اب ٹھوکر کھائی تو (2)
پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ کے مہلک اور بدترین اتحاد اور گٹھ جوڑ وہ تھے جو اسٹیبلشمنٹ اور شکست خوردہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہوئے۔ عوامی مقبولیت سے محروم یہ سیاسی پارٹیاں بھان متی کے کنبے کی طرح ایک مقبول لیڈر یا سیاسی پارٹی کے خلاف ہمیشہ متحد ہو جاتیں اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر اپنے تعصب اور نفرت کی بندوق رکھ کر چلاتیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں اپنے اس مذموم گٹھ جوڑ کو قومی سلامتی، ملکی بہتری اور عظیم تر قومی مفاد کے خوشنما غلاف میں لپیٹ کر میدانِ عمل میں اُترتے، اور ان کے ہاتھ میں بے نیام تلوار کی صورت صرف ایک ہی نعرہ ہوتا، "غدار"۔ یہ ایسی تہمت اور بہتان ہے کہ آج تک جن سیاست دانوں پر اس کا استعمال ہوا، وہ عوام میں بہت مقبول تھے۔
یوں تو اس کھیل کا آغاز مشرقی پاکستان میں اپریل 1954ء سے ہی کر دیا گیا تھا، جب تحریکِ پاکستان کے تین عظیم رہنمائوں حسین شہید سہروردی، مولوی ابوالقاسم فضل الحق اور مولانا بھاشانی نے "جگتو فرنٹ" بنایا اور ان کی مقبولیت نے مسلم لیگ کو شکستِ فاش سے دوچار کر دیا، صرف دو ماہ بعد نے امریکی اشارے پر مشرقی پاکستان کی اسمبلی توڑ کر میجر جنرل سکندر مرزا کو گورنر لگا دیا گیا۔
"غداری" کا ثبوت 23 مئی کو "نیویارک ٹائمز" میں فضل حق کا یہ فقرہ تھا کہ "مشرقی بنگال کی آزادی ان کی وزارت کا سب سے اہم مقصد ہے"۔ فضل حق نے اس سے انکار کیا، مگر کون سنتا تھا، وزیر اعلیٰ ہائوس سے نکلتے ہوئے اس نے ایک فقرہ کہا، "میری حکومت امریکہ نے سول اور ملٹری بیوروکریسی کی مدد سے ختم کروائی ہے"۔ قراردادِ پاکستان کے محرک مولوی فضل حق کی کابینہ میں 15 مئی 1954ء کو تحریکِ پاکستان کے پُرجوش کارکن شیخ مجیب الرحمن نے بھی وزارت کا حلف اُٹھایا تھا۔
اس شیخ مجیب الرحمن کا ایک قصور کبھی معاف نہ کیا گیا کہ اس نے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی مہم چلائی تھی۔ الیکشن کے ٹھیک تین سال بعد جنوری 1968ء میں اسے غداری کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب اس کی جماعت "عوامی لیگ" مقبولیت کی منزلیں طے کر رہی تھی۔ 7 دسمبر 1970ء کے الیکشنوں میں اس کی یہ مقبولیت ثابت ہو گئی، جب مشرقی پاکستان کی 163 سیٹوں میں سے 161 سیٹیں اس کی پارٹی نے جیت لیں۔
شیخ مجیب الرحمن اس ملک کا متوقع وزیر اعظم تھا۔ اب اس ملک کی تاریخ کا وہ مہلک اتحاد شروع ہوا جس نے اس ملک کی تقسیم کی بنیاد رکھی۔ یہ اتحاد مشرقی پاکستان کی مقبول سیاسی پارٹی کے خلاف، مغربی پاکستان میں مقبول مگر ملکی سطح پر ایک چھوٹی سیاسی پیپلز پارٹی نے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کے ساتھ بنایا۔ تین سو اراکین کی اسمبلی میں بھٹو کے پاس صرف 81 نشستیں تھیں۔ "غداری" کی فائلوں سے گرد جھاڑی گئی، 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس روک دیا گیا۔
جنرل یحییٰ اور بھٹو ایک ساتھ ڈھاکہ پہنچے، شیخ مجیب سے مذاکرات ناکام ہوئے اور 26 مارچ کو "آپریشن سرچ لائٹ" کے نام پر آرمی ایکشن کا آغاز ہو گیا۔ مغربی پاکستان کا "مقبول لیڈر بھٹو" شام کو طیارے کے ذریعے کراچی پہنچا اور ایئر پورٹ پر استقبال کے لئے آنے والوں سے کہا، "خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا"۔ حالانکہ جنرل یحییٰ اور بھٹو کا یہ گٹھ جوڑ پاکستان کی تقسیم کی بنیاد رکھ چکا تھا۔
شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پر پابندی لگا دی گئی۔ مشرقی پاکستان میں بھی شکست خوردہ سات سیاسی جماعتوں، پاکستان جمہوری پارٹی، جماعت اسلامی، تین مسلم لیگیں (قیوم، کونسل اور کنونشن)، جمعیت العلمائے اسلام، جماعت علمائے پاکستان اور نظامِ اسلام پارٹی نے یحییٰ خان کے کہنے پر 15 نومبر 1971ء کو ایک اتحاد بنایا اور ضمنی الیکشن میں کود گئے۔ ایک ہفتے بعد پاک بھارت جنگ شروع ہو گئی مگر اس نازک وقت میں اتحاد کے سربراہ نورالامین کو وزیر اعظم اور دوسری پارٹی کے سربراہ بھٹو کو نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔
اسی مہلک اتحاد کے کہنے پر یحییٰ خان نے ایک اور مخالف آواز کو دبانے کے لئے ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی پر بھی 26 نومبر کو پابندی لگا دی۔ گٹھ جوڑ کرنے والے کس قدر بے حس اور ظالم تھے کہ جب ملک بھارت کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھا تو یحییٰ خان نے نورالامین اور بھٹو کی موجودگی میں یہ اعلان کیا کہ "ہم نے ایک آئین تیار کر لیا گیا ہے، جسے 20 دسمبر 1971ء کو نافذ کر دیا جائے گا "، لیکن پھر ملک کا تاریک ترین دن، 16 دسمبر آ گیا اور ملک دولخت ہو گیا مگر اسی 20 دسمبر کے ہی دن بھٹو نے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کا حلف اُٹھا لیا۔
اس کے تین سال بعد ایسا ہی ایک گٹھ جوڑ دو صوبوں کی مقبول سیاسی پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف مرکز میں برسراقتدار پیپلز پارٹی نے بنایا۔ بالکل آج کے 2022ء کے گٹھ جوڑ کی طرح۔ ایک خوفناک منصوبے کے تحت پہلے اکبر بگٹی کے ذریعے موچی دروازہ لاہور میں غداری کے لندن پلان کا انکشاف کروایا گیا اور بلوچستان میں نیپ کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ احتجاجاً صوبہ سرحد کی حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔ آرمی ایکشن شروع ہوا۔ عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔
بلوچستان میں چار سالہ فوجی ایکشن نے ایسے زخم ڈالے ہیں کہ آج تک نہیں بھر پائے۔ جب بھی کبھی کشیدگی جنم لیتی ہے صوبے بھر میں ان زخموں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اگلا خوفناک اور مہلک اتحاد، بھٹو کے خلاف نو سیاسی جماعتوں نے ضیاء الحق کے ساتھ مل کر بنایا۔ بھٹو کی حکومت ختم ہونے تک یہ بہت مقبول پارٹیاں تھیں، لیکن جیسے ہی اپنی پہلی گرفتاری سے رہائی کے بعد بھٹو نے انتخابی مہم شروع کی تو شکست کے خوف سے مولانا مفتی محمود نے 25 مئی 1978ء کو ضیاء الحق کو ایک خط لکھ کر ایک قومی حکومت بنانے اور اس میں شمولیت کا اظہار کیا تھا۔
23 اگست کو ان پارٹیوں کے وزیروں نے حلف اُٹھایا اور 9اپریل 1979ء کی بھٹو کو پھانسی کے بعد 21 اپریل کو وزراء یہ کہہ کر مستعفی ہو گئے کہ ہم تو الیکشن کے وعدے پر آئے تھے۔ اس کے بعد اگلے بیس سال یہ مہلک گٹھ جوڑ دُنیا سے چلے جانے والے بھٹو کے "بت" سے لڑتا رہا۔ آئی جے آئی بنائی گئی، نواز شریف کے بے جان پُتلے میں جان ڈالی گئی، پیپلز پارٹی کو اپنی راہ پر لانے کے لئے عالمی اثرورسوخ اور دھن دھونس استعمال کیا گیا۔
ضیاء الحق نے 1986ء کی اسمبلی میں ممبرانِ اسمبلی کے لئے ترقیاتی فنڈ مختص کر کے ایسا دروازہ کھولا جس سے اس ملک میں کرپشن، بددیانتی اور لوٹ مار کی تاریک رات چھا گئی۔ اس تاریک رات کے خلاف جو بھی اُٹھا اسے اس گٹھ جوڑ نے آغاز ہی میں دبا کر رکھ دیا۔ اصغر خان کا انجام اس کی ایک مثال ہے۔
آج ایسی تمام سیاسی پارٹیاں جو 17 جولائی کے بعد ناکامی کے خوف کا شکار ہیں۔ پاکستان کے لئے ایک نیا سیاسی منظرنامہ تخلیق کرنے والی ہیں۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ وقت بدل چکا ہے، پاکستان کے چاروں طرف بہت کچھ ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ دُنیا عالمی جنگ میں داخل ہو چکی ہے، جس کا ایک ممکنہ میدان پاکستان بھی ہے۔ حالتِ جنگ میں ملک کو ایک مقبول قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر اس دفعہ وہی سب کچھ دہرایا گیا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے غیر مقبول لوگ حکمران ہوئے، تو خدانخواستہ منظر نامہ بہت ہی خوفناک اور درد ناک ہو سکتا ہے۔ (ختم شد)