Quaid e Azam Ki Mehbooba
قائدِاعظم کی محبوبہ
یہ اپریل کے ابتدائی دن تھے جب بہار کے حسن کی بارش ہر شے پہ برس رہی تھی۔ قائد اعظم گھر کے آنگن میں لگے برگد کی میٹھی چھاؤں میں سو رہے تھے کہ اچانک ایک بوڑھی عورت قائد، قائد، پکارتے ان کے پاس آتی ہے۔ اس کی آواز سن کر قائد کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک 20 سالہ لڑکی ہے جس کے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ جس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں ریشہ ہے۔ آواز میں کپکپاہٹ ہے۔ جس کی آدھی سے زیادہ بینائی وقت نے چاٹ لی ہے۔ اس کا جسم زخموں سے چور ہے اور ایک گھاؤ اتنا گہرا ہے کہ اس نے اس کے بدن کو دو حصوں میں کاٹ کے رکھ دیا۔ وہ سر سے لے کر پاؤں تک خون میں لت پت ہے قائد انہیں دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں اور پریشان بھی۔ اس سے پوچھتے ہیں کہ تم کون ہو؟
وہ بڑے ہی جذباتی انداز میں کہنا شروع کرتی ہے کہ میں وہ ہوں جسے تم نے پانے کے لیے اپنی ہر محبوب چیز قربان کر دی۔ تم نے اپنے بچے کھو دیے۔ اپنی محبوب بیوی کی جوانی کو میری راہ میں لٹا دیا۔ قائد اس کی بات سن کر حیرت سے بھر جاتے ہیں اور وہ لڑکی چپ ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ وہ روئے جا رہی ہے، روئے جا رہی ہے۔ اس کی آنکھ سے آنسو نہیں ٹپک رہے خون کی دو دھاریں بہہ رہی ہیں جیسے کسی نے اس کی آنکھ میں ابھی ابھی خنجر مارا ہو۔ اس لڑکی نے اپنے آپ کو ایک چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔
ہوا کا تیز جھونکا آیا اور چادر لے گیا اب وہ قائد کے سامنے برہنہ کھڑی تھی قائد کی نظر اس کے جسم پر پڑتی ہے جہاں بے شمار گھاؤ ہیں، جسم نے زخموں کا لباس اوڑھا ہے اور اس کے دونوں بازو بھی کٹے ہوئے تھے جن سے ابھی بھی خون کی ایک پتلی دھار بہہ رہی تھی، قائد یہ دیکھ کر اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیتے ہیں لیکن قائد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ کون ہے؟ کیونکہ اس لڑکی کی شکل بالکل بدل گئی تھی وہاں اگر اس کی ماں بھی ہوتی تو وہ بھی اس سے نہ پہچان پاتی۔
قائد کے ماتھے پہ کچھ شکنیں پڑتی ہیں اور وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ انہیں اس کے خد و خال کچھ نہ کچھ یاد آنے لگتے ہیں وہ لڑکی اٹھ کر ان کے آگےکھڑی ہو جاتی ہے۔ انہیں کہتی ہے کہ دیکھو! اب دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہے تم میں۔ تمہیں تو اب یہ بھی نہیں یاد کہ میں کون ہوں۔ میں تمہاری 80 سالہ پرانی محبت ہوں، تمہارا جنون ہوں، تمہاری وحشت ہوں، تمہاری ہیر ہوں، تمہاری لیلی ہوں، تم تو قویٰ اعصاب کے مالک تھے اور اب میرے گھاؤ نہیں دیکھے جا رہے تم سے۔ وہ لڑکی قائد سے کہتی ہے کہ تم مجھے 80 سال پہلے چھوڑ کر چلے آئے، مجھے اکیلا اور تنہا کر دیا۔
ابھی تو ہماری شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا کہ تم آگ کی بھٹی میں جلنے کے لیے، مجھے اکیلا ہی چھوڑ کر چلے آئے۔ پتہ ہے، وہ سب لوگ ہنستے ہیں تجھ پہ بھی، مجھ پہ بھی۔ جن سے لڑ کر تم نے میرے ساتھ نکاح پڑھا تھا۔ میں اس وقت زخمی تھی اور اب تو لنگڑی لولی ہو چکی ہوں۔ ہمارے اس نکاح میں خون کی ندیاں بہہ گئی تھیں۔ باراتیوں کی باراتیں لٹ گئی تھیں۔ میری اور تیری چاہت میں لاکھوں لوگوں نے اپنے سر کٹائے۔ بہنوں نے اپنے بھائی گنوائے۔ ماؤں نے اپنے بیٹے ذبح کروائے۔ میرے اور تیرے وصال کے لیے لاکھوں لیلائیں اور ہیریں اجڑ گئیں۔ لاکھوں رانجھے اور مجنوں شہید ہوئے۔
میرے اور تیرے وصال کے لیے اور تو اور شیر خوار بچوں نے اپنا لہو پیالوں میں بھر دشمن کو پیش کیا۔ گاؤں کے گاؤں جل گئے۔ ہر طرف تلوار چلی، ہر گھڑی، ہر لمحہ شہروں کی فضا گولیوں کے شور چیخوں، آہوں اور سناٹوں سے بھر گئی۔ ہر طرف موت کا خونی کھیل کئی مہینے جاری رہا۔ آبشاروں سے خون کے فوارے پھوٹے۔ جھیلیں، وادیاں، دریا سب لال پیلے ہو گئے تھے۔ صرف اور صرف میرے اور تیرے وصال کے لیے۔ کائنات کی ہر چیز نے قربانی دی۔ کون ہے جس کے کلیجے پہ خنجر نہ چلا ہو؟ مگر تو مجھے قصائیوں کے درمیان اکیلا چھوڑ کر چلا آیا۔
ماضی کی ساری تاریخ قائد کے ذہن پہ ایک فلم کی طرح چلنے لگتی ہے وہ اپنی زخمی، خون میں لت پت محبوبہ کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ بازو بڑھا کر اپنی محبوبہ کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، اسے گلےسے لگاتے ہیں۔ وہ قائد کے کان میں چپکے سے کہتی ہے، قائد مجھے ختم کرنے کے لیے، مجھے بے آبرو کرنے کے لیے، دشمنوں نے مجھ پہ بہت حملے کیے۔ دشمنوں کی بات چھوڑ۔۔ مجھے بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے لیکن کیا کروں، کس سے کہوں میں اپنا دکھ؟
مجھے تیرے اپنوں نے بھی کئی بار لوٹا۔ میری عصمت دری کی۔ دنیا بھر میں میرا تماشہ بنایا۔ ہر دفعہ دشمن اور غداروں نے مل کر میرا گلا دبانا چاہا مگر پھر تیرے کچھ بچے ہوئے جانثارآ جاتے ہیں جو مجھے بچا لیتے ہیں اور میں مرتے مرتے بچ جاتی ہوں مگر یہ کیا زندگی ہے قائد! جس میں تم نہیں ہو، میں اکیلی، تن تنہا، بے سر و ساماں اور میرے دشمن گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی۔ تیرے محافظ بھی مجھے لوٹ رہے ہیں۔
میں 80 سال سے لٹ رہی ہوں، میں تمہاری راہ دیکھتی ہوں، مجھے لے چلو اپنے ساتھ، مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا، قائد کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ اس کی کہانی سن کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتے ہیں۔ قائد اپنی زندگی میں یہ دوسرے دفعہ رو رہے تھے اور کائنات حیرت سے قائد کو تک رہی تھی اور وہ بچوں کی طرح بلبلا کر رو رہے تھے۔ آخر 80 سال بعد قائد کو اس کی محبوبہ مل جاتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوب روتے ہیں۔ 80 سالہ جدائی نے دونوں کو بوڑھا کر دیا تھا، قائد کے اپنے کپڑے بھی خون میں لت پت ہو جاتے ہیں۔
قائد اپنی محبوبہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اب ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے، ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں گے۔ اسی دوران گولی کے چلنے کی آواز آتی ہے اور وہ گولی سیدھا قائد کی محبوبہ کے سینے میں لگتی ہے۔ محبت کے دشمن ایک بار پھر حملہ کر دیتے ہیں، وہ قائد کی محبوبہ کو زخمی حالت میں بزور شمشیر لے جاتے ہیں۔ اس طرح قائد ایک دفعہ پھر اپنی محبوبہ سے بچھڑ جاتے ہیں۔ تبھی چند سفید لباس میں ملبوس کچھ لوگ آتے ہیں اور وہ قائد کو اپنے ساتھ اس سیارے سے دور کہیں اور لے جاتے ہیں اور فضا میں اس لڑکی کی آواز گونج رہی ہے، قائد! میرے قائد! مجھے بچا لو۔ بچا لو مجھے ان قصائیوں سے! ان درندوں سے!