ایک افغان جنرل کے اعترافات
افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں امریکی قوت و طاقت کی شکست کا زخم اس قدر گہرا اور دَرد اس قدر شدید ہے کہ آج ٹھیک تین ماہ گزرنے کے بعد بھی ہر سمت ٹیسیں باآواز بلند برآمد ہو رہی ہیں۔ امریکی تاریخ میں سب سے سمجھدار، کایاں اور عالمی سیاست پر عبور رکھنے والے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اس شکست کے بعد یہ سوال تک اُٹھا دیا ہے کہ "کیا واقعی امریکی طاقت کا مستقبل بالکل مخدوش ہو چکا ہے"۔ اس نے "اکانومسٹ " میں چھپنے والے اپنے مضمون، "امریکی طاقت کا مستقبل: امریکہ افغانستان میں ناکام کیوں ہوا"۔ (The Future of American Power: On way America Failed in Afghanistan)۔ میں تحریر کیا ہے کہ "امریکہ کو اب یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے پاس اب کوئی ایسا موقع میسر ہی نہیں ہے کہ وہ دُنیا کے کسی خطے میں کسی بھی قسم کا کوئی ڈرامائی اقدام کر کے اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کر سکے اور افغانستان کی شکست کے داغ دھو سکے"۔
امریکہ جیسی عالمی طاقت کیلئے یہ بہت ہی بے بسی کی صورتِ حال ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بدمعاش اپنا رُعب و دبدبہ قائم رکھنے کیلئے محلے کے چھوٹے چھوٹے لوگوں کو گالیاں، تھپڑ اور مُکے رسید کر کے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ یہاں کچھ بھی کر سکتا ہے، لیکن، اب اس کا رُعب ختم ہو جائے۔ دُنیا کے ہر محلے، علاقے، شہر اور ملک میں ایسے بدمعاشوں یا بدمعاش گروہوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اسی بدمعاشانہ روش پر چلتے ہوئے، عالمی سطح پر امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ذریعے ایک خوف کی فضاء قائم کر رکھی تھی، مگر اس کی دہشت کا پول افغان طالبان نے اسے شکست دے کر کھول دیا اور یوں قوموں کے دلوں سے امریکہ کا خوف نکال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہنری کسنجر کے مطابق امریکہ کو اب کوئی ایسا ملک، خطہ یا علاقہ میسر ہی نہیں ہے جسے وہ اپناہدف بنا کر اس پر حملہ آور ہو، اور وہاں کے لوگ خوفزدہ ہو جائیں۔
امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کا طریقِ کار بھی علاقائی بدمعاشوں جیسا ہی ہوتا ہے یعنی جس محلے یا علاقے پر دھونس جمانی ہو اور غلبہ قائم کرنا ہو، وہاں کے مقامی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے حمایتی جتھے تشکیل دے کر انہیں خود ان کے اپنے محلے داروں پر خوف پھیلانے، ڈرانے یہاں تک کہ مار پیٹ اور قتل و غارت کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں جب "ایسٹ انڈیا کمپنی" نے علاقے فتح کرنا شروع کئے تو 23 جون 1757ء کو "جنگِ پلاسی" میں رابرٹ کلائیو کے پاس صرف 180 گورے سپاہی تھے اور باقی تمام اسی ہندوستانی سرزمین کے "سپوت" تھے۔ تمام نوآبادیاتی قوتوں نے دُنیا بھر کے علاقوں کو فتح کرنے کیلئے یہی طریقِ کار اپنایا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کیمونزم بمقابلہ جمہوریت نظریاتی جنگ شروع ہوئی تو منظر بدلا، اب جس ملک پر سوویت یونین نے قبضہ کرنا ہوتا تھا، وہاں کیمونسٹ نظریاتی وفادار پیدا کئے جاتے اور جہاں امریکہ بہادر نے فوجی دخل اندازی کرنا ہوتی تھی وہاں پہلے یہ نعرہ بلند کیا جاتا کہ وہاں جمہوریت اور عورتوں کے حقوق خطرے میں ہیں اور پھر وہاں موجود چند جمہوریت پرستوں کو ساتھ ملا کر اس ملک پر قبضہ کر لیا جاتا۔ افغانستان میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ اس دفعہ تو چونکہ قیام بیس سال طویل ہو گیا تھا، اس لئے خریدے گئے مقامی افراد کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی چلی گئی۔
تین لاکھ تو وہ تھے جو چاق و چوبند افغان فوج کے دستوں کی صورت بھرتی ہوئے۔ پانچ لاکھ سرکاری ملازمتوں کا حصہ بنے۔ اتنی بڑی تعداد ہی میں وفادار موجود ہوں اور اتنی ذِلّت آمیز شکست ہو جائے۔ یہ ہے وہ واقعہ جس نے گذشتہ دو سو سال کی عالمی قبضوں کی تاریخ بدل کر رکھ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوبائیڈن ان افغان سپاہیوں پر الزام لگاتا ہے اور افغان فوجی امریکی اور افغان قیادت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
افغان فوج کے ایسے ہی ایک جرنیل سمیع سعادت نے امریکی صدر، جوبائیڈن کے الزامات کا امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز" میں جواب دیا ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں لکھا ہے، "میں افغان فوج میں ایک تھری سٹار جنرل تھا، جس نے گیارہ ماہ "میوند کور" کو کمانڈ کیا۔ میرے پاس ایسے 15 ہزار سپاہی تھے جو طالبان کے خلاف آپریشنوں میں جنوب مغربی افغانستان میں حصہ لے رہے تھے۔ ان آپریشنوں میں میرے کئی سو آفیسر اور جوان مارے گئے۔ میں تھک چکا تھا، اور جھنجھلاہٹ کا شکار تھا۔ میں ان حالات میں ایک قابلِ عمل فوجی منصوبہ دینا چاہتا تھا تاکہ افغان فوج کی عزت بچائی جا سکے۔ میں یہاں پر افغان فوج کی غلطیوں کا دفاع نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑے لیکن ہمیں امریکی اور افغان قیادت نے دھوکہ دیا"۔
اس نے شدید کرب کے عالم میں کہا کہ ان امریکیوں کی خاطر بیس سالوں میں ہمارے 66 ہزار فوجی مارے گئے۔ یہ ہماری پوری فوج کا پانچواں حصہ تھے۔ یعنی ہمارے ہر پانچ سپاہیوں میں سے ایک مارا گیا۔ اس "نوآموختہ" جرنیل نے کہا ہے کہ دراصل افغان فوج کی تربیت بہت ہی ٹیکنیکل اور جدید ترین طرزِ جنگ پر کی گئی تھی۔ ہمارے فوجیوں نے بغیر سیٹلائٹ رہنمائی اور بغیر فضائی مدد کے تنہا لڑنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ اور جیسے ہی امریکہ کے سترہ ہزار ٹھیکیدار فوجی رُخصت ہوئے، تمام بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، C-130 جہاز اور نگہبانی والے ڈرون سب کے سب بے کار ہو گئے کیونکہ اب انہیں کوئی چلانے والا موجود نہیں تھا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ افغان فوجی جنہیں امریکہ نے ان تمام چیزوں کا عادی بنا رکھا تھا، دراصل اتنی بھی صلاحیت نہیں رکھتے تھے کہ پہاڑوں میں چھپے اپنے دُشمن کا احساس کر سکیں۔ اسی لئے وہ طالبان کے حملوں کا شدت سے شکار ہونے لگے۔ لیکن جس بات کی طرف اس جرنیل نے خصوصی طور پر اشارہ کیا ہے وہ بددیانتی اور کرپشن ہے۔ اسے اندازہ نہیں کہ بددیانتی کا یہ مرض ہر اس فوج میں ضرور پنپتا ہے جو اپنے وطن یا نظریے کیلئے نہیں لڑتی بلکہ قابض قوتوں کی غلامی کو برقرار رکھنے کیلئے لڑتی ہے۔ ہندوستان میں بھی 1770ء کو ایک وقت ایسا آ گیا تھا کہ جب "ایسٹ انڈیا کمپنی" میں کرپشن اتنی بڑھ گئی تھی کہ کمپنی خسارے میں جانے لگی اور تاجِ برطانیہ نے حکم صادر کیا کہ ہندوستان سے بوریا بستر لپیٹ کر واپس آ جائو۔ وہ تو نئے آنے والے وائسرائے نے مراعات بڑھا کر معاملہ درست کر لیا، ورنہ بھارت اسی سال انگریز کی غلامی سے آزاد ہوتا۔
جنرل سمیع سعادت نے کہا ہے کہ افغان فوج کی کرپشن کے بے شمار ثبوت صفحۂ مثل پر اس طرح روزِ روشن کی طرح واضح تھے کہ کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا تھا۔ اس کرپشن کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان کی سیاسی اور فوجی قیادت، دونوں میرٹ نہیں بلکہ ذاتی تعلقات اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر لگائی گئی تھی۔ یہ لوگ بزدل تھے اور سارا وقت اپنی جانوں کو بچانے میں لگے رہے۔ ان لوگوں نے عوام کو دی جانے والی خوراک اور پٹرول سے بھی پیسے کمائے اور ان کی ان حرکتوں کا علم تمام افغان عوام کو تھا۔ بچہ بچہ جانتا تھا کہ خوراک اور پٹرول تو باہر سے آ رہا ہے، جسے یہ لوگ انہیں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔
افغان جنرل اور ہنری کسنجر کے مضامین کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو ایک یہی نتیجہ نکلتا ہے جو ان دونوں کے الفاظ کا نچوڑ ہے، " امریکہ کی سپر پاور نے ایک ایسے گروہ سے شکست کھائی جس کے ارکان جدید ٹیکنالوجی سے بھی ناآشنا تھے"، مگر جذبے نے انہیں جتوا دیا، اور دوسری جانب ایک بددیانت، کرپٹ اور بے نظریہ فوج تھی جس کی شکست تو اصل میں فوجی تھی مگر اس کی بنیاد سیاسی قیادت نے رکھی تھی۔