاستدانوں نے اپنے کندھے ستون کے طور پرفراہم کیے آج وہ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کا ہراول دستہ ہیں اور ان کا کل اثاثہ بھی۔
ضیاء الحق نے جب آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار صدر کے ہاتھ میں دیا تو اس نے ایک "سیفٹی والو" کا کام کیا، جس کی وجہ سے براہ راست مداخلت کا راستہ رک گیا۔ اب بالواسطہ مداخلت کا آغاز ہوا۔ ایسی مداخلت صرف اور صرف سیاستدانوں کی مکمل مدد سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ ضیاء الحق کے بعد بے نظیروزیراعظم منتخب ہوئیں تو جہاں اسٹبلشمنٹ نے بیشمار معاملات میں ان سے اپنی مرضی منوائی، وہیں "کرشماتی" طور پرایک دوسرے کے بدترین مخالف نواز شریف اور بے نظیر کو ایسا اکٹھا کیا کہ انہوں نے 608ووٹوں سے اسٹبلشمنٹ کے امیدوار غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کروایا اور ساری زندگی جمہوریت کیلئے جان کھپانے والے نوابزادہ نصراللہ خان کو بدترین شکست سے دوچار کروایا۔ اسی غلام اسحاق سے پھر اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر اور نوازشریف، دونوں کی حکومتیں برطرف کروائیں۔ آٹھویں ترمیم کا سیفٹی والو نوازشریف نے نکالاتو پرویز مشرف کو براہ راست آکر نوازشریف کو برطرف کرنا پڑا۔ مشرف کے جانے کے بعد سے لے کر آج تک ہر روز ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ تمام پارٹیاں بظاہرایک دوسرے سے ناراض ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر سینٹ چیئرمین منتخب ہوتا ہے، آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا بل منظور ہوتا ہے، فیٹف کے بل پر مشترکہ ووٹ دیے جاتے ہیں، فوجی عدالتیں قائم ہوتی ہیں، عمران خان اپنا دھرنا ختم کرتا ہے اور چند سال بعد مولانا فضل الرحمٰن بھی ویسے ہی اپنے دھرنے کا بوریہ بستر لپیٹتے ہیں۔
آج بھی یہ سب بالکل ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھا۔ صرف ایک فرق ہے، پہلے ایک سیاسی گروہ پر اسٹبلشمنٹ کی نظر کرم ہوتی تھی تو دوسراگروہ یاتو انتظار کرتا تھا یا پھر اسے شیشے میں اتار نے کی کوشش کرنے لگتا تھا۔ لیکن آج کچھ گروہ روٹھ کر، ناراضگی دکھا کراسٹبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا دکھ صرف ایک ہے کہ وہ پہلے اسٹبلشمنٹ کے لاڈلے تھے، مگر اب کیوں نہیں ہیں۔ لیکن انکا یہ انداز محبوبی محبت میں توچلتا ہے، لیکن سیاسی مفادات میں نہیں چلتا۔ (ختم شد)