دورِ فتن کا ایک اور سال
مصر اور کوفہ سے آئے ہوئے چند شر پسند منافقین نے مدینۃ الرسول ﷺ میں شہیدِ مظلوم سیدنا عثمانؓ کے گھر کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔ میں نے یہاں لفظ "منافقین" اور "شرپسند" خاص طور پر لکھے ہیں، کیونکہ سید الانبیائﷺ کی اس بارے میں واضح احادیث موجود ہیں جو اسماء الرجال کے ماہرین کے مطابق" حسن صحیح" کا درجہ رکھتی ہیں۔ پہلی حدیث یوں ہے "حضرت مرہ بن کعب بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپؐ نے فتنوں کا ذکر کیا اور قریب ہونے کا ارشاد فرمایا، اتنے میں ایک آدمی گذرا اس نے ایک کپڑا لپیٹ رکھا تھا، آپؐ نے فرمایا:یہ شخص اس (فتنے کے) دن ہدایت پر ہوگا۔ میں ان کی طرف گیا، دیکھا وہ عثمانؓ بن عفان ہیں۔ میں نے ان کا چہرہ آپؐ کی طرف پھیر کر عرض کیا: یہ وہ(آدمی) ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا: ہاں "(ترمذی، ابنِ ماجہ، مشکواۃ مصابیح)۔ فتن کے اس دور میں ہدایت پر ہونے والے سیدنا عثمانؓ کورسول اکرم ﷺ نے ایک خصوصی ہدایت کی تھی۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ" سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عثمانؓ بن عفان کی طرف پیغام بھیجا، جب وہ آئے تو آپ ؐ ان کی طرف متوجہ ہوئے، بات چیت ہوتی رہی، آخر میں آپؐ نے ان کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: عثمانؓ امید ہے عنقریب اللہ تعالیٰ تم کو ایک قمیض پہنائے گا، اگر" منافقین" تم سے اس قمیض کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو مجھے ملنے تک اس قمیض کو نہ اتارنا(مسند احمد بن حنبل)۔"اس حدیث میں گھیرا ڈالنے والوں کومنافقین کہا گیا اور اللہ کی طرف سے پہنائی گئی قمیض "خلافت" ہے اور آپؐ سے ملاقات سیدنا عثمانؓ کی شہادت۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شرپسند منافقین جب سیدنا عثمانؓ کے گھرکے گرد جمع ہوئے تو مدینہ میں موجود تمام صحابہ نے اجازت طلب کی کہ ہم ان کو تلوار کے زور سے کچل کر رکھ دیں، لیکن آپ، اپنی زندگی میں اس دروازے کو کھلتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے، جس کے بعد فتوں کے ایک طویل دور کا آغاز ہونا تھا۔
آپ نے سیدنا علی ابن طالبؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا، انہوں نے باغیوں کے ہر الزام کا جواب دے کر انہیں لاجواب کر دیا، اورجب محاصرہ سخت ہواتو سیدنا حسن بن علی ؓ ان چند لوگوں میں سے تھے جو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کیلئے ان کے گھر پر رہتے تھے، حملے کے وقت اسقدر زخمی ہوئے کہ انہیں بستر پر ڈال کر باہر لایا گیا۔ شہید کرنے کی نیت سے جب شرپسندجمعہ کے روز اندر داخل ہوئے تو سیدنا عثمانؓ نے ارشاداتِ نبویﷺ کی روشنی میں ایک ایسی پیش گوئی فرمائی کہ جو آج چودہ سو سال تک مسلسل درست ثابت ہوتی چلی آرہی ہے۔ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا "تم مجھے قتل مت کرو میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں اور تمہارا خلیفہ بھی "، پھر قرآن پاک کی وہ آیت تلاوت کی جس میں حضرت شعیبؑ اور حضرت صالح ؑکا اپنی قوموں سے خطاب کا تذکرہ ہے، "میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک میرا بس چلے"(ھود:88)۔ اس کے بعد پیش گوئی کرتے ہوئے کہا، "لیکن اگرتم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر آئندہ تم کبھی بھی ایک جماعت کے طور پر اکٹھے نہیں ہوسکو گے، نہ کبھی ایک جھنڈے تلے متحد ہو کر لڑو گے اور نہ ہی ایک ساتھ مال غنیمت آپس میں تقسیم کرو گے" (طبقات ابن سعد)۔
"اس کے بعد کہا تم میرے لئے نہیں بلکہ اس اُمت کیلئے مجھے قتل مت کرو، کیونکہ میں جانتا ہوں میرے بعد تم ایک اُمت کی حیثیت سے کبھی اکٹھے نہیں رہ سکو گے۔ سیدنا عثمانؓ کی پیش گوئی کے پورے ہونے کا آغاز ان کی شہادت کے فوراًبعد ہی ہو گیا۔ صوفیاء کے چاروں سلسلوں کی اہم کڑی مشہور تابعی حضرت حسن بصر یؒ اس وقت ایک طالب علم کی حیثیت سے مدینے میں موجود تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ "سچ کہا تھا حضرت عثمانؓ نے، ان کے بعد اگرچہ کہ ہم اکٹھے نمازیں بھی ادا کرتے تھے لیکن ہمارے دل ایک دوسرے سے جدا ہی تھے"۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ہر آنے والے سال میں اس اُمت نے افتراق، گروہ بندی اور اختلاف ہی دیکھا ہے۔ جو تلواریں سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی آپس میں لڑائی کیلئے نیام سے باہر نکلیں، آج تک وہ واپس نہ جا سکیں۔ آغاز میں اختلاف کے باوجود بھی امت کے تمام گروہ اپنے اپنے عقیدے، مسلک اور مذہب پر کاربند رہتے ہوئے بہت کم خونریزی پر مائل ہوتے تھے۔ صرف فقہی اختلاف کی تاریخ مرتب کی جائے اور مختلف مسالک کا ذکر کیا جائے تو صرف پانچ بڑے مذاہب حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور جعفری کے علاوہ بھی لاتعداد گروہ ابھرے، چھائے اور وقت کے ساتھ ساتھ ختم بھی ہوگئے، اور آج بھی لاتعداد گروہ ایسے ہیں جو ہر دوسرے روز جنم لے رہے ہیں۔ اختلاف اگر علم کے حصول اور اس کی تشریح کے لئے ہے تو یہ رحمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ گروہی تقسیم اُمت میں فساد کا باعث بنے تو یہ سراسر احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی ہے جو "ولاتفرقو" یعنی فرقوں میں نہ تقسیم ہوجانے کا "حکم"دیتا ہے۔
اُمت کی اس تقسیم کا قصہ توچودہ سو سال طویل بھی ہے اور دلگداز بھی، لیکن گذشتہ ایک صدی تویقیناً اسی "دورِ فتن" کی صدی ہے جس کے بارے میں سید الانبیاء ﷺ نے آگاہ کرنے اور متنبہ کرنے کے لئے کم از کم ڈھائی ہزار احادیث ارشاد فرمائیں۔ ان میں سے ایک حدیث ایسی ہے جس میں گذشتہ سال کے "کرونا" کی تمام علامات کا تذکرہ موجود ہے اور اسی حدیث میں واقعات کے تسلسل سے پتہ چلتا ہے کہ ہم اگلے سال بھی جن مرحلوں میں داخل ہونے والے ہیں وہ مزید سخت اور پُر فتن ہوں گے۔ رسول اکرمؐ نے غزہ تبوک کے دوران قیامت تک چھ نشانیوں کا ذکر کیا، جن میں تین پوری ہوچکی ہیں۔ (1)رسول اکرم ﷺ کا دنیا سے رخصت ہونا، (2)بیت المقدس کی فتح اور (3) ایک ایسی موت کی لہر جواس طرح پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیلتا ہے۔ آپؐ نے تین کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا، "ایک فتنہ" ایسا ظاہر ہوگا جو عرب کے ہر گھر تک جا پہنچے گااورپھراس کے بعد آپؐ نے تیسری عالمی جنگ کا بتایا(بخاری۔ مفہوم حدیث)۔ کیا اُمت نے اس حدیث اور متعلقہ دیگر احادیث کے علم سے کبھی خود کی اصلاح کی معمولی کوشش بھی کی۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ "ہرگزنہیں "۔
گذشتہ سال کے عذاب کے دوران ہمارے روّیے سے ایک اور بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ شاید اگلے برسوں میں بھی ہماری بحیثیت امت"شامت اعمال" جاری رہے۔ ہمیں مزید سزا دی جائے۔ اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ اس سال ہم نے اللہ کی اس واضح وارننگ والی وبا (کرونا)کے دوران سب سے کم اللہ سے رجوع کیا ہے۔ اللہ نے بحیثیت اُمت مسلمہ ہم پر بہت رحم کیا، ہمیں بچائے رکھا، لیکن ہم نے بجائے اس کے حضور سربسجود ہو کر شکر ادا کرنے اور اس سے اپنے گناہوں پر سر عام اجتماعی استغفار کرنے کے، ہم مزید بدمست اور بے پرواہوگئے۔ ہماری مسجدیں آباد ہونا چاہیے تھیں، وہ مزید ویران ہو گئیں اور اس کے مقابلے میں ہمارے جلوس، جلسے اور ریلیاں آباد ہوتی گئیں۔ ہمیں شکرانے کے نوافل ادا کرنے تھے مگر ہم نئے سال کو خوش آمدید کرتے رہے۔ غفلت کے مارے مسلمانوں پر کیا بیتنے والی ہے، احادیث پڑھتا ہوں تو خوف سے تھر تھر کانپنے لگتا ہوں۔