عدلیہ کی نگرانی (2)
حیرت میں گم ہو جایئے کہ جب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی توڑی جا رہی تھی تو جمہوری سیاست کے بڑے بڑے نام حسین شہید سہروردی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد کے اس اقدام کی حمایت کر رہے تھے۔ محمود علی قصوری جس نے 1973ء کے آئین کا مسودہ تیار کیا تھا، اس کا بھی کہنا تھا کہ اس اسمبلی کے مصنوعی تسلسل نے اسے غیر نمائندہ قرار دے دیا ہے۔
ایسے ہی سیاست دانوں کے گروہ کی حمایت کے بل بوتے پر غلام محمد نے ایک کابینہ کا اعلان کر دیا جسے "باصلاحیت لوگوں کی کابینہ" کا نام دیا گیا۔ موجودہ دور میں اسے "ٹیکنو کریٹ کابینہ" کہتے ہیں۔ اس کابینہ میں باقاعدہ وردی میں ملبوس افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیرِ دفاع بنایا گیا اور ایک "کامیاب" بیوروکریٹ سکندر مرزا کو وزیرِ داخلہ۔ زبان و بیان اور اسلوبِ گفتگو کے اعتبار سے سکندر مرزا سے رانا ثناء اللہ تک، آج بھی وزراء داخلہ کے طرزِ گفتگو میں کچھ فرق نظر نہیں آتا۔
سکندر مرزا نے کہا، "بعض غیر ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت ابھی سیکھنے سکھانے کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور جب تک یہ سیاست دان اس عمل سے گزر رہے ہیں انہیں کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ عوام تو غنڈوں اور بدمعاشوں کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں، یہ بدمعاش سب کچھ خراب کر دیتے ہیں اور اس خرابی کو ٹھیک کرنا ہمارا کام ہے"۔ یوں وزیرِ داخلہ نے حلف اُٹھاتے ہی اسمبلی کے چاروں طرف پولیس پہرے بٹھا دیئے اور اس کے دروازے پر تالے لگا دیئے۔
سپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین کی رہائش گاہ کے سامنے بھی پولیس بٹھا دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سپیکر نے اس معطل شدہ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی کوشش کی تھی۔ مولوی تمیزالدین نے بھیس بدلا اور گھر کے پچھلے دروازے سے رکشے میں بیٹھ کر ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ جہاں وہ اس وقت تک لائبریری میں بیٹھے رہے، جب تک عدالت نے فریقین کو نوٹس نہیں جاری کر دیئے۔
پورے ملک میں ایک ایسا خوف تھا کہ مولوی تمیزالدین کو بحث کے لئے وکیل بھی برطانیہ سے بلانا پڑا۔ عدالتِ عالیہ سندھ نے کیس سنا اور چیف جسٹس کانسٹنٹائن سمیت جسٹس ویلانی، جسٹس محمد بچل اور جسٹس محمد بخش نے متفقہ فیصلہ دیا کہ گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا کوئی اختیار نہیں تھا اور موجودہ کابینہ بھی غیر قانونی ہے، کیونکہ آئین کی رو سے جو اسمبلی کا رُکن نہیں ہے وہ وزیر نہیں بن سکتا اور اس کابینہ میں تو سول بیوروکریسی کا نمائندہ سکندر مرزا اور ملٹری بیوروکریسی کا نمائندہ جنرل ایوب خان شامل تھے۔
یہ فیصلہ اس نوزائیدہ ملکِ پاکستان کی عدلیہ کی پہلی اور آخری آزاد، خودمختار اور توانا آواز تھی۔ اس پورے عمل سے ایک سیاسی شخصیت اُبھر کر سامنے آئی اور تاریخ میں نشان چھوڑ گئی، اس کا نام مولوی تمیزالدین تھا۔ لیکن اسی آزاد فیصلے کے بعد، پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک تاریک باب شروع ہوا۔ اس کا دروازہ تاریخ کے سب سے متنازعہ چیف جسٹس محمد منیر نے کھولا اور ملک کے سیاسی اور عدالتی نظام کو ایک ایسی تنگ و تاریک سُرنگ میں اُتار گیا جس سے باہر نکلنے کا راستہ ابھی تک نہیں مل سکا۔
غلام محمد کی حکومت فوراً سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد فیڈرل کورٹ میں اپیل میں چلی گئی۔ اس وقت ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت "فیڈرل" کہلاتی تھی اور اس کے ساتھ "سپریم" کا لفظ چسپاں نہیں ہوا تھا۔ چیف جسٹس محمد منیر نے کہا ہمارے سامنے تین راستے ہیں (1) جہاں سے چلے تھے وہیں واپس چلے جائیں (2) بحران سے نکلنے کے لئے قانونی پُل بنائیں اور (3) اس گہری کھائی میں کود پڑیں۔ اس کے بعد اس نے اپنی دانست میں بحران سے نکلنے کے لئے ایک ایسا پُل بنایا جسے آنے والی عدالتوں نے مسلسل گزر گاہ بنا لیا اور اس راستے سے ہر آمر اور ڈکٹیٹر کے اقدامات کو جواز فراہم کیا۔ "نظریہ ضرورت" کی اس تخلیق سے جسٹس کارنیلس اور جسٹس محمد شریف نے اختلاف کیا۔
اب سول اور ملٹری بیوروکریسی مکمل طور پر عدالتی چھتری کے تحت آ گئیں۔ ٹھیک تین سال بعد جب یہ ملک 1956ء میں اپنا پہلا دستور بنا کر الیکشنوں کی گہما گہمی میں مصروف تھا تو بیوروکریسی کے سینئر پارٹنر سکندر مرزا نے جونیئر پارٹنر جنرل ایوب خان سے مل کر سات اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء لگا دیا۔ اس وقت تک سول بیوروکریسی سینئر پارٹنر تھی اسی لئے ایوب خان نے لکھا ہے کہ "میں نے صدر سے کہا تبدیلی لانا آپ کی ذمہ داری ہے اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو پھر خدانخواستہ ہمیں خود یہ تبدیلی نافذ کرنا پڑے گی"۔
امریکی "سکیورٹی پیپرز" نے اب یہ راز بھی کھول دیا ہے کہ پانچ ماہ پہلے یعنی مئی 1958ء کو ایوب خان اور سکندر مرزا کے ساتھ امریکی سفیر کی ملاقاتوں میں ہی یہ طے ہوگیا تھا کہ "پاکستان صرف آمرانہ نظام میں ہی چل سکتا ہے"۔ مارشل لاء کے خلاف اسی جسٹس منیر کی عدالت میں چار اپیلیں دائر ہوئیں۔ نئے آئین کے مطابق اب فیڈرل کورٹ سپریم کورٹ کے نام سے پہچانی جانے لگ گئی تھی۔ اس کیس کو "ریاست بنام ڈو سو" کہا جاتا ہے۔ چیف جسٹس منیر نے لکھا کہ "فوجی بغاوت کامیاب ہو چکی ہے اور آزمائش پر پوری اُتر چکی ہے اور اب اسے ایک بنیادی قانون کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ہر کامیاب انقلاب کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایسا انقلاب ازخود قانون ساز ادارے میں بدل جاتا ہے"۔
اس دفعہ جسٹس کارنیلس بھی رام ہوگیا اور اس نے فیصلے کا ساتھ دیا۔ یہ فیصلہ 27 اکتوبر 1958ء کی صبح کو جاری ہوا اور اسی رات جو اصل قوت کا مالک تھا یعنی جنرل ایوب خان، اس نے سکندر مرزا کو کان سے پکڑ کر ایوانِ صدارت سے نکالا اور خود کرسی ٔصدارت پر جا بیٹھا۔ آج اس عدالتی تحفظاتی گٹھ جوڑ کو اس ملک کے معاملات پر مسلّط ہوئے پینسٹھ سال ہو گئے ہیں اور ہمیں اس مہیب سائے سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔
جسٹس کارنیلس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "اب تو ججوں کی فہرست میں ایسے نام پڑھنے کو ملتے ہیں کہ جیسے نام ہم کبھی ایف آئی آرز میں پڑھا کرتے تھے"۔ پاکستان کی تباہی کی داستان ایسی ہے کہ اس میں تمام اداروں نے بیک وقت اپنی تباہی کے سفر کا آغاز کیا، آج پارلیمنٹ، عدالت، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سب کے سب بے توقیر ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ بحران اس نہج پر آ پہنچا ہے کہ کسی ایک ادارے پر تمام گروہ متفق نہیں ہو سکتے۔
دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں عدالت وہ آخری ادارہ سمجھا جاتا ہے جس کے فیصلوں کے بعد ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے اور سب گروہ اسے بخوشی تسلیم کرتے ہیں۔ 24 فروری 1803ء میں امریکہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان مارشل (John Marshall) نے امریکی کانگریس کے ایک ایکٹ کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کیا اور ساتھ ہی لکھا کہ "ہمارے سیاسی نمائندگان اس قدر بالغ نظر نہیں ہوئے کہ ہم ریاست کے تمام معاملات مکمل طور پر ان پر چھوڑ دیں"۔ یہیں سے تمام مہذب ممالک کے عدالتی نظام میں عدلیہ کی نگرانی (Judicial Review) کا تصور اجاگر ہوا۔
یہ فیصلہ مشہورِ عام "Marbury V. Madison" کیس کے نام سے یاد کیا جاتا۔ دنیا کے تمام ممالک میں ایسے سیاسی بحران آتے رہتے ہیں، لیکن ان ممالک کی بقا اور سلامتی اسی بات میں چھپی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی بھرتیوں اور منظورِ نظر افراد کے ذریعے کبھی متنازعہ نہیں بنایا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں آخری اور حتمی فیصلہ عدالت کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے عدالتی نظام میں جو کانٹے بوئے تھے آج ان کی وجہ سے ہمارا سارا لباس تار تار ہو چکا ہے۔ (ختم شد)