تحقیق و تنقید کے حوالے سے تین اہم کتابیں
اکرم کنجاہی کا نام علم و ادب، شعر و سخن اور تنقید کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، ان کی سولہ کتابیں شایع ہو چکی ہیں، سترہویں کتاب بعنوان " پسِ جدیدیت، لہجے اور اسلوب" طباعت کے آخری مراحل میں ہے، میں خود ان کی تحریروں کی قاری ہوں، کچھ عرصہ قبل ان کی تین اہم کتابیں میرے مطالعے میں رہیں، راغب مراد آبادی (چند جہتیں)، دوسری کتاب لفظ، زبان اور ادب (تحقیق و تنقید)، تیسری غزل کہانی (تحقیق و تنقید)۔
ان کی تحریرکی خاصیت یہ ہے کہ سادہ اور دل نشیں ہے، ثقیل الفاظ ان کے یہاں نہیں ملتے ہیں، تنقید لکھنا اور پڑھنا ناقد اور قاری دونوں ہی کے لیے ذرا مشکل ہوتا ہے، نقاد تو اپنی تحقیق محنت اور کاوش کی بدولت یہ خاص کام کرگزرتا ہے۔ ان کا اسلوب بیان اس قدر موثر ہے کہ ادب کے طالب علم بڑی آسانی کے ساتھ ہضم کر لیتے ہیں اس کی وجہ ان کی قلم پرگرفت مضبوط رہتی ہے اور تسلسل کی فضا، بیانیے کی خوبصورتی اور مکمل معلومات کے ساتھ قلم کا جادو جگاتی ہے۔
راغب مراد آبادی (چند جہتیں) تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہے، راغب مرادآبادی شاعری کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے ان کی فن شاعری کو بڑے بڑے شعرا نے خراج تحسین پیش کیا ہے اسی حوالے سے اکرم کنجاہی نے جاں فشانی عقیدت اور محبت کے ساتھ ان کے محاسن شاعری کو قلم بند کیا ہے اور ان کی شعری اور ادبی خدمات کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ (1)۔ راغب مراد آبادی کا شعری سفر۔ (2)۔ چند شعری محاسن۔ (3)۔ سماجی علمی اور ادبی خدمات۔ (4)۔ اہم علمی و ادبی موضوعات، سوانحی خاکہ۔ راغب مراد آبادی کے لیے کتاب کے آخری صفحات مختص کیے ہیں۔
سوانحی خاکے کے ذریعے بہت سی وہ اہم معلومات سامنے آتی ہیں جن سے ادب کے طلب گار واقف نہیں ہیں۔ راغب صاحب صحافی بھی رہے اور انھوں نے منظوم سفرنامے بھی لکھے۔ ان سفرناموں کے انگریزی اور چینی زبان میں تراجم بھی ہوئے، پروفیسر رفیق خاور نے انگریزی اور چانگ شی شوان (انتخاب عالم) نے چینی زبان میں منظوم کیا، وہ اردو، فارسی، عربی، پنجابی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔
تلامذہ کی تعداد سیکڑوں کی ہے ان میں کئی ممتاز نام بھی شامل ہیں جن میں اکرم کنجاہی کا نام بھی نمایاں ہے گویا حق شاگردی خوب ادا کیا۔ اکرم کنجاہی نے لکھا ہے کہ "راغب صاحب نے شبستانِ روایت کے چراغوں سے روشنی حاصل کی، روایت سے صحت مندانہ استفادہ کیا۔ ان کا ابتدائی کلام دیکھ کر نوح ناروی نے کہہ دیا تھا میں نے ان کا کلام دیکھا، جانچا اور پرکھا مگر ان کے کلام میں لغزشیں غور کرنے پر بھی نظر نہیں آئی ہیں، یہ نظم، غزل، رباعی، قطعہ ہر چیز اچھی کہتے ہیں۔" راغب مراد آبادی کی قدیم رنگ میں شاعری سے چند اشعار نذر سامعین:
جلوۂ دل نواز سے، شعلہ جاں گداز سے
دامنِ عقل وہوش میں آگ لگا گیا کوئی
ہوش کسے، خِرد کہاں، اٹھ گیا فراق ایں واں
بادہ فشاں نگاہ سے، مست بنا گیا کوئی
اکرم کنجاہی نے راغب مراد آبادی کی شاعرانہ عظمت وسعت خیال ان کی دین سے محبت اور ان کی دوسروں کے لیے درد مندی ایثار و محبت کے حوالے سے ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے جنھیں پڑھ کر قاری راغب مرادآبادی کی تخلیقی صلاحیتوں، ندرتِ خیال اور سطوتِ الفاظ کا قائل ہوجاتا ہے۔
الفت ہی الفت میرا شیوہ
ایک دن تو دشمن بھی قائل ہوگا
"غزل کہانی" جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب غزل کی تاریخ سے مرصع ہے اور یہ ایک مکمل کہانی ہے بے شک ابھی اس میں تبدیلیوں کے امکانات بھی اپنی جگہ موجود ہیں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ممکن نظر آتی ہے " تغیر ایک زمانے کو ہے۔" لیکن تنقید نگار نے ابتدا سے آج تک کے غزل لکھنے والوں کی کہانی بلاتفریق درج کی ہے۔ یہ کتاب بھی 288 اوراق پر پھیلی ہوئی ہے دیباچہ نوید صادق صاحب نے تحریر کیا ہے۔
مختلف اسباق کو الف، ب اور الف، ب، ج کا عنوان عطا کیا ہے اور پھر مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی اس طرح کی ہے کہ ہمیں یہ کہانی ہی لگتی ہے، کئی موڑ اور پیچ و خم آتے ہیں عنوانات، غزل کی ابتدا، دبستانِ دکن، دو عظیم دبستان دہلی اور لکھنو، میر اور ان کا عہد18 ویں صدی، اردو کا عہد ظفر شاہی، نئی غزل کی فنی و فکری جہات وغیرہ وغیرہ۔ آخری سبق یا باب نئی نسل کے فکری و اسلوبیاتی رجحانات، پر کتاب کا اختتام ہوا ہے۔
بعنوان غزل کی مخالفت میں انھوں نے مرزا غالب کا یہ شکوہ کہ غالب نے اپنے مضامین کے تنوع کی وجہ سے "تنگنائے غزل" کا شکوہ کیا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ غالب کی وجہ شہرت اردو غزل ہی قرار پائی، کلیم الدین احمد نے اسے نیم وحشی سخن کہا حالی جب سرسید کی تحریک میں شامل ہوئے تو اسے بے وقت کی راگنی کہنے لگے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے عمدہ بات کہی کہ غزل کی اکائی غزل نہیں شعر ہے۔
"غزل کی حمایت" میں بھی انھوں نے غزل کی تاریخ درجہ بہ درجہ مرتب کی ہے۔ عام طور پر امیر خسرو ہی کو اردو کا پہلا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن جدید تحقیق کے مطابق اردو زبان کے پہلے شاعر صوفی بزرگ بابا فریدالدین شکرگنجؒ (1173-1365) ہیں۔ سراج اورنگ آبادی اس عہد کا دوسرا نام ہے وہ اپنے صوفیانہ کلام کی وجہ سے اپنا علیحدہ مقام رکھتے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیے:
خبرِ تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو، تُو رہا نہ میں رہا، جو رہی سو بے خبر رہی
دبستان دہلی اور دبستان لکھنو دونوں کا انداز فکر مختلف رہا ہے دونوں دبستانوں کا ذکر اور تاریخ کو مختصر الفاظ میں اکرم کنجاہی نے اس طرح بیان کیا ہے جیسے کوزے میں دریا بند ہو، اس دور کے شعرا کرام کا تعارف اور انداز سخن کے نمونے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ میر تقی میر کا ایک شعر جو علم و عرفان اور آگہی کی روشنی سے دلوں کو جگمگائے ہوئے ہے اور ہر دور میں زبان زد عام رہا ہے۔
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
ہر درد جن کا کلام تصوف کا آئینہ دار ہے
موت کیا آ کے فقیروں سے تجھے لینا ہے
مرنے سے آگے ہی یہ لوگ تو مر جاتے ہیں
جب ہم غزل کہانی کے ورق پلٹتے جاتے ہیں، تو بہت سا ایسا کلام ہمارے مطالعہ میں آتا ہے جو حسن و جمال کی لطافتوں شعری نزاکتوں اور تغزل کے رنگوں دے دل آویز ہوگیا ہے، ڈاکٹر عندلیب شادانی کے دو شعر نذر قارئین:
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
اس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، بجلی، نغمے تارے پھول
اس کے دامن میں کیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو
غزل کہانی بہت اہم شاعروں کے کلام سے مزین ہے۔ فراق گورکھپوری، حمایت علی شاعر، رئیس فروغ، ابن انشا، احمد فراز، عرفان صدیقی، شاعر صدیقی، رفیع الدین راز، جاذب قریشی، شاعر علی شاعر، غرض موجودہ دور کے شعرا کے حالات زندگی اور نمونہ اشعار سے کہانی مکمل ہوئی ہے۔ شاعر علی شاعر کی غزل سے ایک۔
مجھ کو یہ دھوپ سکھاتی ہے سدا
میرے سر پر نہ شجر ہو تو غزل ہوتی ہے
اکرم کنجاہی کی تیسری کتاب "لفظ، زبان اور ادب ہے" اکرم کنجاہی کی خوبی یہ ہے کہ وہ مکمل تحقیق اور چھان بین کے بعد تنقید کے مرحلے سے گزرتے ہیں ان کا خاص الخاص وصف وسیع النظری ہے یہ خوبی انسان کی عزت و مرتبے میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ نقاد محترم نے شعر و ادب پر حاصل مطالعہ گفتگو بذریعہ قلم فرمائی ہے۔ فکریات، خصوصی مطالعات، شعریات، نثریات ان موضوعات پر اتنا جم کر لکھا ہے کہ 320 صفحات پر قلم کاروں کے تعارف ان کی تخلیقات نے اپنا خوب رنگ جمایا ہے۔ جوکہ قابل تعریف ہے اور یہ تعریف مصنف و مولف کے حصے میں آئی ہے۔