عمران خان کا خطرناک کھیل

تحریک انصاف کے بانی عمرا ن خان کا کھیل خطرناک مرحلے میں داخل ہوگیا ہے، ا تنے ہی خطرناک مرحلے میں جتنے خطرناک مرحلے میں شیخ مجیب الرحمان کا کھیل پہنچا۔ میں نے مقبول اینکر منصور علی خان کے شو میں اس کی نشاندہی کی مگر بات پوری طرح واضح نہ ہوسکی حالانکہ میں نے کہا یہ ریڈ لائن اسی طرح عبور کی گئی ہے جس طرح نو مئی کو کی گئی تھی یا پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کے ذریعے۔
یہ اس سے زیادہ خطرناک ہے جس میں پاک فوج کے ہائی اپس کے خلاف ذاتی سطح پر سوشل میڈیا مہمات چلائی گئیں۔ اس خطرناک کھیل کی علامت ہے علی امین گنڈا پور کا جبری استعفیٰ اور سہیل آفریدی کی بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزدگی۔ بہت سارے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پہلی مرتبہ منتخب ہونے والے آفریدی کی نامزدگی کا میرٹ کیا ہے تو اس کا جواب ہے کہ وفاداری اور مکمل جواب ہے کہ ریاست سے بھی زیادہ عمران خان کی وفاداری۔ اس بات کو مکمل سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ہوگا کہ علی امین گنڈا پور کو کیوں نکالا گیا۔
اس کی فوری وجہ علیمہ خان کے ساتھ ان کا ٹکراؤ بنا یعنی ایک پارٹی جو کہتی ہے کہ وہ موروثیت کے خلاف ہے، اس کا بانی اپنی بیوی کے کہنے پر آدھے پاکستان کو عثمان بزدار جیسے نااہل کے حوالے کر دیتا ہے اور اپنی بہن کے کہنے پر اپنی مقبولیت والے حساس ترین صوبے میں وزیراعلیٰ کو گھر بھیج دیتا ہے، کہاں گئی جمہوریت؟ بہرحال، علی امین گنڈا پور کو نکالنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اپنا گروپ بنا رہا تھا اور تیسری اہم ترین وجہ یہ کہ اس نے خیبرپختونخوا میں بانی پی ٹی آئی کے مذموم عزائم اس طرح پورے نہیں کئے جس طرح وہ چاہتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے مذموم عزائم کیا ہیں، تو وہ نو مئی کا ہی تسلسل ہیں۔ بانی پی ٹی آئی، خیبرپختونخوا میں وفاق، ریاست، فوج یا اسٹیبلشمنٹ (جو مرضی کہہ لیں ) کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور وہ بھی دہشت گردوں کے سامنے۔ یہ کوئی ہوا میں کھڑا الزام نہیں ہے بلکہ اپنا مکمل سیاق و سباق رکھتا ہے جیسے انہوں نے ہزاروں لوگ افغانستان سے امپورٹ کئے اور خیبرپختونخوا میں بسا دئیے جن کا دھندا ہی دہشت گردی تھا۔ جیسے انہوں نے غیر قانونی افغانوں کو پاکستان سے نکالنے کے خلاف علی امین کو مزاحمت کا حکم دیا، مزاحمت تو نہ ہوسکی مگر اتنا ضرور ہوا کہ خیبرپختونخوا کی پولیس اور ایجنسیاں لاتعلق ہوگئیں، غیر مؤثر ہوگئیں یعنی انہوں نے کوئی کردارادا نہیں کیا۔
یہ وہی پالیسی ہے جس کے تحت پی ٹی آئی پاکستان میں طالبان کا دفتر کھولنا چاہتی تھی اور اب بھی اس کے لوگ سمگلنگ کی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ جب ہم دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو سمگلنگ اور منشیات سمیت جرائم سے کمایا ہوا پیسہ دہشت گردی پر خرچ کیا جاتا ہے تاکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بدامنی رہے اوراس بدامنی کے ذریعے دہشت گرد اپنا کنٹرول اپنے اپنے اضلاع پر بنائے رکھیں۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں اسے جرائم اور دہشت گردی کا نیکسس، قرار دیا گیا ہے جو سوفیصد درست ہے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ عمران خان اسی طرح خیبرپختونخوا کا شیخ مجیب بننا چاہتا ہے جس طرح وہ مشرقی پاکستان کا تھا۔ وہ اسی کی طرز پر وفاق اور فوج کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بہت سارے محب وطن حلقوں اور تجزیہ کاروں کو علی امین گنڈا پور پر تحفظات تھے مگر یہ بات بھی درست ہے کہ اصل تو اب پتا چلے گا جب ایک ایسا وزیراعلیٰ سامنے لایا جائے گاجس کے بھارت کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات کی خبریں زیر گردش ہیں، جو سمگلنگ کا حامی ہے اور جس کی شہرت دہشت گردوں کے سہولت کار اور حامی کی ہے اور اسے عمران خان کا ذاتی وفادار قرار دیا جا رہا ہے یعنی وہ صوبہ جو پہلے ہی افغانستان سے جڑے ہوئے اضلاع کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہے وہاں مزید خطرات پیدا ہونے جا رہے ہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے بغیر کسی شرم اور جھجک کے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے بانی کے حکم پر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے مقدس فریضے میں وفاق اور فوج کو ناکام بنانا چاہتی ہے۔
وہ کھل کے کہہ رہے ہیں کہ وہ وفاق (اور فوج) کو مزاحمت دی جائے گی تواس کا کیا مطلب ہے۔ سب سے بدترین صورتحال یہ ہے کہ ایک ایسا نفرت انگیز بیانیہ بنایا جا رہا ہے جو سب کچھ جلا کے راکھ کر سکتا ہے اور خیبرپختونخوا کے عوام کو کارکردگی کی بجائے اس کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ وہ صوبہ جس کے دارالحکومت کے بھی بعض علاقوں میں آپ رات کے وقت نہیں نکل سکتے اور خیبرپختونخوا کے سینئر اور معتبر صحافی ارشد عزیز ملک بتا رہے تھے کہ قبائلی علاقوں میں تو آپ دن کے وقت بھی آزادانہ نقل وحرکت نہیں کرسکتے۔
سہیل آفریدی کی نامزدگی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ظاہر کر دیا ہے کہ توشہ خانہ چوری اور ایک سو نوے ملین پونڈ جیسے واضح کرپشن کیسز میں سزا یافتہ عمران خان اب حواس باختہ ہوچکے ہیں۔ وہ اپنی آزادی اور پاکستان کی تباہی کے لئے کوئی بھی پتا کھیلنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ اگر علی امین گنڈا پور کو اس لئے ہٹایا جاتا کہ وہ سیلاب میں لوگوں کی مدد کرنے میں ناکام رہے، صوبے کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور عوام کو ریلیف دینے میں بھی تو ہم میں سے کوئی اس تبدیلی پر اعتراض نہ کرتا مگر یہ تبدیلی دہشت گردی اور امن و امان کی بد صورتحال کو بدترین میں بدلنے کے لئے کی گئی ہے تاکہ وفاق اور فوج پر دبائو بڑھایا جاسکے۔
عمران خان نے صوبوں میں ہمیشہ بدترین چوائسز کی ہیں تاکہ ان کے نیچے کوئی باصلاحیت بندہ نہ آسکے اور ان کی قیادت کو چیلنج نہ کرسکے۔ پچھلے دور میں کے پی کے محمود خان ہوں یا پنجاب کے عثمان بزدار، وہ بھی اسی تشریح پر پورا اترتے ہیں۔ یہ بات برداشت کی جاسکتی ہے کہ آپ ایک نااہل اور نکما وزیراعلیٰ دے دیں جو تعمیر وترقی کے حوالے سے زیرو ہو مگر کیا یہ بات بھی برداشت کی جاسکتی ہے کہ آپ ایک ایسا وزیراعلیٰ دیں جو دہشت گردی کی جنگ میں عمران خان کے حکم پر دہشت گردوں کا ساتھی اورمعاون ہو، وفاق اور فوج کا مخالف، امن اور سلامتی کا مزاحم ہو۔
یہ ایک بہت ہی خطرناک کھیل ہے جو سیاست اور جمہوریت کے نام پر شروع کیا گیا ہے۔ کیا اس کے نتیجے میں عمران خان رہا ہو سکیں گے اور اقتدار میں آسکیں تو میرا جواب ہے کہ وہ دن بہ دن رہائی اور اقتدار سے دور ہوتے چلے جار ہے ہیں اور جس کے وہ نزدیک ہو رہے ہیں میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، اس کا ذکر ان کی بہن علیمہ خان کئی مرتبہ کرچکی ہے۔ ایسے انجام سے پہلے شیخ مجیب بھی دوچار ہوچکا ہے مگر ہمارا ٹارگٹ یہ ہے کہ نیا شیخ مجیب اپنے انجام سے پہلے اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو۔

