Mein Kalla e Kafi Aan
میں کلا ای کافی آں
دنیا کے تمام بڑے اور جنگی مسائل کا آخری حل فریقین کے ٹیبل پر بیٹھنے سے نکلا ہے۔ حال ہی میں امریکا و اتحادیوں نے قطر مذاکرات کے ذریعہ افغانستان سے انخلاء کیا اور معاملات ان کے حوالے کیے جو وہاں کی عوامی آواز تھے۔ سیاسی محاذ ہو یا جنگی، لڑنے کے بعد آخری حل مذاکرات کی میز سے ہی نکلتا ہے۔ کوئی بڑی سے بڑی عسکری طاقت بھی مسلح یا غیر مسلح سیاسی طاقت کو زیر نہیں کر سکی۔ پاکستان میں پھیلی سیاسی افراتفری اور معاشی بدامنی کا حل فریقین کے ایک ساتھ بیٹھنے سے ہی ممکن ہے۔ "میں کلا ای کافی آں" اور "متھے رنگ دیاں گا" والی سلطان راہی قسم کی بڑھکیں شاید سلطان راہی مزاج معاشرے میں وقتی طور پر بلے بلے، تیری راتی کوئی نئیں جمیا، لیڈر ساڈا شیر اے، تُن کے رکھ دے وغیرہ جیسی داد و تحسین تو دلا سکتی ہیں مگر ان سے آپ کسی سماج میں غالب نہیں آ سکتے۔ امریکا سے بڑا بڑھک باز اور جدید ہتھیاروں سے لیس مسٹنڈا دنیا میں کوئی نہیں مگر اسے ہر بڑھک بہت مہنگی پڑی۔ ویتنام سے افغانستان تک اور عراق سے وینزویلا تک آپ امریکی بیانئیہ اور صدور کی بڑھکیں ملاحظہ فرما لیجئیے۔
تحریک انصاف کا المیہ یہ ہوگیا کہ یہ پارٹی نہیں بن سکی۔ اس کو جمہوری بنیادوں پر استوار نہیں کیا گیا (ویسے تو ان بنیادوں پر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی بھی استوار نہیں ہوئی)۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت سے اس کی توقع نہیں رہا کرتی۔ عمران خان صاحب نے اپنی ٹیم کی تربیت اور صلاحیت میں اضافے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 2013 کے بعد پی ٹی آئی میں ایک مرکزی تربیتی کونسل بنائی گئی مگر اس تربیتی کونسل کو عمران خان کی حمایت کبھی حاصل نہ ہوئی اور بارہ دفعہ درخواست کے باوجود بھی اس کونسل کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہو سکا۔ اس وقت کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین تھے جو خان صاحب کو بس یہی کہتے رہے کہ "میں ہوں نا آپ بے فکر رہیں"۔ جسٹس وجیہہ الدین جو پارٹی انتخابات کرانے کے ذمہ دار اور الیکشن کمشنر مقرر تھے انہون نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے دئیے تو نتیجتہً وجیہہ الدین کو ہی پارٹی سے خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک نہیں معلوم کہ پارٹی کے اندر کب انتخابات ہوئے۔ کون کیسے منتخب ہوا۔
میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف پارٹی کی بجائے ایک شخص کا نام ہے۔ ساری قیادت اک جانب عمران خان صاحب اک جانب۔ یہ جماعت کی بجائے ایک سیاسی تحریک ہے اور تحریک میں کوئی میکانیزم نہیں ہوا کرتا۔ اس میں صرف ایک شخص کی لیڈ ہوتی ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں نیچے جماعت کا مؤقف کچھ ہے اور اوپر قائد کا کچھ اور ہے۔ نچلی قیادت مذاکرات چاہتی ہے تاکہ ان مسائل سے خود بھی نکلیں اور جماعت کو بھی کسی کنارے لگائیں مگر خان صاحب چاہتے ہیں کہ مذاکرات بھی کریں اور ان کی شرائط پر ہوں۔ یعنی پیشگی شرائط کے ساتھ اور وہ پیشگی شرائط پہلے مانی جائیں پھر مذاکرات کا آغاز ہو۔ ایک واضح تفریق نظر آتی ہے۔ علیمہ خان اور خان صاحب کا ایک مؤقف ہے اور باقی سب کا دوسرا مؤقف۔
احتجاج جس حد تک ہو سکتا تھا کر چکے، لانگ مارچز کر چکے، نو مئی ہو چکا، چھبیس نومبر کو جو ہوا وہ سامنے کی بات ہے۔ الغرض ہر احتجاجی حربہ استعمال ہو چکا ہے۔ اب صرف ایک ہی حربہ بچا ہے اور وہ ہے سیاسی حربہ۔ ابھی اس جانب آ جائیں تو اچھا ہے۔ نہیں تو کل مزید نقصان کروا کے آنا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ جیل کی دیواریں نہیں ٹوٹ سکتیں، پچیس تیس پچاس ہزار کی عوامی طاقت سے نظام سرنڈر نہیں ہو سکتا۔ انقلاب کی راہ ہموار ہی نہیں کی گئی تو کیسے آ سکتا ہے۔
دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ جو طاقت کا مرکز ہے اسے بھی سوچنا ہوگا کہ ان کو مذاکرات میں انگیج کرنے کو قدم بڑھائیں۔ آپ نے بھی جو کرنا تھا کر چکے ہیں۔ ان کو کچلنے واسطے ہر حربہ استعمال ہو چکا ہے مگر تحریک انصاف کی مقبولیت اور ووٹ بینک کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے اور ایسا ہونا ہی تھا۔ جبر سے لوگوں میں نفرت پھیلتی ہے۔ نفرت پھیلے تو انڈر ڈاگ سے ہمدردی جنم لیتی ہے۔ اگر ابھی کوئی موقع اُبھر رہا ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ان کو گفتگو میں انگیج کیا جا سکتا ہے تو اس موقع کا فائدہ اُٹھائیں۔ باقی رہ گئی اتحادی حکومت تو وہ میں سمجھتا ہوں حوالدار کی سیٹی کے اشارے پر اپنی صفیں فوراً درست کرنے کی مشق بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیے ان کا جتنا کردار اس سارے منظرنامے میں ہے اتنا ہی ان کا ذکر بہتر ہے۔
عمران خان صاحب کو غیرمشروط مذاکرات کے لیے بڑھنا ہوگا۔ ضد سے وہ آج تک کچھ حاصل نہیں کر پائے۔ ریشنل اپروچ ہی ان کے مسائل کا حل ہوگی۔ کارکنان تھک چکے، مر چکے، مقدمات میں پھنس چکے۔ مقبولیت کا زعم تاعمر نہیں رہتا۔ یہ ہوا کی لہر ہے۔ آج ہے کل نہیں رہے گی۔ وہ جنگ جس کا کوئی حتمی انجام ممکن نہ ہو وہ لڑے جانا پاگل پن ہوتا ہے۔ جس نہج پر معاملات آ چکے اب اسٹیبلشمنٹ کا وقار بحال ہونا بھی دور دور تک ممکن نہیں ہے۔ نظام ننگا کھڑا ہے اور ایسا ننگا جس کی سترپوشی ممکن نہیں رہی۔ موجودہ نسل ہر عسکری اور سول کردار کو پہچان گئی ہے۔ فریقین کے واسطے اب مذاکرات ہی فیس سیونگ ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تحریک انصاف کے باہر بیٹھے لوگ صرف لڑائی چاہتے ہیں۔ ان کو انقلاب آیا ہوا ہے۔ آج پارٹی جس حال میں ہے اس میں باہر والوں کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ خود وہ محفوظ ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان میں پارٹی لڑ مر جائے۔ یہ جو باہر بیٹھے لوگوں کے منہ کو بدزبانی کا چسکا اور خون لگا ہے اس سے بچ گئے تو شاید پارٹی قائد بھی بچ جائیں۔
یہ سب پڑھنے والے اگر پوچھیں کہ مذاکرات میں کچھ لو اور کچھ دو ہی چلتا ہے تو یہ عمل اگر شروع ہو تحریک انصاف کیا لے سکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کیا دے سکتی ہے۔ میری ناقص رائے میں اسٹیبلشمنٹ اس موجودہ نظام کو کم از کم دو سال بحال رکھنا چاہ رہی ہے۔ معیشت اور قرضوں کے حصول و رول بیک کے تناظر میں کچھ عالمی وعدے کیے جا چکے ہیں جن کی گارنٹی اسٹیبلشمنٹ دے چکی ہے۔ فوراً حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان صاحب کو البتہ ریلیف دیا جا سکتا ہے ان کی جیل سے خلاصی ہو سکتی ہے اگر وہ ڈیڑھ دو سال حکومت مخالف دھرنوں اور مارچز کے بنا گزار سکیں اور اس فارمولے پر غور ہو سکتا ہے کہ سنہ 2026 کے آخر یا 2027 میں کہیں ایسے انتخابات کروا دئیے جائیں جن پر کوئی بڑے اعتراضات نہ اُٹھ سکیں اور پھر تحریک انصاف اگر ووٹ لے جاتی ہے تو اقتدار میں آ سکتی ہے۔ خان صاحب چاہتے ہیں جو ہو فوراً ہو۔ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ اسٹیبشلمنٹ چاہتی ہے کہ فوراً کچھ نہیں ہو سکتا انتظار کرنا ہوگا۔
کیا خان صاحب دو سال انتظار کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب خان صاحب ہی جانتے ہیں اور کیا اس دوران اگر معیشت کچھ سنبھل جائے تو خان صاحب کی مقبولیت جوں کی توں برقرار رہ سکے گی؟ اس کا جواب منحصر ہے کہ حکومت کتنا ڈلیور کرے گی اور خان صاحب اگر مذکرات کے نتیجے میں جیل سے باہر نکل کر ہلکی پھلکی ہوائی فائرنگ میں لگے رہتے ہیں تو دو سال بعد مقبولیت کہاں ہوگی۔ کیا اسٹیبلشمنٹ قابل بھروسہ ہے کہ شرائط پر اتفاق رائے کے بعد بھی خان صاحب کو جیتنے کی صورت اقتدار دے سکے؟ جواب میرے پاس اس کا نہیں ہے۔ البتہ میں ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ پہلے عمران خان کو جیل سے باہر نکلنے اور اپنی جماعت کو کریک ڈاؤن سے نکالنے کے لیے راہ بنانا ہوگی۔ جب باہر نکل گئے تو پھر ان کے لیے سو راستے نکل سکتے ہیں۔ اوئے توئے اور متھے رنگ دیاں گا والی سیاست ختم کرکے سنجیدہ سیاسی وطیرہ اختیار کرنا ہوگا۔
پچھلی شب ایک محفل میں کچھ سنجیدہ، سیاسی و سماجی طور پر بااثر حضرات میں یہی گفتگو رہی۔ ایک نقطہ جس پر سب کا اتفاق بھی تھا اور کسی کے پاس اس کا جواب بھی نہیں تھا وہ یہ نکلا کہ فریقین میں حد درجہ بداعتمادی اور فریقین کے مابین خونی لڑائیوں کے بعد ان مذاکرات کا گارنٹئیر کون ہوگا؟ وہ جو سیاسی جماعتوں یا سیاستدانوں کی گارنٹی دیا کرتے تھے وہ تو اب خود فریق ہیں۔ یہ اصل سمسیا ہے اور یہی ڈیڈلاک ہو سکتا ہے۔