آنڈے، آلو اور گونگلو
میں نے ایک یونیورسٹی میں ریکارڈ کئے گئے ایک پروگرام میں ایک خوبصورت اور سمارٹ لڑکی کو شکوہ کرتے ہوئے دیکھا کہ پنجاب کالج میں زیادتی کے واقعے پر کسی کوسزا نہیں دی گئی بلکہ اسے چھپایا گیا، اسے تحفظ دیا گیا۔ باخبر اور ہوشیار اینکرنے اس لڑکی سے پو چھا کہ اس واقعے میں متاثرہ لڑکی کا نام کیا ہے تواسے نام کا علم نہیں تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا۔
تمام تحقیقاتی اور تفتیشی ٹیمیں قرار دے چکی ہیں کہ یہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی ایک فیک نیوز تھی۔ جس گارڈ پر الزام لگایا گیا وہ اس روز اپنے گاؤں میں تھا۔ جس لڑکی کا نام سوشل میڈیا پر لیا گیا اس نے ایک ویڈیو بنا کے بتا دیا کہ وہ کئی برس پہلے پنجاب کالج کی طالبہ تھی اور اب تو اس کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ اس دوران اس کالج کے طالب علموں نے بہت سارے آؤٹ سائیڈرز کے ساتھ مل کے ہنگامے بھی برپا کئے اور اپنے ہی کالجوں پر حملے کرکے وہاں توڑ پھوڑ بھی کی مگر ان میں سے کسی ایک کے پاس بھی اس پوری حرام زدگی، کی نہ کوئی دلیل تھی اور نہ ہی کوئی ثبوت۔
میرا شکوہ کسی طالب علم اور کسی نوجوان سے نہیں ہے بلکہ اس نظام تعلیم سے ہے جو آنڈے، آلو، اور گونگلو، تو پیدا کر رہا ہے مگر تحقیق کرنے والے دماغ نہیں۔ میں نے کہا کہ ہمارے نوجوان سوال نہیں کرتے تو ایک گونگلو نے کہا کہ وہ سب سے زیادہ سوال کرتے ہیں، سوشل میڈیا ان کے سوالوں سے بھرا پڑا ہے۔ میں اس کی با ت پر ہنس پڑا۔ میرا کہناتھا کہ شعور اس کا نام نہیں کہ تم جس کے مخالف ہو اس سے سوال کرو اور بہادری بھی اسے نہیں کہتے کہ تم اپنی شناخت چھپا کے سوشل میڈیا پر گالی دو، شعور اور بہادری اس سے بالکل الٹ ہوتے ہیں۔
ہمارا نظام تعلیم شاہ دولہ کے چوہے پروڈیوس کر رہا ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے دماغ ہیں اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں مگر ان کی زبانیں بہت لمبی ہیں جو باہر کی طرف نکلی ہوئی ہیں، ان کے مونہوں سے ہروقت تھوک نکل رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں شاہ دولہ کے چوہے اس وقت خوشی سے نہال ہو گئے جب وزیراعظم شہباز شریف پہلے سعودی عرب میں عرب اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس کے بعد آذر بائیجان میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کامقدمہ لڑنے کے لئے گئے۔ انہوں نے وہاں پر مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان دنیا بھر میں پید ا ہونے والی زہریلی گیسوں کا آدھا فیصد بھی جنریٹ نہیں کر رہا مگر وہ ان کے باعث پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔
ہم پچھلے پندرہ برسوں میں د و بڑے سیلابوں کا سامنا کر چکے ہیں، پہلے سیلاب میں دو ہزارا فراد جاں بحق ہوئے اور دوسرے سیلاب میں سترہ سو، موخرالذکر سے ہمارا تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ اس اہم ترین موضوع پر بات کرنے کی بجائے ہماری نوجوان نسل کچھ سوشل میڈیائی جعلی دانشوروں کی اس بات پر بھنگڑے ڈال رہی تھی کہ شہباز شریف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نون کے صدر میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوا زبھی بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ شاہ دولہ کے چوہوں کی تشریح یہ تھی کہ مسلم لیگی رہنما اور حکومتی عہدیدار ملک سے فرار ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق کوئی بہت بڑا انقلاب آنے والا ہے۔
چلیں، انقلاب کی ہی بات کر لیتے ہیں جس کے لئے پی ٹی آئی کے بانی نے جیل میں بیٹھ کے اگلے اتوار اسلام آباد پہنچنے کی فائنل کال دے رکھی ہے۔ مجھے حیرت ہوگی اگراس میں کوئی بھی پڑھا لکھا اور باشعورنوجوان شریک ہوگا۔ ہم بانی پی ٹی آئی کی پہلی کالز کا نتیجہ دیکھ چکے اور بہت سارے بھگت بھی چکے ہیں۔ سچی بات تویہ ہے کہ اسلام آباد میں آگ لگانے والی کال ہو، لاہور میں پولیس پر پٹرول بموں سے حملوں والی کال ہو یا نومئی کا شرمناک ترین واقعہ ہو۔
بانی پی ٹی آئی نے نوجوانوں کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اب بھی سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو فوجی عدالتوں ہی نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مشکلات کاٹ رہے ہیں کیونکہ وہ ایک احمقانہ کال کے جھانسے میں آ گئے تھے۔ میں نوجوانوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے ماں باپ انہیں تعلیمی اداروں میں اپنا روشن مستقبل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں، انہیں ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے لئے وہاں بھاری بھرکم فیسیں ادا کرتے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ وہاں پر کسی سیاسی رہنماکے آلہ کار بن کے اوپر مقدمات کرواتے پھریں۔ اگر وہ گونگلو، انڈے یا آلو نہیں ہیں تو انہیں سوال کرنا چاہئے کہ خود بانی پی ٹی آئی کے تینوں ڈیکلیئرڈ اور ان ڈیکلیئرڈ بچے کہاں ہیں جب وہ غریبوں کے بچوں کو ریاستی اداروں کے خلاف نکلنے کی بے وقوفانہ مہم جوئی پر آمادہ کر رہا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس عمران خان کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ کو بھی مخاطب کیا ہے اور پوچھا ہے کہ کیا وہ دونوں بھی اپنے بچوں کو اس احتجاج میں لا رہے ہیں جب وہ اپنے ارکان قومی اسمبلی کو دس، دس ہزاراور ارکان صوبائی اسمبلی کو پانچ، پانچ ہزار احمقوں کو لانے کا ٹارگٹ دے رہے ہیں۔
آج کی خبر ہے کہ اسلام آباد میں دو ماہ کے لئے دفعہ ایک سو چوالیس لگا دی گئی ہے جس سے حکومت کے مُوڈ، کا اندازہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی اس احتجاج کے لئے آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کسی قسم کی اجازت لینے کا تکلف نہیں کر رہی لہٰذا یہ واضح ہو رہا ہے کہ جب قاسم، سلمان اور ٹیریان یہاں سے ہزاروں میل دور اپنے یہودی سرپرستوں کے ساتھ مامون و محفوظ ہوں گے، بانی پی ٹی آئی یہاں اپنے گونگلوؤں، آنڈؤں اور آلوؤں کی ایسی تیسی کروا رہا ہوگا۔
معاملہ صرف اتنا ہے کہ حالیہ دور میں فتنے اور انتشار کی قوتوں کا بانی اس وقت مکمل طور پر فرسٹریشن کا شکار ہو چکا ہے۔ اس نے جیل میں بیٹھ کے دیکھا کہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کے آئین ری رائیٹ کرنے کے باوجود حکومت دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترامیم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نے بہت ہی آسانی کے ساتھ سپریم کورٹ ایکٹ، آرمی، نیول اورائیرفورس ایکٹ میں بھی ترامیم کر لیں۔
یہ سمجھا جار ہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے اداروں میں کوئی بڑی بغاوت اور انقلاب جنم لیں گے مگر وہاں بھی حکومت کامیاب رہی تو اب اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ ڈو اور ڈائی، جیسی کال دینے والے کے بارے میں اس کی اپنی بہن علیمہ خان کہہ چکی ہے کہ ا س کے بھائی کے دماغ پر اثر ہو رہا ہے اوروہ ذہنی مریض بن رہا ہے۔ سو اب یہ ماں باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس سے دور رکھیں تاکہ وہ ان بہت ساروں کی برس ہا برس جیل میں نہ رہیں جنہوں نے نو مئی کو اس کی کال پرفساد برپا کیا تھا۔