گوشت خوری، بڑے غلام علی خان اور میری خالہ جان
دنیا جہان میں بلکہ ستاروں سے آگے بھی جو جہان ہیں جہاں جہاں مسلمان ہیں ان کی ثقافت، رسم و رواج اور خوراک وغیرہ بلکہ طرز تعمیر بھی اپنی سرزمین میں سے جنم لیتے ہیں، ان میں عقیدے کے سوا کچھ بھی مشترک نہیں ہے لیکن ایک ایسی شے ہے جو سب مسلمانوں، چین ہویا جاپان، یامراکو، برازیل ہو یا ٹمبکٹو۔ ایک شے ان سب میں مشترک ہے اور وہ ہے گوشت خوری اور بے پناہ گوشت خوری۔ ہندوستان سے جو مہمان کبھی آیا کرتے تھے وہ ہمیشہ ہاتھ جوڑ کر کہتے تھے، مہاراج ہم تو ایک برس میں اتنا ماس نہیں کھاتے جتنا آپ ایک ہفتے میں کھا جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو لازمی ہے کہ گوشت خور ہوں۔ اگر آپ گوشت سے پرہیز کر تے ہیں تو مجھے آپ کی مسلمانی پر شک ہوگا اور اگر آپ ویجی ٹیرین ہیں یعنی گھاس پھونس کھاتے ہیں تو بے شک آپ آرائیں ہوں، آپ اچھے مسلمان نہیں ہیں۔ ذرا سوچئے کہ آپ پل صراط کو کیسے پار کریں گے۔ وہاں گوبھی، شلجم اور بھنڈی توریاں نہیں گوشت کام آئے گا۔ کہا جاتا ہے کہ تان سین کے بعد اس خطے کے سب سے بڑے گلوکار بڑے غلام علی خان تھے۔ قصور کے رہنے والے تھے، پھر لاہور میں آن بسے اور کہا جاتا ہے کہ ریڈیو کے بخاری برادران سے تنگ آ کر ہندوستان چلے گئے، جہاں لتا منگیشکر ان کے پائوں دھو دھو پیتی تھی حالانکہ بنیاد پرست کٹڑ ہندنی ہے۔ خان صاحب بھی مسلمان ہونے کے ناتے گوشت سے رغبت رکھتے تھے، ان کے سفری سامان میں سب سے اہم آئٹم تام چینی کی ایک دیگچی تھی جس میں دیسی گھی ہوتا تھا کہ وہ صرف دیسی گھی میں بھنا ہوا گوشت ہی تناول فرماتے تھے۔ ایک بار مدراس گئے جہاں ان کی تاجپوشی ہورہی تھی اور انہوں نے ایک کنسرٹ میں پرفارم کرنا تھا۔ کنسرٹ سے ایک روز پیشتر ان کے ایک مدراسی مداح نے اپنے محل نما گھر میں ان کے لیے دعوت کا اہتمام کیا۔ مدراسی کی اہلیہ بھی لتا منگیشکر کی مانند ایک ہندو طالبان تھیں۔ انہوں نے پہلے تو ایک مسلمان گویئے کو اپنے گھر میں مدعو کرنے سے انکار کردیا کہ گھر بھرشٹ ہو جائے گا اور جب اس مدراسی نے بہت منت سماجت کی تو اہلیہ نے کہا لیکن اس گھر میں ماس ہنڈیا پر نہیں چڑھے گا، چنانچہ وہاں ڈائننگ ٹیبل پر صرف دالیں اور سبزیاں پیش کی گئیں۔ بڑے غلام علی خان گوشت تلاش کرتے رہے پھر انہوں نے ایک شوربے کی ڈش میں انگلی ڈال کر گھمائی تو مدراسی نے پوچھا استاد جی شوربے میں انگلی کیوں گھما رہے ہیں تو وہ کہنے لگے میں سوچ رہا تھا کہ شاید شوربے کی تہہ میں کوئی بوٹی موجود ہو اسے تلاش کر رہا تھا۔ دعوت کے اختتام پر استاد نے کنسرٹ کے انچارج صاحب کوبلا کر کہا "حضور ہم یہ گھاس پھونس کھا کر تو کل نہیں گا سکتے، جب تک بھنا ہوا گوشت حلق سے نہیں اترے گا حلق سے کوئی سر برآمد نہ ہوگا۔ بدقسمتی سے دیسی گھی والی دیگچی افراتفری میں ادھر ادھر ہو گئی اور خصوصی طور پر ایک ہرکارہ مارو مار کرتا پنجاب پہنچا اور وہاں سے دیسی گھی کی ایک بالٹی بھر کر لایا۔ استاد کے لیے گوشت بھونا گیا۔ جسے کھانے کے بعد استاد نے ایسی تانیں لگائیں کہ لوگ تان سین کو بھول گئے۔ یہ قصہ میں نے بڑے غلام علی خان پرایک ہندو موسیقی دان کی لکھی ہوئی سوانح میں پڑھا تھا۔ زیب داستان کے لیے نہیں لکھا۔ مسلمانوں کی گوشت پروتی کی داستان بہت طویل ہے۔ میرے ابا جی چوہدری رحمت خان تارڑ کے ایک بہت ہی جگری دوست ڈاکٹر ملک تھے جو ان زمانوں میں لاہور کے چند بہترین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی گوشت خوری کا قصہ سنانے سے پیشتر میں آپ کو ان کی زندگی کے ایک حیرت انگیز صوفیانہ پہلو سے آشنا کرتا ہوں۔ میں اپنے موضوع سے بھٹک سکتا ہوں کہ میں ایک داستان گو ہوں۔ داستان سناتے سناتے کسی اور داستان میں داخل ہو جانے کا حق رکھتا ہوں اور یہ داستان حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے راوی میرے والد صاحب تھے۔ ڈاکٹر ملک کی شدید خواہش تھی کہ وہ حج پر جا سکیں، متمول تھے، دولت کی کثرت تھی پھر بھی نہ گئے، ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کے پاس مجبور لوگ آتے ہیں۔ مریض اور لاچار لوگ مجبوراً آتے ہیں چنانچہ ان کی کمائی مجبوری کی کمائی ہوتی ہے اور میں اس کمائی سے حج پر نہیں جائوں گا۔ انہوں نے تین چار بھینسیں خریدیں، ایک وسیع رہائش گاہ میں رہتے تھے، وہاں ایک کونے میں ایک چھپر ڈال کر انہیں چھت مہیا کی۔ محلے میں منادی کرادی کہ جس کسی کو خالص دودھ درکار ہے وہ ڈاکٹر ملک کی کوٹھی پر سویرے سویرے آ جائے۔ خرید کر لے جائیے۔ ڈاکٹر ملک ان بھینسوں کا ذاتی طور پر خیال رکھتے تھے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم نہیں رکھا۔ ان کا چارہ اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے، نہلاتے دھلاتے اور ان کا دودھ دوہتے۔ جانے کتنے برس انہوں نے دودھ فروخت کرکے اتنی رقم جمع کرلی کہ حج کے اخراجات نکل آئے اور پھر اس رقم سے حج پر گئے جوکہ مجبوری کی نہ تھی۔ آج کے حجاج کرام کی آمدنیوں کا ذرا موازنہ کریں تو آپ جان لیں گے کہ ڈاکٹر ملک عقیدت کے کس رتبے پر فائز تھے۔ چنانچہ یہی ڈاکٹر ملک بھی گوشت کے شیدائی تھے۔ گھر میں روزانہ پکنے والے گوشت سے ان کی تشفی نہ ہوتی۔ اتوار کے روز اپنے بیٹوں کے ہمراہ "مویشی منڈی" میں جاتے اور وہاں سے کوئی درمیانہ سا بکرا، کوئی بچھڑا یا کٹا خرید لاتے۔ اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے، کھال اتار کرگوشت بناتے۔ لان میں کم از کم تین دیگچے چولہوں پر چڑھاتے۔ ایک میں صرف گوشت، دوسرے میں سری پائے اور تیسرے میں دورانیں۔ شام سے پہلے ملک صاحب اور ان کے بیٹے نہایت آسانی سے وہپورا بکرا یا بچھڑا کھا جاتے اور ان کا ایک قول ہے جو سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ ابا جی نے ایک بار پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو کس جانور کا گوشت سب سے زیادہ پسند ہے تو ہنس کر کہنے لگے، چوہدری صاحب گوشت ہونا چاہیے چاہے کتے کا ہو، اور ان زمانوں میں کسی کو کیا معلوم تھا کہ ایسے زمانے بھی آئیں گے جب چین اور خاص طور پر کوریا میں کتے بھی رغبت سے کھائے جائیں گے۔ گوشت خوری میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔ میں جب کبھی کسی چکن کو کہیں گھومتے پھرتے دیکھتا ہوں تو مجھے اس کے بال و پر نظر نہیں آتے۔ وہ مجھے ایک روسٹ شدہ چکن نظر آتا ہے۔ ماڈل ٹائون پارک میں صبح کی سیر کے دوران اکثر مجھے ایک دیسی مرغ نظر آتا ہے جو جانے کہاں سے ٹہلتا پارک میں آ جاتا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں اسے دبوچ لوں اوراسکی مرغ کڑاہی بنا کر مسلمانی کے مزے لوٹوں۔ گوشت خوری کے ڈی این اے میرے ننھیال کی جانب سے آئے ہیں۔ یعنی گوشت کھانا ایک خاندانی مجبوری ہے۔ میں یہی کوئی نصف صدی پیشتر نیا نیا شادی شدہ ہوا تھا اور میری نئی نویلی دلہن پہلی بار میرے لیے دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی جب میری بڑی خالہ جان ثریا بیگم کا ورود ہوا۔ انہوں نے پوچھا میمونہ کون سی ہانڈی چڑھا رکھی ہے۔ مونا کہنے لگی خالہ جان گوشت بھون رہی ہوں، خالہ جان نے پوچھا، بیٹی کتنا گوشت ہانڈی پر چڑھا رکھا ہے تو مونا نے جواب دیا، خالہ جان ہم دونوں نے کھانا ہے۔ میرا خیال ہے ایک کلو تو ہوگا۔ خالہ جان نے ہانڈی میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ہائے ہائے مونا۔ ایک کلو گوشت بھونتے ہوئے تو آدمی اسے چکھتے چکھتے ہی کھا جاتا ہے۔ مستنصر کیا کھائے گا؟ یہ وہی خالہ جان ہیں جنہوں نے دلہن میمونہ کے چھریرے پن کو دیکھ کر اپنی چھوٹی ہمشیرہ یعنی میری امی جان سے کہا تھا۔ نواب بیگم ووہٹی کا ناک نقشہ تو لکھنو والوں کا ہے۔ سوہنی ہے پر دبلی بہت ہے۔ جاٹوں کی بہو تو ایسی ہونی چاہیے کہ دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھی ہو تو چوکھٹ بھر جائے۔ اللہ بخشے خالہ جان کا تن و توش ایسا تھا کہ وہ کئی چوکھٹیں بھر سکتا تھا۔ کسی گلی میں نہایت شان سے یوں چلتیں کہ سامنے سے آنے والوں کو گزر جانے کا کوئی راستہ نہ ملتا۔ ان زمانوں میں گوشت آسانی سے میسر نہ ہوتا تھا۔ خاص طور پر دیہات اور قصبوں میں قصائیوں کی دکانیں نہ ہوتی تھیں۔ میرے نانی جان کے گھر کے پچھواڑے میں کچھ "بروالے" رہتے تھے۔ ان میں ایک رحمو بروالا تھا جو ایک دو ماہ کے بعد اعلان کرتا تھا کہ فلاں روز میں ایک گائے ذبح کروں گا۔ گوشت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ اگر تو اس کی پوری گائے خریدنے کے لیے لوگ پیشگی بکنگ کرلیتے تو وہ اسے حلال کرتا ورنہ اسے کھونٹے سے بندھا رہنے دیتا۔ (جاری)