Hum Wohi Purane Lutere Hain
ہم وہی پرانے لٹیرے ہیں
ہم نے ہمیشہ یہ مانا کہ ٹیکنالوجی انسان کو بہتر اور مہذب بنائے گی۔ جب پہیہ ایجاد ہوا تو ہم نے سوچا کہ زندگی آسان ہو جائے گی۔ جب ٹیلیفون آیا تو ہم نے سمجھا کہ انسانیت قریب ہو جائے گی اور جب ایٹم کی طاقت کو قابو میں کیا گیا تو کہا گیا کہ اب انسان روشنی اور توانائی کے اس سمندر میں امن کی زندگی گزارے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ہر ایجاد کو زیادہ مؤثر طریقے سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔
آج ہم جنگیں میدانوں میں نہیں، کمپیوٹر اسکرینوں پر لڑتے ہیں۔ ایک ملک دوسرے ملک کی معیشت ہیکنگ سے تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں پانی کے ذخائر پر قبضہ کیا جاتا تھا۔ ہماری سیاسی تقریریں الفاظ کے ہتھیار ہیں اور ہماری ٹیکنالوجی نفرت اور خوف کو پھیلانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔
پاکستان میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے۔ ہم نے ایٹم بنایا اور اسے اپنے دفاع کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا، لیکن ہم نے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل کو نظر انداز کیا۔ ہم نے ترقیاتی منصوبے بنائے، مگر وہ بھی سیاست اور کرپشن کی نذر ہو گئے۔ ہم نے موٹر ویز بنائیں، لیکن اسکول اور اسپتال بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہم نے ہمیشہ "دفاع" کو اپنی ترجیح بنایا، مگر اپنی عوام کو بھوکا اور بیمار چھوڑ دیا۔
ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں تو کیں، مگر ہماری سوچ کو نہیں بدلا۔ آج ہمارے پاس ڈرون ہیں، جو آسمان سے دشمن پر حملہ کر سکتے ہیں، مگر ان ہی ڈرونز سے ہم اپنے ہی علاقوں میں تباہی مچا دیتے ہیں۔ ہماری سیاست میں بھی وہی پرانی سوچ غالب ہے: مخالفین کو دشمن سمجھنا اور ہر ممکن طریقے سے انھیں نیچا دکھانا۔
ہماری سیاست بھی ایک جنگ ہے، جہاں وسائل کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ ایک سیاسی جماعت دوسری جماعت پر الزام لگاتی ہے کہ وہ ملک کو تباہ کر رہی ہے، جبکہ خود اقتدار میں آ کر وہی کھیل کھیلتی ہے۔ عوام کے وسائل کو لوٹنا اور اسے "قومی مفاد" کا نام دینا ہمارے سیاستدانوں کا معمول بن چکا ہے۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل ترقی انسانوں کو بہتر بنانا ہے، نہ کہ صرف ٹیکنالوجی کو۔ آج ہم سائبر جنگیں لڑتے ہیں، مگر ہمارے بچے اسکولوں میں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ہم نے ایٹمی میزائل بنا لیے، مگر پینے کا صاف پانی فراہم نہ کر سکے۔ ہم نے بڑے بڑے میٹرو منصوبے بنائے، مگر اسپتالوں میں دوائیں فراہم کرنے کی زحمت نہ کی۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے رویے کو جدید بنانے کے بجائے اپنی پرانی عادتوں کو زیادہ چمکدار بنا دیا ہے۔ ہم آج بھی وہی شکار اور شکاری کا کھیل کھیل رہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ اب ہمارے پاس جدید ہتھیار ہیں۔
لیکن کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ کیا ہم واقعی بہتر انسان بن سکتے ہیں؟
سب سے پہلے، ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ جنگ اور ہتھیاروں پر خرچ ہونے والے اربوں روپے تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات پر خرچ کیے جائیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں لاکھوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، یہ تبدیلی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
دوسری بات، ہمیں اپنی سیاست کو انسانی بنانا ہوگا۔ اختلافات کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاستدانوں کو عوام کی خدمت کے لیے کام کرنا ہوگا، نہ کہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے۔
تیسری اور سب سے اہم بات، ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہم نے ہمیشہ مخالفین کو دشمن سمجھا ہے، چاہے وہ دوسرے ممالک ہوں یا ہمارے اپنے سیاسی مخالفین۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی کامل نہیں ہے اور ہر شخص اور قوم کے اپنے خوف اور مسائل ہوتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کو ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہم سائبر جنگ کے بجائے سائبر تعلیم کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہم ڈرونز کو جنگ میں استعمال کرنے کے بجائے زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ آسان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہم اپنی ترجیحات کو بدلنے کا فیصلہ کر لیں، تو ہم وہ تبدیلی لا سکتے ہیں جو ہم نے ہمیشہ چاہی ہے۔ ٹیکنالوجی ہمیں بہتر انسان بنا سکتی ہے، مگر تبھی جب ہم اسے صحیح طریقے سے استعمال کریں۔
آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم انسان ہیں اور انسانیت کا مطلب صرف جدید ہونا نہیں، بلکہ مہذب اور ہمدرد ہونا ہے۔ اگر ہم اپنی لالچ اور خوف پر قابو پا لیں، تو ہم واقعی بہتر انسان بن سکتے ہیں اور شاید تب ہی ہم وہ دنیا بنا سکیں گے، جس کا خواب ہمارے آبا و اجداد نے دیکھا تھا۔