غیر متوازن دنیا
نیوزی لینڈ کی سرزمین سے طلوع ہوتا سورج روشنی سے کرہ ارض کے مکینوں کو فیض یاب کرتے ہوئے افق میں ڈھل جاتا ہے، مستفید ہونے والوں میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی، ایشیاء میں رہنے والے ہوں یا لاطینی امریکہ کے باسی سب کے ساتھ عدل کیا جاتا ہے، اس کے غروب ہوتے ہی چاند کی چاندنی آسمان کو ڈھانپ لیتی ہے، ٹمٹماتے ستارے سب کو بھلے لگتے ہیں، دنیا بھر سے مسافر جہازوں سے لمبی مسافت طے کرتے ہیں، صحرا میں جب بارش ہوتی ہے تو یہ لہلااٹھتا ہے، رنگ برنگے پھول نکل آتے ہیں، تتلیاں ان پر اٹھکیلیاں کرتی ہیں، ہر سو سبزہ اورنئی زندگی کا سماں ہوتا ہے۔
شعراء کرام نے چاند، پھول، ستاروں، کلیوں، صحرائوں، جھرنوں، آبشاروں، جھیلوں کے استعارہ سے شاعری میں فطری رنگ بکھیرے ہیں، سمندر میں بھی بنی نوع انسان کی خوراک کا اہتمام کیا گیا ہے، بغیر ستونوں کے کھلا آسمان، زمین پر فلک بوس پہاڑ، اپنی حد میں رہتا سمندر کا میٹھا اور کھارا پانی قدرت کی نشانیا ں ہیں، اللہ تعالیٰ نے انسان کو غورو فکر کی جہاں دعوت دی ہے وہاں اس کائنات کو مسخر کرنے کے لئے انسان کوصلاحیتوں سے بھی نوازا، احسان کے ساتھ ان نعمتوں کا ذکر کیا، جو اسکی ضرورت کے لئے لازم وملزوم تھیں لیکن یہ کائنات عدل اور انصاف پر قائم ہے۔
اللہ تعالی نے وقت کے فرعونوں کے انجام سے بھی پورے عالم کوآگاہی دی، ماضی کے فرعون صرف بیٹوں کو مارتے اور بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے، آج کا فرعونی کردار اس سے دو ہاتھ آگے ہے، وہ بلا تخصیص ہر فرد پر بمباری کر رہا ہے، اس دور کا فرعون تو مریضوں، طالب علموں سے بھی خوف کھاتا ہے، اس کی بمباری سے شفاخانے محفوظ ہیں نہ ہی تعلیمی ادارے، بچے، بوڑھے، خواتین سب اس کے نشانہ پر ہیں۔
عدل پر قائم اس کائنات کا حلیہ اللہ کے نائب نے بگاڑ کر شیطان کے اس دعوے کو سچ کر دکھایا کہ آدم دنیا میں فسادکرے گا، خوبصورت ز مین میں سرنگیں بچھا کر اسکو بد صورتی میں بدلا گیا ہے۔
امن کے نام پر لاکھوں ڈالر کا اسلحہ خرید اور فروخت کیا جاتا ہے، یہ بدامنی بے سبب نہیں اس کے پیچھے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا عمل کارفرما ہے، اللہ کے خلیفہ نے اسکی آڑ میں مالک کے عطاکردہ وسائل پر بزور طاقت قبضہ کر رکھا ہے، سوئٹرز لینڈ کے سب سے بڑے بنک نے دعویٰ کیا ہے کہ دس سال کے مابین ارب پتیوں کی دولت میں 121فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں سال میں 268افراد پہلی بار ارب پتی کی صف میں شامل ہوئے ہیں، دوسری جانب عالم یہ ہے کہ دنیا کی ایک ارب آبادی سے زائد لوگ شدید غربت کا شکار ہیں، ان میں سے40فیصد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جنہیں پرتشدد تنازعات کا سامنا ہے، جنگ زدہ علاقہ جات کے مکینوں کو اس عہد جدید میں بھی بجلی تک رسائی نہیں ہے، مجموعی طور عالمی سطح پر غربت کی دنیا کے بالغ افراد کا تناسب 14فیصد ہے۔
ان اعدادو شمار کے باوجود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یہ اعتراف کرتے ہیں کہ غربت کسی کا مقدر نہیں، معاشروں اور حکومتوں کے غلط یا عدم فیصلوں کا نتیجہ ہے، وہ تجویز کرتے ہیں کہ عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات اور مستقبل کے معاہدہ جات پر عمل درآمد ناگزیر ہے، غربت کے خاتمہ کے لئے ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد دی جائے تاکہ وہ اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری کر سکیں، لیکن موصوف نجانے کیوں بھول جاتے، اقوام متحدہ کی غیر منصفانہ اور جارحانہ قراردادوں کی بدولت ہی بیگناہ لوگوں کو ڈیزی کٹر اور ڈرون حملہ کا سامنا کرنا پڑا، ایسی بد امنی میں بھلا سرمایہ کاری کیسے ممکن تھی۔
قانون قدرت اور فطرت کے برعکس پالیسی سازوں کو ایک نئی پریشانی کا سامنا بھی ہے، جس کی جانب معروف امریکی تاجر، سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم کے مالک نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں سنگاپور سمیت کئی ممالک کا نام ونشان مٹ جائے گا، وہ اپنی ہی بنائی گئی پالیسیوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے، وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ایلون مسک کہتے ہیں کہ مستحکم آبادی کے لئے کم از کم 1.2 بچے کی شرح درکار ہے جب کہ سنگا پور میں ہر خاتو ن کے پاس ایک بچہ ہے، انکے نقطہ نظر نے ترقی یافتہ ممالک میں بھی آبادی کے چیلنجزکے مسئلہ کو موضوع بحث بنا دیا ہے، اسی طرح بعض ممالک کی آبادی ہی غیر متوازن ہے، جہاں صنف نازک کی تعداد مردوں سے کئی گنا زیادہ ہے، جس سے عائلی اور صنفی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے ریاستوں کے مابین افرادی نقل و حمل کے ایسے قوانین لاگو کر رکھے ہیں، صرٖف صاحب ثروت ہی مستفید ہو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل پر تو ہر کالے اور گورے کا یکساں حق ہے جسکی فراہمی اقوام متحدہ کی ہے جن کے جنرل سیکرٹری کا موقف ہے کہ بھوک اور غربت کے پس پردہ ارباب اختیار کے غلط فیصلے ہیں، جس کی سزا غرباء کو مل رہی ہے کیا ان کے فرائض منصبی میں نہیں کہ عالمی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے کلیدی کردار ادا کریں؟ طرفہ تماشا ہے کہ بعض ممالک کو آبادی کنٹرول کرنے کے لئے مراعات دی جاتی اور کچھ کے صفحہ ہستی سے مٹنے کا عندیہ دیا جارہا ہے، دنیا کے بر اعظموں میں رقبہ کے اعتبار سے بڑے ممالک ہیں سرے سے جہاں انسانی وجود ہے ہی نہیں، دوسری جانب زیادہ آبادی والے ممالک میں رہنے کو جگہ میسر نہیں ہے، یہ غیر متوازن دنیا انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔
قادر مطلق نے تو ہر ملک کے موسم آب و ہوا اورجغرافیہ کے لحاظ سے قدرتی وسائل عطا کئے انکی غیر منصفانہ تقسیم میں بڑا ہاتھ تو طاقتور حکمرانوں کا ہے، جو چھوٹی ریاستوں کے وسائل کو بھی للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں، کارل ماکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی اسی بد نیتی کی بنا پر کہا سرمایہ داروں کی تجوریوں اور بنکوں میں پڑا پیسہ درحقیقت مزدور کی غیر ادا شدہ اجرت ہے۔
تاریخ کا سبق ہے کہ بزور طاقت قومی وسائل پر قابض آمروں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا، جس کی ایک شکل ملک شام میں دیکھنے کوملی، دنیا کی بد صورتی کے خاتمہ کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ بھاری بھر سرمایہ جو جنگ وجدل اور میزائلوں کی خرید و فروخت پر خرچ کیا جاتا ہے، اس کو انسانی فلاح پر لگایا جائے، سکیورٹی سے اہم تو انسانی خوراک ہے جسکی کمی نوشتہ دیوار ہے، عدل پر مبنی قائم کا ئنات کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ارب پتیوں میں اضافہ کی بجائے دنیا سے غربت کا خاتمہ کیا جائے تاکہ غیر متوازن دنیاکا تاثر زائل ہو سکے۔