ٹرمپ آئے گا، عمران لائے گا؟
جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو اس وقت امریکہ میں انتخابات کا عمل جاری ہے۔ رائے عامہ کے کچھ جائزوں کے مطابق ٹرمپ جیتنے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی سے وابستہ سوشل میڈیا ٹرولزکے مطابق ممکنہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوتے ہی فون اٹھائیں گے اور پاکستان کو حکم جاری کریں گے کہ اڈیالہ جیل کے دروازے کھول دئیے جائیں۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں، بہت ساروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کے لئے شیروانی تیار ہوگئی ہے۔
وہ جیل سے باہر ہی نہیں آئیں گے بلکہ سیدھے ایوان وزیراعظم جائیں گے اور حلف اٹھا لیں گے یہ باتیں کہنے والے وہ تمام ہیں جو کچھ عرصہ پہلے ایبسولیوٹلی ناٹ کا ٹرینڈ چلاتے، سائفر لہرانے کو سراہتے اور ہم کوئی غلام ہیں کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ٹرولز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ، ان کی اہلیہ اور بیٹی بھی عمران خان کی فین ہیں، وہ اپنی انتخابی مہم میں بھی عمران خان کے ساتھ ملاقاتوں کو ووٹ حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ سوال اہم ہے کہ کیا امریکا کی نئی حکومت عمران خان کے لئے اثرورسوخ استعمال کرسکتی ہے تو یہ کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر تاریخ اور حقائق کی روشنی میں یہ ممکن نہیں ہے۔ میں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے اسے محض خواہشات اورپروپیگنڈہ قرار دیا اور کہا کہ ریاستوں کے ریاستوں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ سے یہی سوال لاہور کے سینئر صحافیوں کے سامنے ہوا تھا تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگایا تھا۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی ایک واقعہ سنایا تھا جس میں ایک طاقتور مغربی ملک کے وزیراعظم نے ان کے دور کے آرمی چیف اور صدر مملکت کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنی تھی۔
ہائی کمشنر کئی روز تک ان سے رابطے کی کوشش کرتا رہا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ اس کے لئے یہ پریشان کن صورتحال تھی۔ اس نے وزیر خارجہ سے رابطہ کیا اور اپنی مشکل بیان کی۔ سابق وزیر خارجہ کے مطابق انہوں نے یہ ٹیلی فونک گفتگو کو ممکن بنوایا۔ ان کی گفتگو کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کی فوج اور حکومت کو اتنا ڈس گرانٹڈ، نہیں لینا چاہئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ حکومت کو کچھ پیغامات ملیں مگر یہ ہرگز ضروری نہیں کہ وہ اس پر عمل بھی کرے۔
سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، عمران خان کے لئے کیوں سافٹ کارنر رکھ سکتے ہیں تواس کے پیچھے بھی وہ لابی ہے جو ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز دونوں پر حاوی ہے۔ یہ لابی ایوان نمائندگان میں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کا اتحاد تک کرواتی ہے۔ اسے غزہ میں صدی کا بدترین قتل عام نظر نہیں آتا مگر اسے پاکستان کے انتخابات میں بے ضابطگیاں نظر آجاتی ہیں۔ یہ وہی لابی ہے جس کی نشاندہی حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار کرکے گئے تھے۔
پی ٹی آئی ملکی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے ریکارڈ بجٹ خرچ کرتے ہوئے امریکہ میں باقاعدہ لابنگ فرمز ہائر کی ہیں تاکہ وہ اپنے بانی کے حق میں اور ملک کے خلاف مہم چلا سکے۔ کرائے پر دستیاب انہی لابنگ فرمز کا کمال ہے کہ امریکہ جس نے کبھی پاکستان کے وزیراعظم کے عدالتی قتل تک پر تشویش ظاہر نہیں کی اس ملک کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی ہر پریس کانفرنس میں عمران خان کے بارے سوال کروایا جاتا ہے۔ لوگ پاکستان کی صحافت پر سوال اٹھاتے ہیں مگر پاکستان سے زیادہ امریکہ میں کرائے پر صحافی دستیاب ہیں۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جو اس وقت اپوزیشن میں ہے اس کے پاس اتنا بجٹ کہاں سے آ رہا ہے کہ وہ ہزاروں، لاکھوں ڈالرز پر لابنگ فرمز ہائر کر رہی ہے؟ اگر ہم منطقی اور عملی ہوکر ان لابنگ فرمز کی اثرپذیری پر بات کریں تو انہیں حال ہی میں ایک بڑی ناکامی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی، خدانخواستہ، پاکستان کو معاشی موت دینے کے لئے سرگرم تھی کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پیکج کو حتمی شکل نہ دیں۔ اس کے لئے بانی پی ٹی آئی کی طرف سے باقاعدہ خطوط ہی نہیں لکھے گئے بلکہ وہاں پر اپنے لوگوں کے ذریعے مظاہرے بھی کروائے گئے مگر آئی ایم ایف نے تمام لابنگ فرمز، خطوط اور مظاہروں کو نظرانداز کرکے پاکستان کے لئے پیکج کی منظوری دی جس کی ایک سے دو اقساط مل بھی چکی ہیں۔ یہ پیش رفت وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے اس موقف کو ثابت کرتی ہیں کہ ریاستوں کے ریاستوں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔
بات امریکہ کی نہیں کہ وہ دباو ڈالتا ہے یا نہیں۔ زیادہ اہم بات پاکستان کے ردعمل کی ہے۔ یہ پہلی بارنہیں ہے کہ امریکا اپنے مفادات کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔ اس سے پہلے ایک تاریخ ساز موقع اس وقت آیا تھا جب ربع صدی پہلے بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ اس وقت کے امریکی صدر نے اپنا وزن بھارتی پلڑے میں ڈالتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو اربوں ڈالر کی امداد کی پیشکش بھی کی تھی مگر پاکستان نے اس دباؤ اور لالچ دونوں کو مسترد کر دیا تھا۔
بہت سارے لوگ پرویز مشرف کے دور کو افغانستان کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے اتنا ہی کردارادا کیا تھا جتنا اسے عالمی برادری کے ایک ذمے دار ملک کے طور پر کرنا چاہئے تھا، اس سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں تھا۔ یوں بھی بہت سارے معاملات میں اگر پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے تو امریکہ کے لئے بھی پاکستان اس سے بھی اہم ہے خاص طور پر اس کی جیو سٹریٹیجک پوزیشن۔ پاکستان افغانستان، چین اور ایران کا ہمسایہ ہے جس کی بین الاقوامی طاقت اور سیاست میں خاص اہمیت ہے۔
پاکستان کی حکومت، فوج اور عوام کواس معاملے کو پاک چین تعلقا ت کی نظر سے بھی دیکھنا ہوگا۔ چین سی پیک ون کی بحالی کے بعد سی پیک ٹو کا وعدہ بھی کر چکا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی دونوں کے ذریعے ہی وہ سی پیک کا راستہ نہیں روک سکتا۔ اس کے لئے اس کا آزمودہ ایجنٹ عمران خان ہی ہو سکتا ہے۔ جب میں یہ بات کرتا ہوں کہ عمران خان، امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے تو بہت سارے کہتے ہیں کہ دیکھو، اس کا فلاں بیان امریکہ کے خلاف تھا اور فلاں اسرائیل کے خلاف۔
مجھے ان کی اس دلیل پر ہنسی آجاتی ہے اور میرا جواب ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے لارنس آف عربیہ کے بارے میں کچھ پڑھا ہے، وہی تھامس لارنس نے جس نے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات ابھار کے اسلامی خلافت کے خاتمے کے لئے بغاوت کروائی تھی۔ اس نے بصرہ کی مسجد میں جا کے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تھا، وہ عربی لباس پہنتا تھا اور اسے عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ اگر آپ نو مئی کے واقعات کو لارنس آف عربیہ کی پیدا کی ہوئی بغاوت کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو آپ پورے سکرپٹ کی سمجھ آجائے گی۔