مسلم لیگ نون دوستوں کے ساتھ کھڑی ہو
میں جس ڈاکٹر شبیر چوہدری کو جانتا ہوں وہ یاروں کا یار ہے اور ان کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے چاہے مقابلے پر عمران خان جیسی دشمن حکومت اور پی ٹی آئی کی حامی وائے ڈی اے ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کسی کو اس پر شک ہو تو وہ خواجہ آصف سے پوچھ لے اور اگر اس سے بھی تسلی نہ ہو تو احسن لطیف سے کہ جب میاں نواز شریف جناح ہسپتال میں تھے اور ان پر ایجنسیوں کی سخت نگرانی تھی تو اس موقعے پر بھی ان سے بات ہوتی تھی تو کس ذریعے سے ہوتی تھی۔
ہرکوئی جانتا ہے کہ وائے ڈی اے پر پی ٹی آئی کا اثر حد سے زیادہ ہے اور تقریباََ ہر دوسرا ڈاکٹر اس کے باوجود یوتھیا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں میڈیکل ایجوکیشن اور میڈیکل انسٹی ٹیوشنز دونوں کے ساتھ ہی بڑی زیادتیاں ہوئیں۔ یہ بھی پی ٹی آئی کا ہی دور تھا جب وائے ڈی اے پرگارڈن ٹاون میں بدترین شیلنگ ہوئی اور ڈاکٹر خود ہسپتال پہنچ گئے۔
اس کے بھی باوجود کہ پی ٹی آئی کے پورے دور میں ڈاکٹروں کو ایک پکی نوکری نہیں ملی بلکہ اس سے پہلے پنجاب پبلک سروس کمیشن نے جن کی نوکریاں اوکے کر دی تھیں انہیں بھی لٹکا دیا گیا۔ اُس پورے دور میں اگر نوکریاں ملیں تو ایڈہاک ملیں اور ہر نوکری کا ریٹ تین سے پانچ سات لاکھ روپے تک رہا۔ اس پورے دور میں جس نے اپنا نظریاتی دھڑا نہیں چھوڑا وہ ڈاکٹر شبیر چوہدری تھا اورا س کے ساتھ ڈاکٹر کاشف جیسے جنونی۔
میں جس ڈاکٹر شبیر چوہدری کوجانتا ہوں وہ لاہور جیسے شہر میں مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ کرنے کے پروگرام کا بانی ہے حالانکہ اس پر پرائیویٹ ہسپتال بیس سے تیس لاکھ روپے تک وصول کر لیتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا تو اس پر میں نے ایک پروگرام بھی کیا تھا اور ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے غریب لوگوں کے لئے پبلک سیکٹر میں شروع کئے گئے اس پروگرام کی باقاعدہ تعریف کی تھی۔
میں نے تب ڈاکٹر شبیر چوہدری سے پوچھا تھا کہ اس کے لئے فنڈز کہاں سے آئے تو انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ یہ سب کچھ جناح ہسپتال کے فنڈز میں کرپشن کو روکتے ہوئے کیا گیا ہے جس پر میں حیران رہ گیا تھا کہ ایک ہسپتال کے اندر اتنی کرپشن بھی ہوسکتی ہے۔ اس کامیابی کے بعد ڈاکٹر شبیر چوہدری کا حوصلہ بڑھ گیا تھا اور وہ سمجھ رہا تھا کہ اب اس کے دوستوں کی حکومت آ گئی ہے اور وہ ہر مافیا پر ہاتھ ڈال سکتا ہے، ہر مظلوم اور کمزور کا ساتھ دے سکتا ہے۔ اس نے سینی ٹیشن کے ٹھیکوں میں کروڑوں کی کرپشن بے نقاب کی اوراس کا راستہ روکا تواس کے خلاف پوری مہم شروع کر دی گئی۔ جیسے میں نے پہلے کہا کہ بہت سارے انقلابی کام جنونی ہی کر سکتے ہیں سو وہ لگا رہا۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جو کام پی ٹی آئی کی حکومت اپنے پورے دور میں نہیں کرسکی وہ مسلم لیگ نون کے دور میں ہوگیا ہے کہ اب نہ ڈاکٹر شبیر چوہدری اپنی جگہ پر ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر عامر بندیشہ۔ مجھے ایک عشرے سے بھی زیادہ پرانی باتیں یاد آ گئیں جب حامد بٹ وائے ڈی اے کے صدر ہوا کرتے تھے اور ینگ ڈاکٹرز نے اپنی تنخواہوں، سیکورٹی سمیت پورے سروس سٹرکچر کے لئے ایسی ہڑتال کر رکھی تھی کہ ایمرجنسیاں اور آپریشن تھیٹر تک بند تھے اور جیل روڈ پر ایک احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ شہباز صاحب کی حکومت کے لئے درد سر بنا ہوا تھا جہاں روزانہ شام کو ایک سیاسی ڈرامہ لگتا تھا۔
تب بھی یہی ڈاکٹرز تھے جنہوں نے میری درخواست پرہڑتال ختم کی تھی اوراس میں سب سے بڑا کردار وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی حکمت اور فراست کا تھا جنہوں نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ ڈاکٹرز ہمارے بچے ہیں اور ہم جو سہولت انہیں دے سکتے ہیں وہ ضرور دیں گے جیسے تنخواہ ساڑھے بائیس ہزار سے اڑتالیس ہزار ہوگئی تھی۔ مجھے اس پورے عرصے میں وائے ڈی اے کے وہ تمام کرکٹ ٹورنامنٹ بھی یاد آ رہے ہیں جن میں خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کے ساتھ میں بھی مہمان خصوصی ہوا کرتا تھا۔
میرا یہ گمان واضح ہوتا جا رہا ہے کہ جو لوگ ڈاکٹر یاسمین راشد کے دور میں خواجہ آصف والے معاملے پر ڈاکٹر شبیر کو کو سزا دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے وہ آج ایک بھلے مانس وزیر کو دباو میں لا کے فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر چوہدری کو اس امر کی سزا دی گئی ہے کہ نے لیڈی ڈاکٹرز کے ہاسٹل میں ریپ کی نیت سے گھسنے والے کے خلاف بچیوں کا ساتھ کیوں دیا۔ اسے لڑائی اور امن و امان کا مسئلہ بتایا جا رہا ہے حالانکہ ایک انصاف پسند اور جرات مند لیڈر کو ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔
میں نے اپنی پوری زندگی میں یہی سبق سیکھا ہے کہ اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں اور جاتے بھی رہتے ہیں مگر ہمیں اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے خاص طور پر اگر وہ غلط نہ ہوں۔ مجھے شبیر چوہدری کے ساتھ ساتھ عامر بندیشہ کی ٹرانسفر پر بھی حیرت ہوئی اور تیسرے بندے کا نام میں لینا نہیں چاہتا، کہیں ایسا نہ ہو وہ بھی سپیشلائزڈ انتقام کا نشانہ بن جائے۔
میں مانتا ہوں کہ ڈاکٹر شبیر چوہدری بہت بولتا ہے، بہت پنگے لیتا ہے مگر میرا مسئلہ اس کی نوکری یا پوسٹنگ ہرگز نہیں ہے مگر میرا مسئلہ وہ ہے جو لاہور کے سینئر ترین ہیلتھ رپورٹرز میاں نوید اور زاہد چوہدری بیان کر رہے ہیں کہ اگر آپ ڈاکٹر شبیر چوہدری کو بیوروکریسی کے انتقام کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو ملکی تاریخ میں پبلک سیکٹر میں بغیر اضافی فنڈز کے شروع ہونے والا مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ کا پراجیکٹ بند ہوجائے گا اوراس کے ذریعے آپ پرائیویٹ سیکٹر کی کروڑوں روپوں کی دیہاڑیاں لگوا سکیں گے۔ شبیر چوہدری کا کیا ہے وہ کڈنی ٹرانسپلانٹ کا جانا مانا سرجن ہے، وہ کسی بھی جگہ پرائیویٹ کام شروع کرے گا اوراس سے کہیں زیادہ کما لے گا جو اسے جناح ہسپتال میں تنخواہ ملتی ہے۔ اس سے جناح ہسپتال میں اس عظیم الشان خدمت کو سرانجام دینے والے گوہر اعجاز کی کوششوں کو بھی دھچکا پہنچے گا۔
میرا دوسرا مسئلہ وہ ہے جو میاں نواز شریف نے آج سے بائیس چوبیس برس پہلے بیان کیا تھا کہ انہیں ورکرز کہتے تھے کہ قدم بڑھاو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر جب انہوں نے قدم بڑھائے اور اس پر ان کی حکومت ختم ہوئی، انہوں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ان کے ساتھ تو کیا دور دور تک پیچھے کوئی نہیں تھا۔ مسئلہ اب بھی یہی ہے کہ اگر ہم دوستوں کو پریشان اور شرمندہ کرتے رہیں گے تو پھر ہمارے ساتھ کون ہوگا، معذرت کے ساتھ، وہ تو نہیں ہوں گے جو لیپ ٹاپ لے رہے ہیں یا سکالرشپس کہ یہ تو پہلے بھی ساتھ نہیں تھے۔ میری پوری ایمانداری سے رائے ہے کہ شبیر چوہدری کو ہٹایا جانا شبیر چوہدری کا مسئلہ نہیں ہے، یہ غریب مریضوں کا مسئلہ ہے، یہ مسلم لیگ نون کا مسئلہ ہے۔