تحریک لبیک اور حکومت
آخر کار تدبر، تحمل، حکمت، مفاہمت غالب آئی اور مخاصمت، مخالفت، مہم جوئی کا خاتمہ ہوا، لاہور سے اسلام آباد تک رسل و رسائل اور نقل و حمل کا آغاز ہو گیا، یہ صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ممکن ہوااور نتیجے میں کئی روز سے جاری کشیدگی اپنے انجام کو پہنچی، فریقین ایک معاہدے پر رضامند ہو گئے، جو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے۔ اب بھی اگر جوش کے بجائے ہوش سے کام نہ لیا جاتا تو شاید معاملات مزید بگڑتے اور حالات قابو سے باہر ہو جاتے، اس نتیجے تک پہنچنے کیلئے اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کی حکمت اور تدبر نے بھی اہم کرادار ادا کیا مگرمفتی منیب الرحمٰن اور اہلسنت کی دوسری بزرگ شخصیات کی خدمات بھی قابل تعریف ہیں، انہوں نے فریقین کو برداشت کی تلقین کرتے ہوئے رواداری اختیار کرنے پر قائل کیا، اس پر زور احتجاج کے دوران جو پولیس اہلکار جان سے گئے یا جو شدید زخمی ہیں ان کی داد رسی بھی ضروری ہے ورنہ پولیس فورس کے مورال میں کمی آئے گی جو دن رات جرائم اور مجرموں کی سرکوبی کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔
ایک بات مگر سوچنے کی ہے، اس حوالے سے اگر پہلے ہی غور و فکر کیا جاتا تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے، یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اب جس طریقے سے مذاکرات کی میز سجائی گئی اور فریقین کی منشاء کے مطابق معاہدہ قرار پایا ہے تو یہ رویہ پہلے کیوں اختیار نہ کیا گیا، وفاقی وزراء کیوں ٹی ایل پی کو دہشت گرد قرار دیتے رہے؟ اس تنظیم کو پوری قوت سے کالعدم قرار دیتے رہے، اور سخت ترین کارروائی کی دھمکیاں دیتے رہے، معاہدہ کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے سے انکاری رہے، معاملات کو سدھانے کے بجائے الجھانے اور جلتی پر تیل ڈالنے کی کوشش کیوں کی گئی؟
فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور سفارتخانہ بند کرنے کے مطالبہ کا شو شہ کس نے چھوڑا، تشدد میں ملوث نامزد ملزموں کی رہائی کا مطالبہ کس نے کیا تھا؟ جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، مفتی منیب الرحمٰن نے ضمانت دی ہے کہ اب تحریک لبیک دھرنا دیگی نہ ہی لانگ مارچ کریگی، مفتی صاحب نے بجا کہا کہ معاہدہ کسی کی فتح یا شکست نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کی کامیابی ہے، وزیر اعظم اورآرمی چیف کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مذاکرات کسی تناؤ اور دباؤ کے بغیر انجام پائے اور کامیاب ہوئے، اگر ایسی ہی سنجیدہ کوشش ابتداء میں کر لی جاتی تو شائد یہ نوبت ہی نہ آتی، اس موقع پر مذاکرات میں شریک حکومتی نمائندوں کو اس حوالے سے بھی سوچ بچار کرنا ہو گا کہ آخر دو ڈھائی سال بعد ایسی نوبت کیوں آتی ہے کہ لانگ مارچ یا دھرنا تک بات پہنچ جائے، اس سے پہلے ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے نتیجے میں یہ صورتحال پیدا ہوئی تو اس حوالے سے بھی غور کرنا ہو گا کہ معاہدوں پر عملدرآمد کیوں نہ ہوا، کس نے رکاوٹ ڈالی کس نے رخنہ اندازی کی، ان وجوہات کو بھی دور کرنا ہو گا ورنہ معاہدوں کی اہمیت اور ساکھ تباہ ہو جائے گی۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تحریک لبیک ایک مذہبی کے ساتھ عوامی سیاسی جماعت بھی ہے اس نے عام انتخابات میں حیرت انگیز ووٹ حاصل کئے، پنجاب میں وہ تیسرے نمبر کی جماعت بن کر ابھری اور اس نے پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے، اس نے کراچی میں بھی قابل قدر ووٹ حاصل کئے، سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث اسے تشدد کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، یہ وہ سوال ہے جس پرہمارے سیاسی رہنماؤں کو سر جوڑنا ہوں گے ورنہ زیادتی اور ظلم کے جواب میں پر تشدد احتجاج معمول بن جائے گا جس کا نقصان کسی پارٹی یا گروہ کو نہیں ملک و قوم کو ہو گا، اب بھی قوم نے ہی خمیازہ بھگتا اور ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئے، مگر خدا تعالیٰ کا شکر کہ دونوں جانب سے آخر کار زورآزمائی کے بجائے ہوشمندی کا مظاہرہ ہوا اور بات بگڑنے سے پہلے سنبھال لی گئی، اس تحمل اور تدبر پر فریقین مبارکباد کے مستحق ہیں، ٹی ایل پی کے رہنما مولانا بشیر فاروقی جو مذاکراتی ٹیم کے بھی رکن ہیں کا کہنا ہے کہ آرمی چیف طاقت کے استعمال کے حق میں نہ تھے، ان کا زور مذاکرات پر تھا، معاہدہ کی کامیابی میں ہزار فیصد کردار جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے، معاہدہ کو ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کی بھی حمایت حاصل ہے۔
حکومت نے معاہدہ کے بعد سڑکوں خاص طور پر جی ٹی روڈ سے رکاوٹیں ہٹا دی ہیں جس کے بعد کئی روز سے جام ٹریفک کی بحالی ممکن ہو گئی ہے، اگر چہ حساس معاملات کی وجہ سے معاہدہ کی شرائط کو پبلک نہیں کیا جا رہا مگر حکومت گرفتار افراد کی رہائی کا عمل شروع کر چکی ہے البتہ مقدمات میں ملوث افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے گا جو ان کی رہائی کا فیصلہ کریگی، وزیر آباد میں تحریک لبیک کا جاری دھرنا البتہ فوری نہیں اٹھایا جائے گا اس کیلئے شرط رکھی گئی ہے کہ معاہدہ پر 50فیصد عملدرآمد کے بعد شرکاء دھرنا منتشر ہو جائیں گے، حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکراتی ٹیم میں تبدیلیاں کیں اور جارحانہ اور اشتعال انگیز موقف رکھنے والے رہنماؤں کو مذاکرات سے الگ رکھا، یہ ملکی مفاد میں حکومت کی بہترین حکمت عملی اور معاملہ فہمی تھی، سول انتظامیہ کی ناکامی بھی اس موقع پر لمحہ فکریہ سے کم نہیں، ٹی پی ایل کے بانی مولانا خادم رضوی مرحوم نے جب فیض آباد میں دھرنا دیا تھا تب بھی معاہدہ آرمی کی مداخلت سے ہی ممکن ہوا تھا، حالیہ معاہدہ کو بھی آرمی چیف کی بھرپور حمایت حاصل رہی، کیا سول انتظامیہ ایسے ابتر حالات میں مفلوج ہو جاتی ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے طاقات کے استعمال کو پہلا اورآخری حربہ سمجھتی ہے، یا کچھ عناصر ایسے ہیں جو امن دشمن ہیں اور اشتعال انگیزی کرتے ہیں، ان پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
حالیہ ہنگامہ آرائی میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی کمال حکمت اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا، کسی جگہ شرکاء کو تشدد سے روکنے کی اجازت نہیں دی، راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، کنٹینر لگائے گئے، خندقیں بھی کھودی گئیں مگر حکومت کے لئے یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ رکاوٹیں کبھی راستے نہیں روک سکتیں، جب عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے جلوس اور دھرنے دیئے تھے تو کیا حکومتی رکاوٹیں ان کا راستہ روک سکی تھیں اسی لئے اب تحریک لبیک نے بھی جہاں دھرنا دینا چاہا اس نے دے دیا۔ بعض مقامات پر بد نظمی اور شر پسند عناصر کی وجہ سے معاملات بگڑے تشدد ہواانسانی جانوں کا بھی ضیاع ہوا ایسے شر پسند عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کوئی ناخوشگوار واقعہ جنم نہ لے سکے، ضروری ہے کہ تحریک لبیک کی قیادت کارکنوں کو کنٹرول میں رکھے اور حکومت معاہدے پر عملدرآمد اس کی روح کے مطابق یقینی بنائے، تا کہ مزید کوئی الجھن پیدا نہ ہو۔