Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Josh Aur Hosh

Josh Aur Hosh

جوش اور ہوش

سیاست جوش اور ہوش کا مرکب ہے، اسے صرف جوش سے نہیں کیا جا سکتا اور صرف ہوش بھی اس کا لطف اور مزا اُڑا دیتا ہے۔ بات اعتدال کی ہے اور اس کی ذمے داری بہرحال لیڈر پر عائد ہوتی ہے کیونکہ بے چارے کارکن تو لیڈر کی کال پرگولیاں چلانے اور گولیاں کھانے تک تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس وقت تحریک لبیک اور سعد رضوی زیر بحث ہیں مگر میں تمام ہی سیاستدانوں کی بات کر رہا ہوں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیجئے، ظاہر ہوجائے گا کہ جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینے والے کامیاب رہے۔ وہ پاکستان کے مخصوص سیاسی منظرنامے میں ہوش کے ساتھ اقتدار میں آئے، جوش میں باہر بھی نکالے گئے مگر پھر ہوش کا دامن تھام لیا۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ تحریک لبیک پر پابندی کی تمام تر ذمے داری سعد رضوی پر عائد ہوتی ہے جو حالات کا درست ادراک نہیں کرسکے۔ سچ یہ ہے کہ رواں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط میں تحریک لبیک کو مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک ختم کرنے کے لئے لانچ کیا گیا تھا کیونکہ خیال کیا جاتا تھا کہ پیروں فقیروں کو ماننے والے بریلوی مکتبہ فکر کی اکثریت نواز شریف کے ساتھ ہے۔

خیال یہ بھی تھا کہ سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد بنانے والے مکاتب فکرکے مقابلے میں بریلوی پر امن ہیں، ان کے پاس بندوق نہیں ہے لیکن پیپلزپارٹی کے گورنر پنجاب کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران پھانسی کو مسلم لیگ نون کے خلاف بریلوی مکتبہ فکر کو ان سے برگشتہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا حالانکہ وہ پھانسی حکومت نے نہیں سپریم کورٹ نے دی تھی۔ میں اس وقت کے کئی وزرا کے خیالات سے آگاہ ہوں جو چاہتے تھے کہ پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوجائے۔ بریلوی مزاج کے برعکس لبیک والے مریدکے جیسے احتجاجوں کے عادی تھے کہ ہر مرتبہ فیض حمید گروپ کی پشت پناہی سے نہ صرف اپنے مقدمات ختم کروا کے اور قیدی رہا کروا کے واپس آتے تھے بلکہ مال بھی اینٹھ لاتے تھے۔

میں پھر کہوں گا کہ سعد رضوی حالات کا درست ادراک نہیں کرسکے۔ ا ن کا فلسطین کے مظلوموں سے اظہاریکجہتی کا وقت بھی غلط تھا یعنی دو برس تک اسرائیل غزہ میں موت کی بارش کرتا رہا تو انہیں جلسے جلوس یاد نہ آئے اور جب امن معاہدہ ہوگیا تو یہ احتجاج کے لئے باہر نکل آئے۔ ان کی یہ ضد بھی فضول تھی کہ انہوں نے وفاقی دارالحکومت جا کے ہی احتجاج کرنا ہے کہ فلسطین کون سا روات یا بارہ کہو کی جگہ پر تھا کہ یہ اسلام آباد پہنچ کر ہی اظہار یکجہتی کر سکتے تھے۔ انہیں لاہور کے مینار پاکستان کا آپشن دیا گیا مگر یہ درست فیصلہ نہ کرسکے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ٹی ایل پی ہو یا ٹی ٹی پی، فیض حمید اور عمران خان کے سارے غلط فیصلوں کو ریورس کرنے کا درست فیصلہ ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور مفتی منیب الرحمان سمیت بہت سارے بڑوں نے ان سے رابطے کئے، مجھ جیسے ناچیز نے کالم بھی لکھے اور سوشل میڈیا پر بھی مگر یہ جوش میں تھے۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ جو صرف جوش سے سیاست کرتا ہے وہ مارا جاتا ہے۔ اگر کوئی مجھے یہ کہے کہ وہ ہاتھ کی طاقت سے ٹرین روک لے گا تو میں اسے سمجھائوں گا کہ اس کے لئے بریک کا استعمال کرے ورنہ کچلا جائے گا۔ سچ پوچھیں تو میری نظر میں اسلامی تاریخ کے دو بڑے لیڈر ہیں، ایک میرے مولا اور آقا حضرت محمد ﷺ جن کے پاس رب کی دی طاقت تھی، جو دعا کرتے تھے وہ رد نہیں ہوتی تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے مکہ چھوڑا اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

انہوں نے صلح حدیبیہ کی جس کے بارے میں خود صحابہ کو ملال ہوا کہ شائد وہ نقصا ن کا سودا ہوگیامگر قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے اسے فتح مبین قرار دے دیا۔ انہوں نے بدر کے میدان میں اگر تین سو تیرہ کے ساتھ اپنے سے تین چار گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کیا تو اس کے ساتھ خندق کھو د کے اپنے شہر کے دفاع کی حکمت عملی بھی اپنائی اور اس جدوجہد کی انتہا کتنی پرامن تھی جسے ہم فتح مکہ کے نام سے جانتے ہیں اوران کے بعد قائداعظم محمد علی جناح جنہوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا، مدینے کے بعد پاکستان کی صورت دوسری کلمے کی بنیاد پراسلامی نظریاتی ریاست بنا دی، برصغیر کیا دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا مگر وہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی گرفتار نہیں ہوئے، انہوں نے کبھی نو مئی یا چھبیس نومبر جیسی کالز نہیں دیں۔

بہت سارے احمق تنقید کرتے ہیں مگر میں شہباز شریف کی تعریف کرتا ہوں کہ نواز شریف او ر مریم نواز کی آمد پر انہوں نے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ہونے کے باوجود لاہور ائیرپورٹ پر حملہ نہیں کیا ورنہ ان کے کارکن بھی اسی طرح زندگیاں تباہ کئے بیٹھے ہوتے جس طرح عمران خان کے حا می دہشت گردی کے مقدمات میں سزائیں پا کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی جوش کے ساتھ ہوش کی سیاست کی اور یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار اقتدار میں آجاتے ہیں۔ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی بڑی کوئی مثال ہوگی جنہوں نے اپنے والد کے عدالتی قتل کے خلاف تحریک تو ضرور چلائی مگر جب الیکشن ہوئے تو ہوش سے کام لیا۔

مجھے تحریک لبیک کے اس انجام پر افسوس ہے۔ یہ جماعت جیسے بھی بنی مگر اب یہ ایک بڑی سیاسی جماعت تھی۔ اس نے پنجاب میں اتنے ووٹ لئے تھے کہ اگر متناسب نمائندگی پر سیٹوں کی تقسیم ہوتی تو اس کی صوبائی اسمبلی میں کم و بیش چالیس نشستیں ہوتیں۔ اس پارٹی نے کراچی جیسے شہر میں بلاول بھٹو زرداری کو ووٹوں میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے سوشل میڈیا میں پوٹینشل تھا مگر میں پھر کہوں گا کہ اس میں غلطی کسی کارکن کی نہیں لیڈر کی ہے۔ لیڈر نے ہی جوش اور ہوش کے درمیان توازن قائم رکھنا ہوتا ہے۔

سیاست کی شطرنج پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کب مہروں کو آگے بڑھانا ہے اور کب پیچھے کرنا ہے۔ اس جیسی غلطی عمران خان نے کی اور اس کا خمیازہ وہ ابھی تک بھگت رہے ہیںکیونکہ وہ ستر، اسی برس کی عمر میں بھی ہوش سے کام لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھنا اور یہی وجہ ہے کہ آج ملک کا بڑا اخبار بلاخوف تردید اپنی تجزیاتی سیکنڈ لیڈ لگاتا ہے کہ وہ اگلے برس کیا اس سے بھی آگے تک جیل میں رہیں گے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ پوری زندگی ہی جوش اور ہوش میں تواز ن کا نام ہے اور جو اس میں تواز ن نہیں رکھ پاتے وہ گھاٹے میں رہ جاتے ہیں۔ آپ کوئی بھی گاڑی مسلسل ریس دے کر یا مسلسل بریک پر پاؤں رکھ کے نہیں چلا سکتے، کیا سمجھے؟

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam