شام، بشار رفت و ہئیت التحریر آمد (4)
منگل اور بدھ کی درمیانی شب میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں شام کے حوالے سے تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ اسرائیل نے سوموار اور منگل کو شام پر 300 سے زائد حملے کئے (ان سطور کو اشاعت کیلئے بھجوانے تک اسرائیلی حملوں کی تعداد 500 ہوگئی ہے خود اسرائیل نے اس کا اعلان کیا ہے) ان حملوں میں سب سے بڑا حملہ مطاکیہ کی بندرگاہ پر کیا گیا جہاں اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے مرکزی گودام سمیت بہت ساری عمارتیں اور ان میں رکھا سامان تباہ ہوگیا۔
منگل کی سپہر اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس کی فوجیں دمشق سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اسی روز اسرائیل نے دمشق کے جنوب میں بیت تیم، حنا، ارنے اور بیقاسم نامی قصبوں پر قبضہ کرلیا۔ اسرائیلی فوج نے شام کے بلند ترین پہاڑ مائونٹ برمون پر قبضہ کے بعد اس کے بلند ترین قلعہ پر بھی قبضہ کرلیا۔
شام پر قبضہ کرنے والی ہئیت التحریر الشام کی قیادت اسرائیلی کارروائیوں پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہئیت التحریر الشام کی بغاوت سے ہزارہا گنا نقصان اسرائیلی حملوں سے ہوا۔
بلاد عرب کے چند ممالک نے رسمی انداز میں اسرائیلی کارروائی کی مذمت ضرور کی وہ اس سے زیادہ کچھ کرنے اور کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔
آج کے حالات میں یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی کہ عرب لیگ کے رکن ممالک کو سال 2006ء کی اپنی اس قرارداد پر ندامت محسوس ہوئی ہوگی جس میں عرب لیگ نے اسرائیل سے جنوبی لبنان واگزار کرانے والی لبنانی تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
اتوار کی صبح سے تادم تحریر (منگل اور بدھ کی درمیانی رات) اسرائیل نے شام کے خلاف جو زمینی اور فضائی کارروائیاں کیں ان کارروائیوں سے ہونے والے نقصان سے یہ سمجھنا ازبس مشکل نہیں کہ ہئیت التحریر الشام کو منظم کرنے اور بغاوت کو کامیاب بنوانے میں پیش پیش اور پس پردہ ممالک و قوتوں کے مقاصد کیا ہیں۔
اسی دوران "بظاہر" حیرت انگیز طور پر فلسطینی تنظیم حماس نے شام میں بغاوت کی کامیابی پر شامی عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ شامی عوام اب آزادانہ ماحول میں زندگی بسر کریں گے"۔
حماس کے اس بیان کو حماس بشار اختلافات کی ابتداء سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 2011ء میں جب بشار الاسد کے خلاف النصرہ فرنٹ نے مسلح مزاحمت کا آغاز کیا تو اگلے برسوں میں شامی حکومت نے اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دو اہم انکشافات کئے تھے اولاً یہ کہ "فلسطینی تنظیم حماس نے النصرہ فرنٹ کے جنگجوئوں کو اپنے ہاں تربیت دی ہے"۔
یہ انکشاف اس لئے حیرت انگیز تھا کہ بلاد عرب میں شام وہ ملک تھا جس میں حماس کے سیاسی دفاتر قائم تھے اور خالد مشعل سمیت (خالد ان دنوں حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ تھے) متعدد رہنما شام میں مقیم تھے۔ خالد مشعل کو تو باقاعدہ سربراہ مملکت کا پروٹوکول بھی حاصل تھا۔
حماس النصرہ فرنٹ تعلقات کے منظرعام پر آنے کے بعد بشار الاسد حکومت نے حماس کے سیاسی دفاتر اور قائدین کو کسی اور ملک منتقل کرنے کے لئے کہا جس کے بعد حماس کا سیاسی دفتر عرب دنیا میں امریکہ کے علاقائی ہیڈ کوارٹر کا درجہ رکھنے والے ملک قطر میں منتقل کردیا گیا۔
خالد مشعل اور دوسرے متعدد رہنما بھی دمشق چھوڑ کر قطر چلے گئے۔ خالد مشعل اب بھی وہیں مقیم ہیں۔
انہیں پہلی دو بغاوتوں کے دوران الجہاد اسلامی برائے خلافت اور داعش کے ایک ہی وقت میں اسرائیل اور حماس سے روابط سامنے آئے۔ تب یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی تھی کہ بشار الاسد کے خلاف مسلح مزاحمت میں مصروف جنگجو گروپوں کے زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولت کی فراہمی کے لئے اسرائیل نے گولان کے بفرزون کی اپنی حدود میں خصوصی موبائل ہسپتال قائم کررکھا ہے۔
بشار حکومت کا دوسرا انکشاف سال 2015ء میں سامنے آیا اس برس کے رمضان المبارک سے قبل حمص کے قریب ایک کارروائی میں شامی فوج نے داعش کے ساتھ مل کر مسلح کارروائیوں میں مصروف چند پاکستانیوں کو گرفتار کیا تھا ان گرفتار شدگان میں کالعدم لشکر جھنگوی کے مرکزی نائب امیر امجد فاروق معاویہ بھی شامل تھا۔
امجد فاروق معاویہ جولائی 2013ء میں سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان سے فرار ہوا تھا۔ جولائی 2013ء میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑنے یا اس پر بیرونی حملہ کرکے کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو رہا کرانے کا واقعہ ملکی تاریخ کا اہم ترین واقعہ تھا۔
اس وقت یہ بھی کہا گیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے بھاگے یا بھگائے جانے والے کالعدم تنظیموں کے ارکان کا صوبائی حکومت کی معاونت سے ریاست سے یہ معاہدہ ہوا ہے کہ یہ لوگ جیل سے نکلنے کے بعد پاکستان میں کسی کارروائی کا حصہ بننے کی بجائے جہاد کے لئے شام چلے جائیں گے۔
سال 2015ء کے رمضان المبارک سے قبل حمص میں گرفتار ہونے والوں میں شامل پاکستانی جنگجو امجد فاروق معاویہ کا اقبالی بیان براہ راست شامی ٹی وی چینل پر نشر ہوا اسی اعترافی بیان میں امجد فاروق معاویہ نے اعتراف کیا کہ لشکر جھنگوی اور داعش کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ دونوں تنظیمیں مل کر جہاد کریں گی۔
ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے اس کے اعترافی بیان سمیت متعدد ثبوت شامی آرمی چیف کے خصوصی ایلچی نے پاکستان پہنچائے تب یہاں ایک سطح پر لشکر جھنگوی کے خلاف آپریشن کلین آپ کا فیصلہ ہوا اس فیصلے کے نتیجے میں ملک اسحق (امیر لشکر جھنگوی) غلام رسول شاہ اور متعدد افراد مظفر گڑھ کے قریب پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
ہم اس تلخ حقیقت سے آنکھیں نہیں چراسکتے کہ بشار الاسد کے خلاف پچھلی دو ناکام بغاوتوں کے دوران جہاں ایک طرف لشکر جھنگوی اور اس کی ہم خیال تنظیم نے داعش کو شام کے جہاد کے لئے عددی تعاون فراہم کیا وہیں دوسری طرف امام علیؑ کی صاحبزادی بی بی سیدہ زینبؑ کے روضہ کی حفاظت کے لئے پاکستانی شیعہ نوجوانوں کی بھی ایک بڑی تعداد شام پہنچی اور انہوں نے وہاں حزب اللہ کے ساتھ مل کر کام کیا۔
اس عرصے میں عرب ذرائع ابلاغ ایران پر یہ الزام لگاتے رہے کہ ایران اپنی لبنانی و دیگر پراکسیوں کے ذریعے بشار الاسد کی حکومت بچانے کے لئے سرگرم ہے یہی نہیں بلکہ ان برسوں میں ہزاروں ایرانی رضاکاران نے شام اور عراق میں داعش وغیرہ کے خلاف جاری جنگ میں حصہ لیا۔
بشار مخالف بغاوتوں میں مقدس مقامات کی حفاظت کے نام پر پاکستانی شیعہ نوجوانوں کی شرکت کی خبروں نے اگلے برسوں میں حوزہ علیمہ نجف اشرف میں زیر تعلیم پاکستانی طلباء کے لئے شدید مشکلات پیدا ہیں۔ حوزہ علیمہ نجف میں زیر تعلیم ان طلباء میں سے درجنوں کو ان کی چھٹیوں پر پاکستان آمد کے عرصے میں ریاستی محکموں نے اپنی تحویل میں لے لیا صرف طلباء ہی نہیں بلکہ ان برسوں میں ایک سے زائد بار عراق اور شام جانے والے وہ پاکستانی شیعہ بھی زیر عتاب آئے جنہوں نے ویزوں کی مدت سے زیادہ ان ملکوں میں قیام کیا تھا۔
ریاستی محکموں کا موقف تب یہ رہا کہ یہ پاکستانی شیعہ زیارتوں کے نام پر عراق اور بالخصوص شام میں بشار الاسد حکومت کی غیر ریاستی ملیشیائوں کا حصہ بن کر مسلح کارروائیوں میں شرکت کرتے رہے ہیں ان برسوں میں اٹھائے گئے بہت سارے افراد آج بھی لاپتہ ہیں۔
بشار الاسد کے خلاف حالیہ کامیاب بغاوت کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر فرقہ پرستی میں گردن تک دھنسے ہوئے لوگ اپنی توپوں کے دہانے کھولے گولہ باری میں جُتے ہوئے ہیں۔ ادھر شام کے اندر صورتحال ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ پیچدہ ہوتی جارہی ہے۔
ادھر ہئیت التحریر الشام کے سربراہ ابو محمدالجولانی نے ایک طرف تو شامی فوجیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا ہے دوسری جانب ہئیت التحریر کے مسلح جنگجو سابق حکومت کے مختلف محکموں میں کام کرنے والے اہم عہدیداران خصوصاً خفیہ ایجنسیوں کے سرکردہ افراد کو گرفتار کر رہے ہیں۔
حالیہ بغاوت کے آغاز سے تادم تحریر حلب، حمص، دمشق سمیت دوسرے شہروں میں ہئیت التحریر الشام کے جنگجوئوں نے 27 بینکوں کو لوٹ لیا ایک اندازے کے مطابق جنگجوئوں نے ان بینکوں سے اڑھائی من سونا اور 81 کروڑ ڈالر کے علاوہ شامی کرنسی کی بڑی تعداد بھی لوٹ لی ہے۔
جاری ہے۔۔