آرمی چیف نے کڑاکے نکال دیئے
بہت سوچا مگر مجھے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کے جناح کنونشن اسلام آباد میں یوتھ کنونشن سے مدلل اور اہم خطاب کا اس سے بہتر دوسراکوئی عوامی عنوان ہی نہیں ملا۔ سوال بہت سارے تھے اور ان کے تفصیلی جواب بھی۔ کچھ رپورٹ ہوئے کچھ نہیں مگرمیرا خیال ہے کہ بہت ساروں کا سیاق و سباق سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں پروپیگنڈے کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے جیسے سیاسی عدم استحکام کا سوال۔
پہلے یہ تعریف بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم ہوں، سپہ سالار ہوں یا آئی ایس آئی کے سربراہ، سب نوجوانوں کے ساتھ مکالمے کر رہے ہیں۔ وہ نوجوان جنہیں پروپیگنڈے کا شکار کیا گیا، گمراہ اور مایوس کیا گیا۔ آج کے نوجوان کی سمت درست کرنے کا مطلب ہے ہم نے اگلے پچاس برسوں کے لئے اپنی سمت درست کر لی۔ انہیں پرامید، ذمے دار اور فرض شناس بنا لیا تو ہم نے اپنا مستقبل شاندار بنا لیا۔
سب سے اہم بات سب سے پہلے کر دوں، آرمی چیف سے سیاسی عدم استحکام کا سوال کیا گیا تو انہوں نے پارلیمنٹ کی پانچ برس کی مدت کی اہمیت پر زور دیا۔ ویسے یہ بات دیکھنے اور سمجھنے والی ہے کہ اس صدی کے آغاز سے اب تک، جب ربع صدی گزرنے والی ہے، ہماری ہر پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے اگرچہ اس دوران بڑے بڑے بحران آئے، کہنے والوں نے کہا کہ آج قومی اسمبلی ٹوٹی اور کل ٹوٹی، آج مارشل لا لگا یا کل لگا مگر حکومتوں کے تبدیل ہونے کے باوجود، الحمدللہ، آئین اور جمہوریت کا تسلسل رہا۔
آرمی چیف نے کہا، پاکستان کے عوام پانچ برس کے لئے پارلیمان کو منتخب کرتے ہیں اور اس دوران جمہوری طریقے سے اگر حکومت یا اس کا سربراہ تبدیل ہو جائے تو اسے سیاسی عدم استحکام سے تشبیہ دینا یقینا ایک منفی پروپیگنڈے کا حصہ ہے،۔ اس ضمن میں انہوں نے مدر آف ڈیموکریسی، برطانیہ اور سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ہندوستان کی بھی مثالیں دیں جہاں پارلیمان کے پانچ سال کی مدت کے دوران متعدد فعہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں۔
جنرل سید عاصم منیر سے نگران حکومتوں کی تین ماہ سے زائد کی مدت پر بھی سوال ہوئے، آرمی چیف نے آئین اور قانون کی بالادستی کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا، کوئی بھی نگران حکومت انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت کو ذمے داری تفویض کئے بغیر نہیں جاسکتی، انتخابات میں اب تک ہونے والی تاخیر بھی آئینی تقاضوں یعنی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے ہوئی اور بعدا زاں انتخابات کی تاریخ کا تعین عدالتی سکروٹنی کے بعد کیا گیا۔ پاک فوج کے سپہ سالار نے کہا، جیسے ہی انتخابات کا عمل مکمل ہوگا نگران حکومت اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائے گی۔ سوال حضرت عمرؓ کے دور خلافت کا بھی ہوا۔
آرمی چیف نے جواب دیا، جب ہمارے عوام دورِ عمر کی خوبیوں کے حامل ہوں گے تو ان کے حکمران بھی حضرت عمرؓ کے طرز کی حکمرانی کرسکیں گے۔ پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کا محور طاقت ہے۔ جو حکومت میں ہے وہ حکومت چھوڑنا نہیں چاہتا اور حکومت سے باہر بیٹھے سیاسی عناصر جلد از جلد اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اداروں میں موجود سب لوگ اچھے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان پارٹیوں اور اداروں کے افراد اسی معاشرے کی پیداوار ہیں اور افراد کا ان اچھائیوں اور برائیوں سے اثر لینا ایک فطری عمل ہے۔ ملک کی بہتری کے لئے میں نے اور آپ نے، ہم سب نے اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی ہے،۔
اس وقت بات بلوچستان کی بھی ہو رہی ہے اور گلگت بلتستان کی بھی۔ گلگت بلتستان کے حقوق بارے کئے گئے سوال کے جواب میں آرمی چیف نے زور دے کر کہا کہ ہم سب کی شناخت پاکستان ہے۔ جوشناختی کارڈ اور پاسپورٹ گلگت بلتستان والوں کے پاس ہے وہی میرے پاس بھی ہے اور یہی شناخت ہمیں متحد رکھے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر طرح کے منفی پروپیگنڈے کے اثرات سے بچتے ہوئے تمام منفی رجحانات کی حوصلہ شکنی کریں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر بڑھتے پروپیگنڈے بارے اس بات پر زور دیا کہ ہمارا مذہب ہمیں کسی بھی بات پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کا حکم دیتا ہے۔
ہمارے ملک بارے پھیلایا جانے والا جھوٹا پروپیگنڈا ہمارے ملک کو میسر اللہ تعالی کی نعمتوں سے رُو گردانی ہے۔ ہمیں اپنے ملک، اس کی افرادی قوت اور اس میں موجود قدرتی وسائل اور سب سے بڑھ کر اپنی قومی شناخت پر اعتماد اور فخرہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو مزید واضح کرتے ہوئے آرمی چیف نے شرکاء کو متنبہ کیا کہ ان منفی اثرات سے بچاؤ ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔ من گھڑت پروپیگنڈے کرنے کا مقصد مایوسی پھیلانا ہے۔ اب یہ آپ پر لازم ہے کہ اس مایوسی کو نظر انداز کرکے اپنی خود اعتمادی پر بھر وسہ کریں۔
آرمی چیف نے پاکستان بننے کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ پاکستان کی بنیاد برصغیر کے مسلمانوں کی مجموعی سوچ کی عکاس تھی۔ بر صغیر کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ مذہب اور اسلامی تہذیب و تمدن ہندووں سے یکسر مختلف ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے دونوں قومیتوں کا ساتھ رہنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آج کا نوجوان ہندو تسلط سے چھٹکارا پانے کے بعد مغربی تہذیب کی طرف راغب ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب اللہ تعالی نے ہمارے دین کو کامل قرار دے دیا تو ہمیں اس کی تعلیمات پر پورا یقین ہونا چاہیے، یہ یقین ہماری خود اعتمادی کا محور ہے۔ سو پاکستان ہے تو ہم ہیں، پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
میں نے مشاہد حسین کا مشہور فقرہ کیوں کہا کہ آرمی چیف نے کڑاکے نکال دئیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے خطاب نے بہت کچھ واضح کر دیا، سمجھنے والوں کے لئے اس میں بہت اشارے ہیں۔ پہلا اشارہ یہ ہے کہ اب سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم نہیں کیا جا سکے گا۔ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ اور مایوسیاں پھیلانا بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہمارا گلاس آدھا خالی نہیں بلکہ آدھا بھرا ہوا ہے۔ تیسرا اشارہ یہ کہ پاکستان کے قیام اور اس کے نظرئیے پر بھی کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا۔ یہ بات برداشت نہیں کی جائے گی کہ سیاسی اختلاف پر آپ ریاست کے قیام اور وجود ہی کے دشمن ہوجائیں۔
پاکستان ہم سب کے لئے مادر وطن ہے اور کوئی پاکستانی اپنی ماں کی حرمت کے خلاف بات برداشت نہیں کرسکتا، اس کی طرف اٹھا ہوا ہاتھ برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ نوجوانوں نے ایران کے ساتھ تنازعے کے حل میں آرمی چیف کے جرأت مندانہ کردار کو بے حد سراہا لہٰذا جب یوتھ کنونشن میں پاکستان آرمی زندہ باد، پاکستان زندہ باد اور قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگے تودل یقین سے بھر گیاکہ ہم نے اپنے وطن، قوم اور فوج کے خلاف ایک بڑی جنگ جیت لی ہے۔