"کرشمہ ساز" کی مشکل سے مشکل تر ہوتی زندگی
اپنے تئیں عقل کل ہوئے مجھ جیسے لفظ فروش ٹی وی سکرینوں کے ذریعے آپ میں"علم" بانٹتے ہوئے رائی کا پہاڑ بناتے ہیں۔ پانی میں پنجابی محاورے والی مدھانی ڈال کر اسے بلوتے ہوئے کوئی لذیذ یا سود مند شے نکالی نہیں جاسکتی۔ ہم ڈھٹائی سے مگر اس میں مصروف رہتے ہیں۔ کار بے سود میں مصروف رکھنے کے لئے بنیادی کمک ورسد ہمیں ایک کرشمہ ساز کی جانب سے فراہم ہوتی ہے۔
1996ء میں وہ نیا پاکستان تشکیل دینے کے ارادے سے سیاست میں متحرک ہوئے تھے۔ سیاسی روایات کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کئی طاقتور سیاستدانوں کو "اوئے" کہتے ہوئے للکارا۔ انہیں بدترین بدعنوانی کی علامتیں ٹھہرایا اور قوم سے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو قوم کے خزانے سے مبینہ طورپر رقوم چراکربیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدنے والوں کو عبرت کا نشان بنادیں گے۔ بالآخر اگست 2018ء میں وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ ان کی جانب سے بدعنوان ٹھہرائے سیاستدانوں کی ایک کثیرتعداد احتساب بیورو کی جیلوں میں ذلت آمیز پیشیوں اور گرفتاریوں کے بعد عدالتوں سے ضمانتوں کے حصول کیلئے کئی مہینوں تک پھیلی کاوشوں میں الجھی رہی۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف بھی لندن بھیج دئے گئے۔
ہماری تاریخ میں ان کی حکومت غالباََ وہ پہلی سول حکومت تھی جو "اْن" کے ساتھ "سیم پیج" پر شراکت کے فیوض سے بھی مالا مال رہی۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت سرکاری خزانے میں اس کے باوجود واپس نہیں آئی۔
2019ء میں پاکستان ایک بار پھر عطار کے اسی لڑکے یعنی آئی ایم ایف سے "امدادی پیکیج" مانگنے کو مجبور ہوا۔ اس کے ساتھ ہوئے معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کا آغاز ہوا تو عوام بلبلا اٹھے۔ لوگوں کے دلوں میں ابلتے غصے سے گھبراکر آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھانے کا فیصلہ ہوا۔ ریاست کی دانست میں یہ خودکش حملہ تھا۔ اس کی وجہ سے ریاست کا طاقتور ترین ادارہ "سیم پیج" سے نکل کر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ میل ملاپ کو مجبور ہوا۔ بالآخر گہری محلاتی سازش کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔ دریں اثناء ایک عبوری حکومت بھی قائم ہوئی۔ وہ 8فروری2024ء کے دن ہوئے عام انتخابات کی نگران تھی۔ اس روز ڈالے ووٹوں کی گنتی عوام کے وسیع تر حلقے قبول نہیں کررہے۔ شہباز حکومت مگر اس کی گنتی کی بدولت ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب پر براجمان ہیں۔ کرشمہ ساز البتہ گزشتہ ایک برس سے جیل میں ہیں۔
ان کی تشکیل کردہ جماعت پر الزام ہے کہ 9مئی 2023ء کے روز اس نے اپنے قائد کی محبت میں ریاستی اداروں کی لگائی "ریڈ لائن" کو کراس کیا تھا۔ یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ اس روز ہوئی ہنگامہ آرائی کا اصل مقصد "ادارے" کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت کے لئے اکسانا تھا۔ مبینہ سازش ناکام رہی۔ تحریک انصاف کے بانی کی زندگی مگر اس کے بعد مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔ ان کے خلاف متعدد مقدمات ہیں جن کی سماعتیں اڈیالہ جیل ہی میں ہوتی ہیں۔ جیل میں ہوئی سماعتوں کا فقط چند صحافی ہی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ عدالتی کارروائی سے پہلے یا اختتام پر ان کی تحریک انصاف کے بانی سے گپ شپ بھی ہوجاتی ہے۔ غیر رسمی اندازمیں ہوئی گفتگو کے چیدہ چیدہ نکات بعدازاں ٹی وی سکرینوں پر توجہ کھینچتے ٹکروں میں چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ دن گزرجانے کے بعد شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک مجھ جیسے لفظ فروش بن سنور کر کیمروں کے روبرو بیٹھے ٹکروں کے ذریعے بیان ہوئے خیالات میں"چھپا پیغام" تن دہی سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بدھ کی شام بھی ایسے ہی ہوا۔ اڈیالہ جیل میں جو گفتگو ہوئی وہ وقوعہ پر موجود رپورٹروں کو "لچک" دکھائی سنائی دی۔ ہمیں تواتر سے بتایا گیا کہ بانی تحریک انصاف 9مئی کے روز ہوئے واقعات کے بارے میں معافی مانگنے کو آمادہ ہیں۔ اس ضمن میں تاہم انہوں نے چند شرائط بھی عائد کی ہیں۔ جو "شرائط" سامنے آئیں انہیں پیاز کی صورت عوام میں مقبول اینکر خواتین وحضرات نے اپنی میز پر رکھ کر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک کھولنا شروع کردیا۔ کچھ نتیجہ ظاہر نہ ہونے کے یقین کے باوجود کارزیاں میں مصروف رہے۔ جیسا دیس ویسا بھیس کے اصول پر عمل کرتے ہوئے میں نے بھی بانی تحریک انصاف کے فرمودات کو ریاضی یا علم طبیعات کے گنجلک معاملات جیسا سمجھا۔ ان میں چھپے "پیغام" کا کھوج لگانے میں مصروف رہا۔
روز کی روٹی روز کمانے کے بعد تاہم گھر لوٹا تو بہت شرمندگی محسوس ہوئی۔ سیاستدانوں کے بیانات رپورٹ کرنے میں کئی دہائیاں گزاری ہیں۔ عمران خان جب کرکٹ سے سیاستدان کی دنیا میں آئے تو ابتدائی دنوں میں ان رپورٹروں میں شامل تھا جو موصوف سے متحرک رابطے میں رہتے تھے۔ 2010ء سے مگر گوشہ نشینی کو راغب ہونا شروع ہوگیا۔ بانی تحریک انصاف بھی اس برس تک "بدل" چکے تھے۔ 2014ء میں دھرنا لے کر اسلام آباد آگئے اور 126دنوں تک "ایمپائر کی انگلی" کا انتظار کرتے رہے۔ مذکورہ انتظار نے مجھے بددل کردیا۔ اس کا اظہار اس کالم میں ہوا تو "لفافہ" کی تہمت نصیب ہوئی۔
بہرحال بدھ کے روز اڈیالہ جیل میں بانی تحریک انصاف کی رپورٹروں سے ہوئی گفتگو کے ایک ایک لفظ کو میں نے وہاں موجود ساتھیوں کی مدد سے جمع کرنے کی کوشش کی۔ انہیں یکجا کرنے کے بعد نہایت توجہ سے خلاصہ نکالنے کو سرکھپایا۔ میری عاجزانہ رائے میں بانی تحریک انصاف اس دعوے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ یا ان کی جماعت 9مئی 2023ء کے روز ہوئے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی متقاضی ہے۔ اس کے بعد اگر اور مگر کی تکرار ہے جسے "مشروط معافی" کی طلب بتایا جارہا ہے۔ اگر مگر کے ساتھ معافی کی پیش کش میری ناقص رائے میں کسی "لچک" کا اظہار نہیں۔ نجانے میڈیا میں اسے "مثبت پیش قدمی" ثابت کرنے کی کوشش کیوں ہورہی ہے۔