Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Jathe Na Qabil e Qabool Hain

Jathe Na Qabil e Qabool Hain

جتھے ناقابل قبول ہیں

مُریدکے میں جو کچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا اور یہی سب عمران خان کے دور میں بھی اچھا نہیں ہوا تھا۔ میں تو پی ٹی آئی کے ساتھ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اسے بھی اچھا نہیں سمجھتا اور پی ٹی آئی نے اس سے پہلے جی ایچ کیو وغیرہ پر حملے کرکے جو کچھ کیا تھا اسے بھی۔ نجانے کیوں ہم سیاست میں انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ مجھے کسی حکومتی وزیر یا فوج کے افسر نے کچھ نہیں بتایا مگر بطور سیاسی تجزیہ کار حالات وواقعات کو دیکھ کے اندازہ لگایا ہے کہ نومئی اور چھبیس نومبر والے واقعات کے بعد اب جتھے ناقابل قبول ہیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، خاص طور پران کا اسلام آباد میں داخلہ بند ہے جو وفاقی دارالحکومت ہے، بین الاقوامی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز۔

تحریک لبیک والوں سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ جب دوبرس تک غزہ میں ظلم ہوتا رہا، سڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر دئیے گئے یعنی ہر گھنٹے میں تقریباً چار، ان میں بیس ہزار سے زائد بچے تھے یعنی ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک بچہ، وہاں کی اسی سے نوے فیصد تک عمارتیں کلی یا جزوی طور پر کھنڈر بنا دی گئیں نہ سکول چھوڑے گئے اور نہ ہی ہسپتال تو ان دوبرسوں میں انہوں نے کتنی مرتبہ فلسطین والوں سے اظہار یکجہتی کیا اور جب امن معاہدہ ہونے لگا تو مظاہرہ، احتجاج اور اظہاریکجہتی یاد آ گیا اور وہ بھی اسلام آباد میں۔

ایک ویڈیو کلپ گردش میں ہے جس میں سعد رضوی مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں مگر اس سے پہلے مذاکرات کے جو پانچ دور ہوئے ان کے بارے کیا کہیں گے۔ جب مفتی منیب الرحمان اور مولانا فضل الرحمان جیسی معتبر اور معزز شخصیات درمیان میں پڑیں، کہا گیا کہ اگر اظہار یکجہتی ہی کرنا ہے تو لاہور کے مینار پاکستان پر کر لو تواس پیشکش کو کیوں ٹھکرایا گیا۔ امن معاہدے کے موقع پر اسلام آباد پہنچنا کیوں ضروری تھا اور وہ بھی امریکی ایمبیسی کے سامنے تاکہ پاکستان اورامریکہ کے بہتر بلکہ شاندار ہوتے تعلقات کو خراب کیا جا سکے۔

یہ ایجنڈا کسی پاکستا نی کا تو نہیں ہوسکتا کسی ہندوستانی کا ضرو ر ہوسکتا ہے، اس مُودی کا ہوسکتا ہے جو د س مئی کو عبرتناک شکست کھانے کے بعد ہندوستان میں چھُپا بیٹھا ہے کیونکہ باہر نکلتا ہے تو ذلیل ہوتا ہے جیسے ایس سی او کانفرنس میں ہوا اوراس کے بعد اس نے ہمت ہی نہ کی کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے80 ویں اجلاس سے جا کر خطاب کرتا یا مشرق وسطیٰ میں امن کے اہم ترین موقع پر دنیا کے بیس، پچیس اہم ممالک کے درمیان موجود ہوتا۔

ہمیں کس چیز کی تکلیف ہے کہ ہمارا ملک سعودی عرب، انڈونیشیا، مصر، ترکی، یو اے ای، قطر او راردن وغیرہ کے ساتھ مل کر وہاں امن کیوں یقینی بنا رہا ہے، وہاں بمباری کیوں رکوا رہا ہے، وہاں امن فوج تعینات کرنے کی راہ کیوں ہموار کر رہا ہے یا وہاں اسرائیل کی قید میں ہزاروں فلسطینی رہائی کیوں پا رہے ہیں۔ اگر کوئی امن معاہدے کے خلاف ہے تو کیا وہ حماس سے زیادہ فلسطینیوں کے مفادات کا محافظ اور ان کا سگا ہے جس نے جانوں کے نذرانے پیش کئے، جس کے رہنمائوں کے بچے اور پھر ان کے بچے بھی مار دئیے گئے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اگر غزہ میں جشن ہے تو میں بھی اس کا جشن منائوں گا۔

میں قطعی طور پر تحریک لبیک والو ں پر امن معاہدے کی اپنی تشریح لاگو نہیں کرتا اور کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کررہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس اس کا ثبوت کیا ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم، فوج کا ترجمان، وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات سب کہہ رہے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں اس پر ضرور سٹینڈ لوں گا کہ کسی بھی ایک دھڑے یا جتھے کو خود کو مسلمان سمجھنے اور دوسروں کوغدار سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وزیراعظم شہباز شریف خود ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد میاں محمد شریف کی دین سے وابستگی اظہر من الشمس ہے اور اسی طرح فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر سید بھی ہیں اور حافظ قرآن بھی۔

تحریک لبیک والوں کو بتا دیا گیا تھا کہ آپ کے ساتھ ڈھاٹے باندھے، منہ چھپائے ہوئے لوگ ہیں، آدھوں کے ہاتھ میں ڈنڈے ہیں، کئی ایسے ہیں جن کے پا س آتشیں اسلحہ ہے سو اس جلوس کو اسلام آباد میں داخلے اور بالخصوص ریڈ زون تک پہنچنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ ہم انٹرنیشنل میڈیا پر اسلام آباد کی یہ تصویریں اور ویڈیوز نہیں چلا سکتے جس قسم کی لاہور کے ملتان روڈ، شاہدرہ اور پھر مریدکے سے چلیں۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ پوری دنیا میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کی اجازت ہے تو کئی باتوں کو چھپا جاتے ہیں، پہلی بات یہ کہ پاکستان میں بھی اجازت ہے مگر ہراجازت قانون کے تابع ہوتی ہے۔

کیا جماعت اسلامی نے مظاہرے نہیں کئے اور کیا کراچی، لاہور، ملتان، پشاور میں مظاہرے نہیں ہوسکتے کہ وہاں سے اظہار یکجہتی، اظہار یکجہتی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بلوائیوں کے ہاتھوں ایک ایس ایچ او شہید ہوا، چالیس سے زائد زخمی ہوئے او ران سے سترہ کوگولیاں لگی تھیں یعنی باقاعدہ مقابلہ، ایسے مقابلے کوئی ریاست برداشت نہیں کرتی۔

میں اس امر کا بطور صحافی گواہ ہوں کہ تحریک لبیک کو آپریشن سے پہلے وارننگ دی گئی۔ جس وقت آئی جی پنجاب مریدکے پہنچے اس کے بعد نہ صرف اعلیٰ سطح سے ذاتی طور پر بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی خبردار کیا گیا مگر تحریک لبیک والے مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھے۔ ان کی وجہ سے موٹرویز اور ہائی ویز بند تھیں، حکومت نے کئی شہروں کے آنے اورجانے والے راستے بند کر رکھے تھے کیونکہ انہوں نے ملتان روڈ سے آغاز ہی اینٹوں اور پتھروں کے ساتھ کیا تھا بلکہ اس سے پہلے عمران خان کے دور میں بھی ان مظاہروں کی تاریخ کوئی شاندار نہیں ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اب جو لوگ تین سو اور پانچ سو شہادتوں کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں وہ اس سے پہلے قرار دے رہے تھے کہ ٹی ایل پی نکلی ہی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہے۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ کہیں بھی ریاست کے ساتھ مقابلہ کرو اور پھر سوال اٹھادو کہ گولی کیوں چلائی، کئی سو اموات کا جھوٹ بولو اور جب لاشوں کے بارے پوچھو تو جواب ملے کہ وہ پولیس نے غائب کر دی ہیں، میرا سوال ہے کہ کیسے، کیا وہ روسٹ کرکے کھا گئے؟

ہوتا کچھ یوں ہے کہ لیڈر تو سیاسی فائدہ اٹھا لیتا ہے مگر مارے غریب جذباتی کارکن جاتے ہیں اور اگر مارے نہ بھی جائیں تو ان پر دہشت گردی کے پرچے ہوجاتے ہیں جو عمر بھر کا عذاب ہے۔ مجھے یہاں سیاسی رہنمائوں سے نہیں بلکہ والدین سے کہنا ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ انہیں ایسے جتھوں کا حصہ نہ بننے دیں جو سیاست یا مذہب کے نام پر اپنی ہی ریاست سے ٹکرانے نکلے ہوں۔ آپ کوئی انقلاب نہیں لا رہے ہیں، ایسی سیاست سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan