طالبان کی طاقت
افغان طالبان کے اس اصرار نے کہ افغانستان میں القاعدہ کا وجود نہیں، دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ طالبان کے اس بیان سے اس برس امریکہ سے کئے گئے معاہدے پر کوئی خوش کن اثر نہیں پڑنے والا۔ اگرچہ طالبان کے انکار کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی بھی تاریخ رہی ہے لیکن طالبان کے افغانستان میں القاعدہ کے وجود نہ ہونے کا بیان ان کی سیاسی مجبوریوں کی طرف اشارہ ہے۔ دونوں عسکریت پسند گروہوں کے درمیان روابط کی طویل تاریخ ہے جس کو اب برقرار رکھنے میں طالبان کو دقت محسوس ہو رہی ہے۔
طالبان کی اپنے دوستوں اور دشمنوں سے انکار کی طویل جنگی حکمت عملی چلی آ رہی ہے یہاں تک کہ 90ء کی دہائی میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو دنیا بھر سے دہشت گرد افغانستان میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے پاکستان سے بھی فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث افراد نے بھی افغانستان میں پناہ لی۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ لشکر جھنگوی کے دہشت گرد افغانستان میں تربیتی مراکز چلاتے رہے ہیں۔ پاکستان نے جب بھی دہشت گردوں کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا طالبان کی طرف سے ان کے افغان سرزمین پر موجودگی سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔ یہ تو صرف تاریخ کا ایک حوالہ ہے۔ البتہ اب بھی افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں سے اپنی قریبی تعلقات کا اعتراف نہیں کرتے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے مانیٹرنگ ٹیم نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اب بھی افغان سرزمین سے آپریٹ کر رہے ہیں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ طالبان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں حالانکہ پاکستان بار بار اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتا رہا ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی ذکر ہے کہ طالبان امریکہ سے مذاکرات کے دوران مسلسل القاعدہ مشاورت کرتے رہے ہیں اور القاعد امریکہ معاہدے پر مثبت ردعمل بھی ظاہر کیا۔ امریکہ کے طالبان سے مذاکرات آج کی بات ہے دونوں کے درمیان ابھی معاہدہ ہوا ہے فریقین کو مزید حیران کن انکشافات کے لئے تیار رہنا چاہیے ابھی تو طالبان نے پشتو کی ویب سائٹ وائس آف جہاد میں یہ پوسٹ ہی لگائی ہے کہ القاعدہ کا افغانستان کی زمین پر کوئی وجود نہیں۔ اس کے ردعمل میں امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ ایف میکنڈی نے متنبہ کیا ہے وہ اس وقت تک افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کی تائید نہیں کریں گے جب تک طالبان یہ ثابت نہ کر دیں کہ ان کا اب القاعد سے کسی قسم کا تعلق ہے نا ہی وہ القاعدہ کی مدد کریں گے۔
طالبان نے یہ تاثر بھی دیا ہے کہ القاعدہ سے معاملات طے کرنے کا عمل جاری ہے مگر ابھی تک آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے طالبان کی القاعدہ سے تعلقات رکھنے کی اب کوئی مجبوری نہیں بچی، نا ہی طالبان کو القاعدہ کی مالی معاونت کی ضرورت ہے کیونکہ طالبان اپنی آمدن کے ذرائع خود افغانستان میں پیدا کر چکے ہیں۔ القاعدہ کے 5سے 6سو کے قریب القاعدہ کے ارکان اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ جو طالبان کے لئے سٹریٹجک بوجھ بن چکے ہیں۔ طالبان کا خیال ہے کہ انہوں نے امریکہ سے بہترین ڈیل کی ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کا القاعدہ سے تعلقات کا امریکہ طالبان معاہدے کو تباہ کر سکتا ہے جس سے افغان میں عمل شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ تین نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر طالبان نے امریکہ سے معاہدہ کے دوران القاعدہ سے مشاورت کی ہے تو یہ ممکن نہیں کہ امریکہ کو اس بات کا علم نہ ہو۔ القاعدہ نے یہ گارنٹی دی ہو گی کہ اس کا نیٹو ممبر ممالک میں دہشت گردی کا کوئی ارادہ نہیں۔ اگر وہ اپنی گارنٹی کو چیلنج بھی کرے تب بھی امریکہ اس گروہ کو برداشت کر سکتا ہے۔ اب تک امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی کہانیاں منظر عام پر نہیں آئیں۔ ممکن ہے ان کے بعد معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ طالبان کو القاعدہ کی وجہ سے اپنی حکومت کھونا پڑی تھی ممکن ہے ایک ایسے گروپ جس کی وجہ سے طالبان نے اپنا اقتدار قربان کیا اور جس کے ساتھ ان کی طویل نظریاتی وابستگی رہی اور ایک طویل جنگ لڑنا پڑی یہ امر تعلقات کے خاتمے میں بھی قابل غور رہا ہو۔ القاعدہ کی وجہ سے ممکن ہے طالبان کی صفوں میں بھی اختلاف ہو۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ طالبان تحریک اور القاعدہ کے مابین اس حد تک مراسم رہے ہیں کہ دونوں کو الگ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ صرف مشترکہ ٹریننگ اور شانہ بشانہ لڑنے کی وجہ سے نہیں بلکہ دونوں گروہوں کے باہم خاندانی تعلقات بھی ہیں اور باہم شادیاں بھی ہو چکی ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان کے لئے القاعدہ کے وجود سے انکار ایک اچھا آپشن ہے مگر طالبان کا ٹی ٹی پی اور پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد سرگرمیوں کے حوالے سے ایسا ہی معاملے کی شاید دیگر وجوہات ہوں۔
قطع نظر اس کے لئے ٹی ٹی پی کی صورت میں طالبان کے ہاتھ میں پاکستان کے خلاف ایک موثر ہتھیار موجود ہے۔ افغان طالبان نے افغان جنگ میں بھی تحریک طالبان کو استعمال کیا ہے۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں اس قسم کے خدشات میں مزید ابہام پیدا رہے ہیں۔ البتہ افغانستان میں طالبان کے پاور شیرنگ کی صورت میں ٹی ٹی پی طالبان کی رقیب ٹھہرے گی کیونکہ 1990ء میں وہ اقتدار کا حصہ رہی ہے کیونکہ اگر ٹی ٹی پی اقتدار میں شامل ہوتی ہے تو طالبان حکومت میں پاکستان بالخصوص سرحدی علاقوں کے مدارس کے طالبان پہلی ترجیح بن جائیں گے۔
اس قسم کی صورتحال پاکستان کے لئے ڈرائونا خواب ہو گی۔ جو پاکستان کو مزید مذہبی شدت پسندی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ صورتحال القاعدہ کی فتح ہو گی جو ہمیشہ پاکستان اور افغانستان میں بحران دیکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے نظریات کے مطابق دونوں ممالک میں نیا نظام لا سکے۔ ابھی تک تو پاکستان کے سٹریٹجک پالیسی ساز نان سٹیک ایکٹرز پر توجہ نہیں دے رہے ان کی تمام تر توجہ سیاسی استحکام پر مرکوز ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی پارلیمنٹ میں اسامہ بن لادن کو شہید کہنے کے معاملے کو بھی دبا دیا جائے گا۔ مگر اس سے ہماری قیادت کے تصوراتی ذہن کی عکاسی ضرور ہوتی ہے۔ جو اب تک خیالی جنت میں مکین ہیں۔ مگر ان کو اپنے نظریات پر قائم رہنے میں کیا دشواری ہو سکتی ہے جب تک کہ وہ اشرافیہ کے مائنڈ سیٹ کو دیکھیں گے۔