Jamhuriat Ventilator Par
جمہوریت وینٹیلیٹر پر
پاکستانی سیاست ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال اور تنازعات کی زد میں ہے۔ حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے مظاہرے اور ان پر ہونے والا جبر اس کی تازہ مثال ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے مطالبے پر مظاہرہ کرنے والے عام شہریوں کو آنسو گیس، گولیوں اور طاقت کے بے رحمانہ استعمال کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مظاہرین کی جانیں گئیں، لیکن یہ سوال باقی ہے کہ کیا یہ قربانیاں جمہوریت کے تحفظ کے لیے تھیں، یا یہ سب ایک سیاسی کھیل کا حصہ ہے جہاں عام عوام ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں؟
عمران خان کی گرفتاری ایک ایسا واقعہ بن چکا ہے جس نے ملک کی سیاست کو ایک نئے بحران میں ڈال دیا ہے۔ ان کے حامی اس کو ایک سیاسی رہنما کے خلاف ناانصافی اور جمہوریت پر حملہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین اسے قومی اتحاد اور ریاستی استحکام کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ عوامی رائے تقسیم ہو چکی ہے اور یہ تقسیم ملک کی کمزور جمہوری بنیادوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
عمران خان کی موجودہ صورتحال ایک منفرد پہلو پیش کرتی ہے۔ ماضی میں جب پاکستانی سیاستدانوں کو فوجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو اکثر وہ خاموش ہو جاتے تھے یا حالات کو تسلیم کر لیتے تھے۔ لیکن عمران خان نے اس روایت کو توڑ دیا ہے۔ انہوں نے گرفتاری کے باوجود اپنی مزاحمت کو جاری رکھا اور اپنی آواز کو بلند رکھا۔ یہ رویہ جہاں ان کے حامیوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنا، وہیں مخالفین کے لیے مزید چیلنجز پیدا کر گیا۔
ان کی گرفتاری اور اس کے خلاف عوامی ردعمل نے نہ صرف ملک کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ فوجی اثر و رسوخ اور سول-ملٹری تعلقات پر بھی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ عمران خان کی مزاحمت اس بات کا اشارہ ہے کہ سیاست میں طاقت کے توازن کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس عمل نے ملک میں سیاسی پولرائزیشن کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔
حکومت نے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرکے اپنی کمزوری کو عیاں کر دیا ہے۔ ریاستی جبر، انسانی حقوق کی پامالی اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال نے جمہوری اصولوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ایک ایسی حکومت جو عوامی حمایت کے فقدان کا شکار ہو، طاقت کے استعمال کو اپنی بقا کے لیے ایک مؤثر ہتھیار سمجھتی ہے۔ لیکن اس رویے نے عوامی اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچائی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور عوامی مایوسی ایک اور بڑا چیلنج ہے۔ روز بروز بڑھتے ہوئے معاشی مسائل، ٹیکسوں کا بوجھ اور بجلی کے بلوں کی اضافی قیمتوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عوام محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے رہنما ان کے مسائل کو سمجھنے یا حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی بے چینی کے نتیجے میں ایک عوامی ردعمل جنم لے سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ردعمل مثبت تبدیلی لائے گا یا محض ماضی کی طرح وقتی جذبات کا اظہار ہوگا؟
پی ٹی آئی، جو کبھی ایک مضبوط سیاسی قوت سمجھی جاتی تھی، آج اپنی اندرونی اختلافات اور قیادت کی جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ پارٹی کے اندرونی مسائل نے نہ صرف اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ حکومت کو ایک عارضی فائدہ بھی دیا ہے۔ عمران خان کے حامیوں میں اختلافات نے اپوزیشن کی حیثیت سے پی ٹی آئی کے کردار کو کمزور کر دیا ہے اور عوامی مسائل کے حل پر توجہ دینے کے بجائے ذاتی جھگڑے پارٹی کی ترجیحات بن گئے ہیں۔
یہ صورتحال ایک ایسے سیاسی کلچر کی عکاسی کرتی ہے جہاں ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے۔ عوامی مسائل پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں اور سیاستدان اپنی انا اور ذاتی مفادات کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ یہی رویہ پاکستان کو مسلسل عدم استحکام اور زوال کی طرف لے جا رہا ہے۔
حقیقی تبدیلی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاستدان اور فوجی قیادت اپنی روش تبدیل کریں۔ سیاسی چالاکیوں، طاقت کے کھیل اور عوام کے جذبات کے استحصال سے استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مستحکم اور ترقی یافتہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ کھلے مکالمے کو فروغ دیا جائے، جمہوری اصولوں کی پاسداری کی جائے اور عوامی مسائل کو سنجیدگی سے حل کیا جائے۔
بدقسمتی سے، پاکستان کے طاقتور اشرافیہ نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہی پرانے چہرے، وہی کھوکھلے وعدے اور وہی روایتی سیاست، یہ سب ملک کو ایک ایسے دائرے میں جکڑے ہوئے ہیں جس میں ترقی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
ہمیں ایک ایسے پاکستان کا خواب دیکھنا چاہیے جہاں جمہوریت مضبوط ہو، عوامی مسائل کو ترجیح دی جائے اور قیادت عوام کی خدمت کو اپنا مقصد سمجھے۔ لیکن یہ خواب صرف اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب عوام اپنے رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرائیں اور نظام میں ایسی اصلاحات کی حمایت کریں جو ملک کی ترقی میں معاون ہوں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے عوام اور رہنما اس تبدیلی کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم اپنے روایتی رویوں کو ترک کرکے ایک نئے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں؟ یا ہم بھی اس سیاسی تماشے کے خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ایک نازک موڑ پر ہے۔ اگر اس موقع پر درست اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ ملک مزید نقصان اٹھائے گا۔ آئیں، ایک بہتر پاکستان کے لیے مل کر کام کریں اور ایک نیا باب شروع کریں، جہاں جمہوریت مستحکم ہو اور عوام کو ان کا حق دیا جائے۔