اسلام آباد میں چند روز !
میں پچھلے ہفتے اسلام آباد مدعو تھا، کروناکی تباہ کاریوں کے باوجود تین چار تقریبا ت میں شرکت اور اہل علم سے استفادہ کا موقع مل گیا۔ پہلے دن چک شہزاداسلام آباد میں ہونے والی مدارس میڈیا ورکشاپ میں شرکت کی، یہ ورکشاپ ہر سال شعبان کے مہینے میں منعقد ہوتی ہے اور صحافت سے وابستہ مختلف شخصیات کو لیکچرز کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ اس کا انتظام وفاق المدارس کے ترجمان مولانا عبد القدوس محمدی کی زیر نگرانی ہوتا ہے اور اس میں مدارس کے طلباء سمیت عصری تعلیمی اداروں کے طلبا بھی حصہ لیتے ہیں۔ اب تک یہاں سے بیسوں طلبا صحافت سیکھ چکے ہیں اور اس وقت ملکی اخبارات اور میڈیا ہاؤسز میں کام کر رہے ہیں، سال بھر کا کام پندرہ بیس دن کی ورکشاپ میں کرایا جاتا ہے اور یہی اس ورکشاپ کی کامیابی کا راز ہے۔ یہاں چند گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، شرکاء کی دلچسپی اور سوالات دونوں حوصلہ افزا تھے، وقت کی کمی کے باعث تشنگی کا احساس با قی تھا جس کی تلافی آن لائن کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس بار صحافت کے ساتھ طلباء کو ڈیجیٹل سکلز سے بھی روشناس کرایاگیا، صحافت سے دلچسپی اور مستقبل میں اس فیلڈ میں آنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے یہ بہترین پلیٹ فارم ہے۔
اگلی حاضری اسلامک یونیورسٹی کے ذیلی ادارے آئی آر ڈی میں تھی جہاں آئی آر ڈی کے رکن محمد یونس سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی، یونس بھائی سے پرانی شناسائی ہے، تصنیف و تالیف کے بندے ہیں اور آج کل ڈاکٹر فضل الرحمان صاحب کے اردو مقالات پر کام کر رہے ہیں اور ان کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کی معیت میں آئی آر ڈی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین صاحب سے ملاقات ہوئی، ڈاکٹر صاحب پڑھے لکھے، مہذب اور دھیمے مزاج کے آدمی ہیں، یہاں بھی مختلف موضوعات زیر بحث آئے۔ میں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ میں نے 2018 میں، آئی آر ڈی کی طرف سے چھپی کتب پر ایک تنقیدی کالم لکھا تھا جس میں املاء اور کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، ڈاکٹر صاحب نے کھلے دل سے اسے تسلیم کیا اور شکریہ بھی ادا کیا کہ اس سے ہمیں اپنا معیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ آئی آرڈی گزشتہ چند سال سے متبادل بیانیوں کے نام سے ایک سیریزچھاپ رہا ہے جس میں مختلف اہل علم کے نتائج فکر کو پیش کیا جاتا ہے، میرے منتخب کالمز جو روایتی فکر، مذہب اور سماج کے تناظر میں لکھے گئے ہیں انہیں بھی اس سیریز کے تحت چھاپنے کا ارادہ ہے، ڈاکٹر صاحب نے انہیں چھاپنے کی خواہش کا ظہار کیا ہے دیکھئے اشاعت کی نوبت کب آتی ہے۔
مولانا عبدالعزیز کچھ عرصے سے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں، ان کے حالیہ طرز عمل نے جس میں انہوں نے چائے کی حرمت اورصوفے جلانے کا ارتکاب کیا ہے لبرل طبقات کویہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ان کے ذاتی طرز عمل کو مذہب کا مذاق کا ذریعہ بنا لیں۔ اس سلسلے میں جامعہ حفصہ میں ان سے تفصیلی ملاقات رہی، اپنے یوٹیوب چینل" تلاش ٹی وی" کے پلیٹ فارم سے ان کا تفصیلی انٹر ویو کیا جسے عنقریب آپ تلاش ٹی وی پر دیکھ سکیں گے۔ اگلی ملاقات محترم عدنان کاکا خیل سے تھی، عدنان کاکا خیل صاحب البرہان کے نام سے ادارہ چلا رہے ہیں جس میں جدید تعلیم یافتہ افراد اور پروفیشنلز کو دینی تعلیمات سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ سیٹ اپ صرف اسلام آباد میں تھا اور اب اس کا دائرہ کار لاہور اور کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں تک پھیل چکا ہے۔ ایک ایک کلاس میں سیکڑوں طلبا شریک ہوتے ہیں اور سب جدید تعلیم یافتہ اور پروفیشنلز۔ علمی خانوادے سے تعلق ہے، جدید، قدیم اور روحانیت میں گندھی شخصیت ہیں اور اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید اداروں میں ہمارا ایک طالب علم بھی بطور رول ماڈل چلا جائے تو پورے ادارے کو متاثر کر سکتا ہے۔
میری کچھ فکری الجھنیں تھیں جن کو انہوں نے دور کرنے میں مدد دی، میرا سوال تھا کہ آپ البرہان کے پلیٹ فارم سے جدید تعلیم یافتہ افراد اور پروفیشنلز کو دین سے جوڑ رہے ہیں جو اچھا کام ہے مگر ہمیں تحقیقی اور علمی و فکری کام کی بھی اشد ضرورت ہے، جدیدیت سے متاثرہ بعض اذہان اس وقت علمی و فکری کام کے نام پر جدیدیت کو پروان چڑھا رہے ہیں اور روایت اور بڑوں پر ا عتماد سے خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سماج کے اسی فیصد امراض کا تعلق دل سے ہے، لوگوں کے د لوں پر محنت کی ضرورت ہے، سماج کی اکثریت کو علمی و فکری کام سے کوئی غرض نہیں انہیں دین دار بنانے کی ضرورت ہے، صرف بیس فیصد لوگ ایسے ہیں جن کے دماغ کا مسئلہ ہے یعنی انہیں عقل اور دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم علمی موشگافیوں میں نہیں پڑھنا چاہتے کہ وہاں سوائے خشک تحقیق کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایک وقت تھا کہ مجھے ان فکر ی اور کلامی مباحث سے بڑا شغف تھا مگر بتدریج اندازہ ہوا کہ ان فضول بحثوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بعض فقہی تحقیقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم خود کو اس اہل نہیں سمجھتے کہ کوئی نیا موقف اپنائیں، ہم روایت اور اکابرپر ہی اعتماد کرتے ہیں اور اسی سے جڑے رہنے میں عافیت ہے۔ انسان جتنا صاحب علم ہوتا جاتا ہے روایت سے وابستگی اتنی گہری ہوتی جاتی ہے، اگر آپ کا علم آپ کو روایت سے برگشتہ کرے تو فکر مند ہونا چاہئے۔ اس پر ایک لطیفہ بھی سنایا کہ ایک دفعہ مولانا ثناء اللہ پانی پتی نے مولانا انور شاہ کشمیری کی علمیت سے متاثر ہو کر کہا کہ مولانا مجھے حیرت ہے آپ جیسا صاحب علم بھی مقلد ہے، مولانا نے برجستہ جواب دیا کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسا صاحب علم بھی خود کوروایت اور تقلید سے آزاد سمجھتا ہے۔
میرا سوال تھا کہ آپ جن پروفیشنلز کو دین کی طرف لاتے ہیں اور ان کی وضع قطع مولویانہ ہو جاتی ہے اور جدید اداروں میں کام کرنے کے مواقع محدود ہوجاتے ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پرانے حلیے اور لباس میں ہی ان افراد کو جدید اداروں میں بھیجا جائے جو وہاں جا کر کام کریں اس سے مواقع اور کام کی نوعیت بڑھ جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ طلباء جب ہمارے ماحول میں آتے ہیں تو خود بخود اس رنگ میں رنگے جاتے ہیں، ہم لباس اور وضع قطع کے حوالے سے کبھی سختی نہیں کرتے، جب طلباء خود اپنی ذات کو سنت رسولؐ کے مطابق ڈھالنا چاہیں تو کم از کم مجھ میں تو یہ جرأت نہیں کہ میں انہیں اس سے منع کروں۔ دوسرا ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم جو دعوت دے رہے ہیں وہ کس اسلام کی دعوت ہے، اگر تو وہ رسول اللہ کے دین کی دعوت ہے تو پھر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا طرز دعوت کیا تھا، وہ بدو کہلاتے تھے مگر جب اپنے عہد کی متمدن دنیا کے پاس دعوت لے کر گئے تو کامیاب ہوئے۔ میرا سوال تھا کہ کیا آپ کا مقصد صرف یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دین سے جوڑ دیا جائے یا آپ وسیع تناظر میں، من حیث المجموع ملک اور سماج میں تبدیلی چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم پورے ملک میں تبدیلی کے خواہا ں ہیں لیکن ہماری حکمت عملی مختلف ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پہلے رول ماڈلز تیار کیے جائیں، دنیا کو بتایا جائے کہ ہم کیا پروڈکٹ تیار کر رہے ہیں پھر لوگ خود اس نظام کی طرف متوجہ ہوں گے اور پھرایک فرد پورے ادارے کی اصلاح کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد کے اطراف و مضافات میں تفریحی اور تاریخی مقامات پر جانے کا بھی موقع ملا اور بروز اتوار واپسی ہوئی۔